پھر دل میں سلگ اٹھی ہے زنجیر کی خواہش
اب خواب ہیں مطلوب نہ تعبیر کی خواہش
پاگل دلِ ناداں تھا کہ کرتا رہا شب بھر
خوابوں کی حویلی میں کسی ہیر کی خواہش
یہ بارِ محبت تو سنبھالے نہیں سنبھلا
اور اُس پہ سِوا سلسلۂ میرؔ کی خواہش
ناداں تھے وہ انسان، جو ڈھاتے رہے دیوار
معمار تو کرتا رہا تعمیر کی خواہش!
رہتا ہوں مقامِ مہ و انجم سے بھی آگے
پر دل میں ہے کچھ اور بھی تسخیر کی خواہش
(محمد بلال اعظم)