خودکلامی


خودکلامی

دیکھے ہی نہیں وہ لب و رخسار و گیسو
بس ایک کھنکتی ہوئی آواز کا جادو
حیران پریشاں لیے پھرتا ہے بہر سُو

پابندِ تصور نہیں وہ جلوئہ بے تاب
ہو دُور تو جگنو ہے قریب آئے تو خوشبو
لہرائے تو شعلہ ہے چھنک جائے تو گھنگرو

باندھے ہیں نگاہوں نے صداﺅں کے بھی منظر
وہ قہقہے جیسے بھری برسات میں کُو کُو
جیسے کوئی قمری سر شمشاد لبِ جُو

اے دل تری باتوں میں کہاں تک کوئی جائے
جذبات کی دنیا میں کہاں سوچ کے پہلو
کب آئے ہیں فتراک میں وحشت زدہ آہُو

مانا کہ وہ لب ہوں گے شفق رنگ و شرر خُو
شاید کہ وہ عارض ہوں گُلِ تر سے بھی خوشرو
دل کش ہی سہی حلقہءزلف و خمِ ابرو

یہ کس کو خبر کس کا مقدر ہے یہ سب کچھ
خوابوں کی گھٹا دُور برس جائے گی اور تُو
لَوٹ آئے گا لے کر فقط آہیں فقط آنسو
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

No Response to "خودکلامی"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px