ایک زمین۔۔۔دو شاعر (علامہ اقبالؒ، عبد الحئ عارفی)۔۔۔دو غزلیں


ایک زمین۔۔۔دو شاعر (علامہ اقبالؒ، عبد الحئ عارفی)۔۔۔دو غزلیں


علامہ اقبالؒ کی غزل:
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں

بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں



کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

کہہ گئیں راز محبت پردہ داریہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں

تھی کسی درماندہ رہرو کی صداۓ درد ناک
جس کو آواز رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں



مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحئ عارفیؔ کی غزل:

عیشِ بزمِ دوست، عیشِ جاوداں سمجھا تھا میں
یہ بھی اک خوابِ سحر ہے یہ کہاں سمجھا تھا میں

مجھ کو اپنی بیخودی کا وہ بھی عالم یاد ہے
جب کسی کو اپنے دل میں مہماں سمجھا تھا میں




لذتِ درد نہاں بھی بارِ خاطر تھی مجھے
کچھ اسے بھی اک حجابِ درمیاں سمجھا تھا میں

یادِ عہدِ آرزو بھی رفتہ رفتہ مٹ گئی
اور اسی کو حاصلِ عمرِ رواں سمجھا تھا میں

کیا غلط تھا اے دلِ نا عاقبت اندیش اگر
ان سے امیدِ وفا کو رائیگاں سمجھا تھا میں

منزلِ ذوقِ طلب میں، جادۂ ہستی سے دور
تم وہیں آخر ملے مجھ کو جہاں سمجھا تھا میں

رفتہ رفتہ ہو گئی برہم زن صبر و قرار
یاد اُن کی باعث تسکیں جاں سمجھا تھا میں

اللہ اللہ تھی انہیں کے پائے نازک پر جبیں
بیخودی میں سجدہ گہ کو آستاں سمجھا تھا میں

دل کی باتیں ان سے کہہ دیں اس طرح دیوانہ وار
جیسے ان کو اپنے دل کا راز داں سمجھا تھا میں

عارفیؔ کیا مجھ پہ ہوتا رنج و راحت کا اثر
زندگی کو دھوپ چھاؤں کا سماں سمجھا تھا میں

دو شاعر۔۔۔احمد فراز اور محسن نقوی۔۔۔ایک زمین۔۔۔دو غزلیں


دو شاعر۔۔۔احمد فراز اور محسن نقوی۔۔۔ایک زمین۔۔۔دو غزلیں

محسن نقوی کی غزل:

سایۂ  گُل سے بہر طَور جُدا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا

اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا



موسمِ گُل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا
قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رِہا ہو جانا

قصرِ آواز میں اک حشر جگا دیتا ہے
اُس حسیں شخص کا تصویر نما ہو جانا

راہ کی گرد سہی ، مائلِ پرواز تو ہُوں
مجھ کو آتا نہیں نقشِ کفِ پا ہو جانا

زندگی تیرے تبسّم کی وضاحت تو نہیں؟
موجِ طوفاں کا اُبھرتے ہی فنا ہو جانا

کیوں نہ اُس زخم کو میں پھول سے تعبیر کروں
جس کو آتا ہو ترا "بندِ قبا" ہو جانا

اشکِ کم گو! تجھے لفظوں کی قبا گر نہ مِلے
میری پلکوں کی زباں سے ہی ادا ہو جانا

قتل گاہوں کی طرح سُرخ ہے رستوں کی جبیں
اک قیامت تھا مِرا آبلہ پا ہو جانا

پہلے دیکھو تو سہی اپنے کرم کی وسعت
پھر بڑے شوق سے تُم میرے خدا ہو جانا

بے طلب دَرد کی دولت سے نوازو مجھ کو
دل کی توہین ہے مرہونِ دُعا ہو جانا

میری آنکھوں کے سمندر میں اُترنے والے
کون جانے تِری قسمت میں ہے کیا ہو جانا!

