خوشبو ہے، دھنک ہے چاندنی ہے


غزل
خوشبو ہے، دھنک ہے چاندنی ہے
وہ اچھے دِنوں کی شاعری ہے

بھیگے ہوئے پھُول حرف اُس کے
رِم جِھم کی زباں میں بولتی ہے

ہاتوں میں تھکن ہے شام جیسی
لہجے میں سَحر کی تازگی ہے

یہ اُس کی صدا کا بھولپن ہے!
یا شمعِ سخن پگھل رہی ہے؟

چہرے یہ حیا کا روپ، جیسے
دریا میں شفق سی گھُل گئی ہے

آنکھوں میں گلاب کھِل رہے ہیں
کیا جانے وہ کب سے جاگتی ہے؟

برسا ہے خمار چاندنی کا!
یا اُس کی جبیں دَمک اُٹھی ہے؟

کیا جانے وہ کیسے مُسکرائی؟
ہیرے سے کرن سی چھَن پڑی ہے!

چہرے پہ بکھر کے زُلف اُس کی
سوُرج سے خراج مانگتی ہے

وہ محوِ خرام یوں ہے۔۔ جیسے
اِک شاخ ہوا سے کھیلتی ہے

پَل بھر کو سَرک گیا جو آنچل
کلیوں کی طرح سمٹ گئی ہے

پروا ہی نہیں ا ُسے کسی کی
اپنے سے وہ کتنی اجنبی ہے!

آئینہ ہی دیکھتا ہے اُس کو
آئینہ کہاں وہ دیکھتی ہے؟

وہ غنچہ دَہن "سکوت زادی"
کھلنے پہ بھی کم ہی بولتی ہے

میں اُس کے بغیر کچھ نہ سوچوں
شاید وہ یہ بات سوچتی ہے

میں اُس کی انا کا بانکپن ہوں
وہ میری غزل کی دلکشی ہے

میں گرم رتوں کی لَو کا موسم
وہ سَرد رتوں کی سادگی ہے

اے خَلوتَیانِ مہ جبیناں!
وہ آپ ہی اپنی آگہی ہے!

اے مُشتریانِ حُسنِ عالَم
وہ دونوں جہاں سے قیمتی ہے

میں اُس کی رفاقتوں پہ نازاں
محسنؔ وہ غرورِ دوستی ہے

سو بار میں اُس سے کھو گیا ہوں
ہنستی ہوئی پھر سے مل گئی ہے

محسنؔ یہ نہ کُھل سکے گا مجھ پہ
وہ فن ہے کہ فن کی زندگی ہے!
(محسن نقوی)
                                                                                             (طلوعِ اشک)        

No Response to "خوشبو ہے، دھنک ہے چاندنی ہے "

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px