پاﺅں سے لہو کو دھو ڈالو


پاﺅں سے لہو کو دھو ڈالو

ہم کیا کرتے کس راہ چلتے
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے
اُن رشتوں کے جو چھوٹ گئے
اُن صدیوں کے یارانوں کے
جو اک اک کر کے ٹوٹ گئے
جس راہ چلے، جس سمت گئے
یوں پاﺅں لہولہان ہوئے
سب دیکھنے والے کہتے تھے
یہ کیسی رِیت رچائی ہے
یہ مہندی کیوں لگائی ہے
وہ کہتے تھے، کیوں قحطِ وفا
کا ناحق چرچا کرتے ہو
!پاﺅں سے لہو کو دھو ڈالو
یہ راہیں جب اٹ جائیں گی
سو رستے اِن سے پھوٹیں گے
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے
(فیض احمد فیض)
(شامِ شہر یاراں)
(1973)

No Response to "پاﺅں سے لہو کو دھو ڈالو"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px