ذرّہ ذرّہ میں اسی کو جلوہ گر سمجھا تھا میں از مولانا اصغر حسین اصغرؔ گونڈوی



ذرّہ ذرّہ میں اسی کو جلوہ گر سمجھا تھا میں
عکس کو حیرت میں آئینہ مگر سمجھا تھا میں

دید کیا، نظارہ کیا، اس کی تجلّی گاہ میں
وہ بھی موجِ حسن تھی جس کو نظر سمجھا تھا میں



پھر وہی واماندگی ہے، پھر وہی بیچارگی
ایک موجِ بوئے گُل کو بال و پر سمجھا تھا میں

یہ تو شب کو سر بسجدہ ساکت و مدہوش تھے
ماہ و انجم کو تو سر گرمِ سفر سمجھا تھا میں

دہر ہی نے مجھ پہ کھولی راہ بے پایانِ عشق
راہبر کو اک فریب رہ گذر سمجھا تھا میں

کتنی پیاری شکل اس پردے میں ہے جلوہ فروز
عشق کو ژولیدہ مو، آشفتہ سر سمجھا تھا میں

تا طلوعِ جلوۂ خورشید پھر آنکھیں ہیں بند
تجھ کو اے موجِ فنا، نورِ سحر سمجھا تھا میں

مست و بیخود ہیں مہ و انجم، زمین و  آسماں
یہ تری محفل تھی جس کو رہگذر سمجھا تھا میں

ذرّہ ذرّہ ہے یہاں کا رہرو راہِ فنا
سامنے کی بات تھی جس کو خبر سمجھا تھا میں

پتّے پتّے پر ہے چمن کی وہی چھائی ہوئی
عندلیبِ زار کو اک مشت پر سمجھا تھا میں

کائنات دہر ہے سرشارِ اسرارِ حیات
ایک مست آگہئ کو بے خبر سمجھا تھا میں

جان ہے محوِ تجلّی، چشم و گوش و لب ہیں بند
حسن کو حسنِ بیاں، حسنِ نظر سمجھا تھا میں

میں تو کچھ لایا نہیں اصغرؔ بجز بے مائیگی
سر کو بھی اس آستاں پر، درد سر سمجھا تھا میں

No Response to "ذرّہ ذرّہ میں اسی کو جلوہ گر سمجھا تھا میں از مولانا اصغر حسین اصغرؔ گونڈوی"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px