کتھے مہر علیؔ کتھے تیری ثناء اور ترجمہ




کتھے مہر علیؔ کتھے تیری ثناء 



اَج سک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے
اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں

اَلْطَّیْفُ سَریٰ مِنْ طَلْعَتِہٖ
والشَّذُو بَدیٰ مِنْ وَفْرَتَہٖ
فَسَکَرْتُ ھُنَا مِنْ نَظْرَتِہٖ
نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں

مکھ چند بدر شعشانی اے
متھے چمکے لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے
مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں

دو ابرو قوس مثال دسن
جیں توں نوک مژہ دے تیر چھٹن
لباں سرخ آکھاں کہ لعل یمن
چٹے دند موتی دیاں ہن لڑیاں

اس صورت نوں میں جان آکھاں
جانان کہ جانِ جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تو شاناں سب بنیاں

ایہہ صورت ہے بے صورت تھیں
بے صورت ظاہر صورت تھیں
بے رنگ دسے اس مورت تھیں
وچ وحدت پھٹیاں جد گھڑیاں

دسے صورت راہ بے صورت دا
توبہ راہ کی عین حقیقت دا
پر کم نہیں بے سوجھت دا
کوئی ورلیاں موتی لے تریاں

ایہا صورت شالا پیش نظر
رہے وقت نزع تے روزِ حشر
وچ قبر تے پل تھیں جد ہوسی گذر
سب کھوٹیاں تھیسن تد کھریاں

یُعْطِیُکَ رَبُّکَ داس تساں
فَتَرْضیٰتھیں پوری آس اساں
لج پال کریسی پاس اساں
والشْفَعْ تُشَفَّعْ صحیح پڑھیاں

لاہو مکھ تو  بردِ یمن
من بھانوری جھلک دکھلاؤ سجن
اوہا مٹھیاں گالیں الاؤ مٹھن
جو حمرا وادی سن کریاں

حجرے توں مسجد آؤ ڈھولن
نوری جھات دے کارن سارے سکن
دو جگ اکھیاں راہ دا فرش کرن
سب انس و ملک حوراں پریاں

انہاں سکدیاں تے کرلاندیاں تے
لکھ واری صدقے جاندیاں تے
انہاں بردیاں مفت وکاندیاں تے
شالا آون وت بھی اوہ گھڑیاں

سُبْحَانَ اللہ مَا اجْمَلَکَ
مَا اَحْسَنَکَ مَا اَکمَلَکَ
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں

(پیر مہر علی شاہ گولڑوی شریف)

ترجمہ

ہے آج سجن کی پیاس بہت
کیوں دل مسکیں ہے اداس بہت؟
نس نس میں ہے شوق کی باس بہت
آنکھوں سے لگی ہیں کیوں جھڑیاں؟

مکھڑا اِک بدر ہے شعثانی
ماتھے پہ ہیں لاٹیں نورانی
زلفیں کالی، اور مستانی
آنکھیں ہیں نشیلی مَدھ بھریاں

دو ابرو مثالِ قوس لگیں
جن سے مژگاں کے تیر چلیں
لب لعلِ یمن کی سرخی دیں
اور دانت ہیں موتیوں کی لڑیاں

اس صورت کو میں جان کہوں
جانان کہ جانِ جہان کہوں
سچ کہوں تو رب کی شان کہوں
جس شان سے ہے ہر شان عیاں

یارب! ہو یہ صورت پیشِ نظر
جب نزع لگے، جب ہو محشر
جب قبر میں ہو اور پُل پہ گزر
سب کھوٹے بھی ہوں گے کھرے جہاں

آؤ حجرے سے مسجد پیارے
انک نوری جھلک مانگیں سارے
ہیں آنکھیں بچھائے متوارے
سب اِنس و ملک حوریں پریاں

ان روتے ہوئے دیوانوں پر
ان صدقے اترتی جانوں پر
بے دام غلام انسانوں پر
پھر آئیں خدایا! وہ گھڑیاں

سُبْحَانَ اللہ مَا اجْمَلَکَ
مَا اَحْسَنَکَ مَا اَکمَلَکَ
کہاں مہرؔ علی، کہاں تیری ثنا
گستاخ نظر جا ٹھہری کہاں