کتنے خوابیدہ مناظر کو جگائے محسن!
جاگتی آنکھ کا پتھرایا ہُوا ہو جانا!
(بندِ قبا:  1969)

احمد فراز کی غزل:

بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
تم بھی اوروں کی طرح مجھ سے جدا ہو جانا

میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں
تم بھی پا بستۂ زنجیرِ حنا ہو جانا



گرچہ اب قرب کا امکاں ہے بہت کم پھر بھی
کہیں مل جائیں تو تصویر نما ہو جانا

صرف منزل کی طلب ہو تو کہاں ممکن ہے
دوسروں کے لیے خود آبلہ پا ہو جانا

خلق کی سنگ زنی میری خطاؤں کا صلہ
تم تو معصوم ہو تم دُور ذرا ہو جانا

اب مرے واسطے تریاق ہے الحاد کا زہر
تم کسی اور پجاری کے خدا ہو جانا
(دردِ آشوب: 1966)


ایک زمین۔۔۔دو شاعر(فراق گورکھپوری، محسن نقوی)۔۔۔دو غزلیں


ایک زمین۔۔۔دو شاعر(فراق گورکھپوری، محسن نقوی)۔۔۔دو غزلیں


رگھو پتی سہائے فراقؔ گورکھپوری کی غزل:


دیکھ محبت کا یہ عالم
ساز بھی کم کم، سوز بھی کم کم

یہ شیرازۂ دل کا ہے عالم
یکجا یکجا، برہم برہم

حسن گلستاں شعلہ و شبنم
سوزاں سوزاں، پرنم پرنم

ساکت ساکت شورش عالم
دل کی صدا بھی مدھم مدھم

عالم عالم عشق بھی تنہا
تنہا حسن بھی عالم عالم

یہ کیا کم ہے عشق کا حاصل
کچھ مجھ کو غم، کچھ تجھ کو غم

رنگ ہے کس کا، روپ ہے کس کا
نکھرا نکھرا، مبہم مبہم

دل کی جراحت، تیری محبت
ایسا زخم نہ ایسا مرہم

آتی بہاریں جاتی بہاریں
دونوں کا حاصل دیدۂ پرنم

عشق میں سچ ہی کا رونا ہے
جھوٹے نہیں تم، جھوٹے نہیں ہم

ہم نے بھی آج فراقؔ کو دیکھا
سوز مکمل، درد مجسم


محسن نقوی کی غزل:


رات کی زلفیں بر ہم برہم
درد کی لَو ہے مدہم مدہم

میرے قصے گلیوں گلیوں
تیرا چرچا عالم عالم

پتھر پتھر عشق کی راتیں
حسن کی باتیں ریشم ریشم

یاقوتی ہونٹوں پر چمکیں
اُس کی آنکھیں نیلم نیلم

چہرہ لال گلاب کا موسم
بھیگی پلکیں شبنم شبنم

ایک جزا ہے جنت جنت
ایک خطا ہے آدم آدم

ایک لہو کے رنگ میں غلطاں
مقل مقتل، پرچم پرچم

ایک عذاب ہے بستی بستی
ایک صدا ہے ماتم ماتم

ساری لاشیں ٹکڑے ٹکڑے
ساری آنکھیں پرنم پرنم

ہجر کے لمحے زخمی زخمی
اس کی یادیں مرہم مرہم

داد طلب اعجازِ عصمت
عیسیٰ عیسیٰ، مریم مریم

محسن ہم اخبار میں گم ہیں
صفحہ صفحہ۔۔۔ کالم کالم




قرآن سے میرا تعلق از احمد ندیم قاسمی


میرے نانا ابو(جن کو ہم سے بچھڑے 22 برس بیت گئے ہیں) کی کتابوں کے ذخیرے  سے 1969ء کا سیارہ ڈائجسٹ ملا۔ زیادہ خوشی کی بات یہ تھی وہ "قرآن نمبر" تھا۔ میرے لئے ایک بہت ہی نایاب اور قیمتی چیز تھی۔ اس ڈائجسٹ میں سے کچھ تحاریر اپنے بلاگ پہ بھی شئیر کروں گا۔ لہٰذا اس سلسلے کی پہلی تحریر کے ساتھ حاضر ہوں۔

قرآن سے میرا تعلق:

جناب احمد ندیم قاسمی صاحب:-
میں نے تعلیم کا آغاز ہی قرآن مجید سے کیا۔ چار برس کی عمر تھی جب گاؤں کی مسجد میں درس لینا شروع کیا۔ ابتدائی پانچ پارے پڑھے تھے کہ یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پرائمری تعلیم کے بعد جب مڈل میں داخلے کے لئے اپنے سر پرست چچا کے ہاں پہنچا تو انہوں نے خود ہی قرآن کی تعلیم دینا شروع کی۔ یہ تعلیم قرآن کو ناظرہ پڑھنے تک محدود نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ متن کے اردو ترجمے کے علاوہ مفصل تفسیر بھی شامل تھی۔ یہ تفسیرِ حقانی تھی۔ پھر پانچویں جماعت سے بی اے تک میں نے عربی کی تعلیم حاصل کی اور یوں قرآن مجید کی تفہیم میں خاصی مدد ملی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد قرآن کے متعدد تراجم اور تفسیری نسخے زیرِ مطالعہ رہے لیکن اب میرا طریق یہ ہے کہ ترجمے کی صحت معلوم کرنی ہو تو مولانا اشرف علی تھانوی کا ترجمہ دیکھ لیتا ہوں اور کسی آیت کی تفسیر پیشِ نظر ہو تو مولانا ابو الکلام آزاد سے استفادہ کرتا ہوں۔ یوں تو قرآن مجید کے کسی ایک حصے کو کسی دوسرے حصے پہ ترجیح دینا گستاخی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرے نظریات پر اس آیت کا بے حد گہرا اثر ہے:

وَ عِبادُ الَّرحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمشُوْنَ عَلَے الْاَرْضِ ھَوْنَا وَّ اِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا

قرآن مجید کے متعلق مجھے یہ واقعہ کبھی نہیں بھولے گا کہ ایک گاؤں میں ایک نوجوان کسی الزام میں پکڑا گیا۔ معاملے سے تھانے کو مطلع کرنے کی بجائے گاؤں کے ناموس کے نام پر معززین کی ایک پنچایت کے سامنے پیش کیا گیا تھا،-----پنچایت نے یہ اعلان کیا کہ اگر یہ نوجوان قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر کہہ دے کہ اس پر الزام غلط ہے تو یہ اپنا دعویٰ واپس لے لیا جائے گا۔ نوجوان نے بھی یہ دعوت قبول کر لی۔ قرآنِ مجید کا ایک نسخہ منگایا گیا اور جب نوجوان سے کہا گیا کہ وہ اُسے چھو کر قسم کھائے تو وہ ایک قدم آگے بڑھا بھی، مگر پھر جیسے سناٹے میں آ گیا۔ اس کے جسم پر رعشہ طاری ہو گیا۔ رنگ فق ہو گیا۔ ہونٹ کانپنے لگے اور آخر اس نے بچوں کی طرح بلک بلک کر روتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔
٭٭٭٭٭

حکیم سید ضامن علی جلالؔ


حکیم سید ضامن علی جلالؔ

جلالؔ 1834ء میں پیدا ہوئے اور 1907ء میں وفات پائی۔
جلال کا کلام بہت مستند اور قابلِ قدر ہے۔ غزلیں بہت لطیف اور دلآویز ہوتی ہیں۔ عاشقانہ رنگ غالب ہے اور کلام میں جذبات کی آمیزش ہے۔ ان کی اکثر غزلیں لطافتِ بیان، نزاکتِ خیال، درد و اثر اور سوز و گداز کا اعلیٰ نمونہ کہی جا سکتی ہیں۔
چنانچہ خود کہتے ہیں:ـ
بے ساختہ کی تھام کے دل اس نے جلالؔ آہ
جس نے مرے دیوان کے اشعار کو دیکھا
اور اس کا اظہار ان کے کلام سے بھی ہوتا ہے
اسیرِ قفس اب تو ہیں ہم صفیرو
کبھی لوگ کہتے تھے مرغِ چمن بھی