(پروفیسر کرم حیدری (کرم داد خان))


سُبْحَانَ اللہ مَا اجْمَلَکَ
سبحان اللہ! آپ ﷺ کتنے جمیل ہیں
مَا اَحْسَنَکَ مَا اَکمَلَکَ
آپ ﷺ کتنے حسین ہیں، آپ ﷺ کتنے کامل ہیں

حکیم سید ضامن علی جلالؔ


حکیم سید ضامن علی جلالؔ

جلالؔ 1834ء میں پیدا ہوئے اور 1907ء میں وفات پائی۔
جلال کا کلام بہت مستند اور قابلِ قدر ہے۔ غزلیں بہت لطیف اور دلآویز ہوتی ہیں۔ عاشقانہ رنگ غالب ہے اور کلام میں جذبات کی آمیزش ہے۔ ان کی اکثر غزلیں لطافتِ بیان، نزاکتِ خیال، درد و اثر اور سوز و گداز کا اعلیٰ نمونہ کہی جا سکتی ہیں۔
چنانچہ خود کہتے ہیں:ـ
بے ساختہ کی تھام کے دل اس نے جلالؔ آہ
جس نے مرے دیوان کے اشعار کو دیکھا
اور اس کا اظہار ان کے کلام سے بھی ہوتا ہے
اسیرِ قفس اب تو ہیں ہم صفیرو
کبھی لوگ کہتے تھے مرغِ چمن بھی

آنسو رُکے تو کیا، نہیں چھپنے کا رازِ عشق
حسرت ٹپک پڑے کی ہماری نگاہ سے

کیا تھی کسی کی ترچھی نظر، کچھ نہ پوچھیے
اک تیر تھا، کلیجہ کے جو پار ہو گیا

نہ دل بنتا یار اپنا، نہ تم پر اختیار اپنا
کسی پر ہائے قابو بے بسی سے ہو نہیں سکتا

چاہتا ہوں کہیں گر پڑ کے رسا ہو جانا
تو ہی رہبر مری اے لغزشِ پا ہو جانا

کیا بتاؤں تجھے قاصد وہ کہاں رہتا ہے
دل سے دور اور قریبِ رگِ جاں رہتا ہے

اجل نے شب کو مرا قصہ مختصر نہ کیا
چراغِ زیست کو رخصت دمِ سحر نہ کیا

اک قدم جانا جدھر دشوار تھا
شوق لے کر سینکڑوں منزل گیا

لاکھ دل میں لے کے آیا تھا جلالؔ
پھر بھی بزمِ یار سے بے دل گیا

جفا کرتے ہیں کب تک با وفاؤں پر وہ، دیکھیں
ہمیں جو آزماتے تھے، اب ان کا امتحاں ہو گا

نگہ مست سے تیری وہ ٹپکتی ہے شراب
جو سبو میں نہیں، خم میں نہیں، ساغر میں نہیں

گناہِ عاشقی خواہانِ تعزیر آپ ہوتا ہے
بتا دیتا ہے شوقِ دار خود منصور ہو جانا

بڑے سامان سے دل جستجو کو اُس کی نکلا ہے
چلا ہے لے کہ اک مجمع نظر ہائے پریشاں کا

کاش مر جائے کسی کوچہ میں ہم فرقت نصیب
یاد تو کرتا کوئی کہہ کر کبھی بنتِ نصیب

جب آپ سرِ نہاں ہوئے ہیں تو رازِ الفت عیاں ہوئے
جو مٹ کے خود لامکاں ہوئے ہیں، سراغ پایا ہے لا مکاں کا

غرق دریائے محبت ہی کا بیڑا پار ہوا
ڈوبنے والے سے بہتر کوئی پیراک نہیں

کیا پھوٹ کے روئے ہیں مرے پاؤں کے چھالے
پوچھی تھی ذرا چھیڑ کے تکلیفِ سفر آج

کیا جان پہ کھیلے گا اس انداز سے کوئی
اس کھیل کو سیکھے ترے جانباز سے کوئی

(انتخاب: اردو شاعری پر ایک نظر از محمد جمیل احمد)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px