آنسو رُکے تو کیا، نہیں چھپنے کا رازِ عشق
حسرت ٹپک پڑے کی ہماری نگاہ سے

کیا تھی کسی کی ترچھی نظر، کچھ نہ پوچھیے
اک تیر تھا، کلیجہ کے جو پار ہو گیا

نہ دل بنتا یار اپنا، نہ تم پر اختیار اپنا
کسی پر ہائے قابو بے بسی سے ہو نہیں سکتا

چاہتا ہوں کہیں گر پڑ کے رسا ہو جانا
تو ہی رہبر مری اے لغزشِ پا ہو جانا

کیا بتاؤں تجھے قاصد وہ کہاں رہتا ہے
دل سے دور اور قریبِ رگِ جاں رہتا ہے

اجل نے شب کو مرا قصہ مختصر نہ کیا
چراغِ زیست کو رخصت دمِ سحر نہ کیا

اک قدم جانا جدھر دشوار تھا
شوق لے کر سینکڑوں منزل گیا

لاکھ دل میں لے کے آیا تھا جلالؔ
پھر بھی بزمِ یار سے بے دل گیا

جفا کرتے ہیں کب تک با وفاؤں پر وہ، دیکھیں
ہمیں جو آزماتے تھے، اب ان کا امتحاں ہو گا

نگہ مست سے تیری وہ ٹپکتی ہے شراب
جو سبو میں نہیں، خم میں نہیں، ساغر میں نہیں

گناہِ عاشقی خواہانِ تعزیر آپ ہوتا ہے
بتا دیتا ہے شوقِ دار خود منصور ہو جانا

بڑے سامان سے دل جستجو کو اُس کی نکلا ہے
چلا ہے لے کہ اک مجمع نظر ہائے پریشاں کا

کاش مر جائے کسی کوچہ میں ہم فرقت نصیب
یاد تو کرتا کوئی کہہ کر کبھی بنتِ نصیب

جب آپ سرِ نہاں ہوئے ہیں تو رازِ الفت عیاں ہوئے
جو مٹ کے خود لامکاں ہوئے ہیں، سراغ پایا ہے لا مکاں کا

غرق دریائے محبت ہی کا بیڑا پار ہوا
ڈوبنے والے سے بہتر کوئی پیراک نہیں

کیا پھوٹ کے روئے ہیں مرے پاؤں کے چھالے
پوچھی تھی ذرا چھیڑ کے تکلیفِ سفر آج

کیا جان پہ کھیلے گا اس انداز سے کوئی
اس کھیل کو سیکھے ترے جانباز سے کوئی

(انتخاب: اردو شاعری پر ایک نظر از محمد جمیل احمد)

میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے

میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے:

سوداؔ:
مرزا سوداؔ جو میرؔ صاحب کے ہمعصر اور مدِّ مقابل تھے، کہتے ہیں
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرح

ناسخ:
شیخ ناسخؔ جو اپنی تنک مزاجی اور بد دماغی کے لئے مشہور ہیں، کہتے ہیں
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
اس کے لئے ناسخؔ نے میرؔ کی تاریخِ وفات کہی:
"واویلا مرد شۂِ شاعراں"
اس میں بھی انہوں نے میرؔ کی عظمت کا اعتراف "شہ شاعراں" کہہ کر کیا ہے۔

غالبؔ:
مرزا غالبؔ ناسخؔ کی اس رائے کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
مرزا غالبؔ دوسری جگہ میرؔ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں
میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں

ذوقؔ:
استاد ذوقؔ فرماتے ہیں
نہ ہوا، پر نہ ہوا، میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

مصحفیؔ:
اے مصحفیؔ تو اور کہاں شعر کا دعوےٰ
پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میرؔ کے منہ پر

شیفتہؔ:
نرالی سب سے ہے اپنی روش اے شیفتہؔ لیکن
کبھی دل میں ہو ائے شیوہ ہائے میرؔ پھرتی ہے

میر مہدی مجروحؔ:
یوں تو ہیں مجروحؔ شاعر سب فصیح
میرؔ کی پر خوش بیانی اور ہے

مولانا حالیؔ:
حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے
غالبؔ کا معتقد ہے، مقلد ہے میرؔ کا

مرزا داغؔ:
میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا

امیرؔ:
سوداؔ و میرؔ دونوں ہی استاد ہیں امیرؔ
لیکن ہے فرق آہ میں اور واہ واہ میں

جلال لکھنویؔ:
کہنے کو جلال آپ بھی کہتے ہیں وہی طرز
لیکن سخنِ میر تقی میرؔ کی کیا بات ہے

اسمٰعیل میرٹھی:
یہ سچ ہے کہ سوداؔ بھی تھا استاد زمانہ
مِیری تو مگر میرؔ ہی تھا شعر کے فن میں


اکبرؔ الہ آبادی:
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ

مولانا حسرتؔ موہانی:
گذرے ہیں بہت استاد، مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک

شعر میرے بھی ہیں پُر درد، ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں

احمد فرازؔ:
فرازؔ شہرِ غزل میں قدم سلوک سے رکھنا
کہ اِس میں میرؔ سا، غالبؔ سا خوش نوا بھی ہے


انتخاب: اردو شاعری پر ایک نظر از محمد جمیل احمد 
اور کچھ میرا ذاتی انتخاب بھی ہے۔ 

نوٹ: یہ مائیکرو سافٹ کا urdu typsetting فونٹ ہے۔

اے عشق ہمیں برباد نہ کر


اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم، تُو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہارِ صبح گئی، آنکھوں سے فروغِ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چُھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دُھنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں
اے عشق، یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر وقت خلِش، بے خواب ہوں میں، بیدار ہے وہ
جینے سے ادھر بیزار ہوں میں، مرنے پہ اُدھر تیار ہے وہ
اور ضبط کہے فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا، گھبرائے ہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کمہلائے ہوئے پھولوں کی طرح کمہلائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر، برباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
بے درد، ذرا انصاف تو کر، اس عمر میں اور مغموم ہے وہ
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی، تاروں کی طرح معصوم ہے وہ
یہ حسن، ستم، یہ رنج، غضب، مجبور ہوں میں، مظلوم ہے وہ
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق خدارا دیکھ کہیں، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
ناموس کا اس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
امید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دِکھلا خواب ہمیں
آئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بے تاب ہمیں
کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی، آتی ہے نظر کمیاب ہمیں
چھوڑ ایسی خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
کیا سمجھے تھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم
ہے پہلے پہل کا تجربہ اور کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم
اے عشق، خدارا رحم و کرم، معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم
نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا جائے کوئی تو خیر نہیں
آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آ جائے کوئی تو خیر نہیں
ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو خیر نہیں
ہے ظلم مگر فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دو دن ہی میں عہدِ طفلی کے، معصوم زمانے بُھول گئے
آنکھوں سےوہ خوشیاں مِٹ سی گئیں، لب کو وہ ترانے بُھول گئے
ان پاک بہشتی خوابوں کے، دلچسپ فسانے بُھول گئے
ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اس جانِ حیا کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے، بس میں ہے
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو پیار یہاں آپس میں ہے
ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
کہتی ہے حیا فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا، ہر جذبِ نہاں پر رو دینا
آہنگِ طرب پر جُھک جانا، آواز فغاں پر رو دینا
بربط کی صدا پر رو دینا، مُطرب کے بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
ہر دم ابدی راحت کا سماں دِکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
للہ، حبابِ آبِ رواں پر نقش بقا تحریر نہ کر
مایوسی کے رمتے بادل پر امید کے گھر تعمیر نہ کر
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جی چاہتا ہے اِک دوسرے کو یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں
آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو اور دل میں خیال آباد کریں
خِلوت میں بھی ہوجلوت کا سماں، وحدت کو دوئی سےشاد کریں
یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے، بے تاب سی ہے
امید یہاں اِک وہم سی ہے، تسکین یہاں اِک خواب سی ہے
دنیا میں خوشی کا نام نہیں، دنیا میں خوشی نایاب سی ہے
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

(اختر شیرانی)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px