Showing posts with label اختر شیرانی. Show all posts
Showing posts with label اختر شیرانی. Show all posts

میرا نظریۂ شعر از اختر شیرانی


میرا نظریۂ شعر از اختر شیرانی


                 ۔۔۔ میں نے جب شعر کہنا شروع کیا تو شاعری کے افادی مقاصد کا وہ تصور کہیں موجود نہ تھا جسے آج ترقی پسندی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس تصور نے کافی فروغ پا لیا۔۔۔ شاعر کا کام زندگی کے حسن کو خود دیکھنا اور دوسروں کو دکھانا ہے۔ زندگی کے ناسوروں کے علاج کی کوشش کرنا اس کا کام نہیں۔
            ۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانے نے بعض ایسے نا گزیر مسئلے میرے سامنے لا رکھے ہیں جن سے گریز ممکن ہے نہ مصالحت۔ سیاست میں آواز اور خیالات کا اثر بڑھ گیا ہے، اقتصادی کش مکش ہمہ گیرہوتی جا رہی ہے، تجارتی لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری نے سماج کے ہر ایک طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور بے شمار ملک اور گروہ ہماری دنیا کے خوبصورت جسم کے بڑے بڑے ناسور بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم شاعر بھی انسان ہونے کی حیثیت سے ان اثرات کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے لیکن ہمارا ان ناسوروں کی جراحی کر کے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کرنا ایک اناڑی کی کوشش سے زیادہ نہ ہو گا۔ ان کا علاج تو سیاسی اور اقتصادی ماہروں کے ہاتھ میں ہے اور انہی پر علاج کا فرض بھی عائد ہوتا ہے۔۔۔
            ۔۔۔ شاعری افراد اور اقوام کے لئے ایک لطیف غذا تو بن سکتی ہے جو ان کے ذائقے کی تشفی کرے اور اس کی عمدگی کو برقرار رکھےلیکن اس سے بیمار اور بوڑھی قوموں کے حق میں 'معجونِ شباب آور' کا کام لینا میرے نزدیک بہت بڑی زیادتی ہے۔ ترقی پسندی کی تحریک کو جس قدر بھی فروغ اب تک حاصل ہوا ہے اس کا باعث اس کے بنیادی تصور کی دلکشی نہیں بلکہ اس کے لیبل کی دلکشی ہے۔ اس کے لیبل کو دیکھ کر ذہن سب سے پہلے ترقی پسندوں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔۔۔
            ۔۔۔ میرے نزدیک شاعر کے لئے اپنے آپ کو کسی سیاسی یا اقتصادی نظام سے وابستہ کرنا ضروری نہیں۔ وہ نظام سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت، جمہوریت ہو یا فاشیت، شاعر کے لئے ان میں سے ایک بھی قابلِ توجہ نہیں۔ شاعر کی قدریں ان سب سے الگ اور آزاد ہیں۔
                    (1942ء کی ایک ریڈیائی تقریر سے)
شاعر: اختر شیرانی
ماخذ: کلیاتِ اختر شیرانی
مُرتّبہ: گوپال متّل
ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس (9 گولا مارکیٹ دریا گنج نئی دھلی)

او دیس سے آنے والے بتا!


او دیس سے آنے والے بتا!

انٹرنیٹ پہ ہر جگہ تلاش کیا مگر یہ نظم اپنی مکمل شکل میں دستیاب نہ ہو سکی۔ لہٰذا اسے "کلیاتِ اختر شیرانی" سے مکمل نقل کر کے پوسٹ کر رہا ہوں۔
یہ نظم اختر شیرانی کی کتاب "اخترستان" میں شامل ہے۔












او دیس سے آنے والے بتا!
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یارانِ وطن
آوارۂ غربت کو بھی سُنا
کس رنگ میں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن، فردوسِ وطن
وہ سرو وطن، ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں
مستانہ ہوائیں آتی ہیں؟
کیا اب بھی وہاں کے پربت پر
گھنگھور گھٹائی چھاتی ہیں؟
کیا اب بھی وہاں کی برکھائیں
ویسے ہی دلوں کو بھاتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سر مست نظارے ہوتے ہیں؟
کیا اب بھی سہانی راتوں کو
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں؟
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے
کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی شفق کے سایوں میں
دن رات کے دامن ملتے ہیں؟
کیا اب بھی چمن میں ویسے ہی
خوشرنگ شگوفے کھلتے ہیں؟
برساتی ہوا کی لہروں سے
بھیگے ہوئے پودے ہلتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
شاداب و شگفتہ پھولوں سے
معمور ہیں گلزار اب کہ نہیں؟
بازار میں مالن لاتی ہے
پھولوں کے گندھے ہار اب کہ نہیں؟
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں
نو عمر خریدار اب کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا شام پڑے گلیوں میں وہی
دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے؟
اور سڑکوں کی دھندلی شمعوں پر
سایوں کا بسیرا ہوتا ہے؟
باغوں کی گھنیری شاخوں میں
جس طرح سویرا ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں
اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں؟
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی
اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں؟
وہ حُسن کے جادو چلتے ہیں
وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
ویرانیوں کے آغوش میں ہے
آباد وہ بازار اب کہ نہیں؟
تلواریں بغل میں دابے ہوئے
پھرتے ہیں طرحدار اب کہ نہیں؟
اور بہلیوں میں سے جھانکتے ہیں
تُرکانِ سیہ کار اب کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی مہکتے مندر سے
ناقوس کی آواز آتی ہے؟
کیا اب بھی مقدّس مسجد پر
مستانہ اذاں تھرّاتی ہے؟
اور شام کے رنگیں سایوں پر
عظمت کی جھلک چھا جاتی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر
پنہاریاں پانی بھرتی ہیں؟
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں؟
اور اپنے گھروں کو جاتے ہوئے
ہنستی ہویہ چہلیں کرتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
برسات کے موسم اب بھی وہاں
ویسے ہی سہانے ہوتے ہیں؟
کیا اب بھی کے باغوں میں
جھُولے اور گانے ہوتے ہیں؟
اور دُور کہیں کچھ دیکھتے ہیں
نو عمر دِوانے ہوتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پہاڑی چوٹیوں پر
برسات کے بادل چھاتے ہیں؟
کیا اب بھی ہوائے ساحل کے
وہ رس بھرے جھونکے آتے ہیں؟
اور سب سے اونچی ٹیکری پر
لوگ اب بھی ترانے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں
گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں؟
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں
برکھا کی ہوائیں گونجتی ہیں؟
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں
موروں کی صدائیں گونجتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں، میلوں میں وہی
برسات کا جوبن ہوتا ہے؟
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں
جھُولوں کا نشیمن ہوتا ہے؟
اُمڈے ہوئے بادل آتے ہیں
چھایا ہوا ساون ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا شہر کے گرد، اب بھی ہیں رواں
دریائے حسیں لہرائے ہوئے؟
جُوں گود میں اپنے من کو لئے
ناگن ہو کوئی تھرّائے ہوئے؟
یا نور کی ہنسلی، حُور کی گردن
میں ہو عیاں بل کھائے ہوئے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی فضا کے دامن میں
برکھا کے سمے لہراتے ہیں؟
کیا اب بھی کنارِ دریا پر
طوفان کے جھونکے آتے ہیں؟
کیا اب بھی اندھیری راتوں میں
ملّاح ترانے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں برسات کے دن
باغوں میں بہاریں آتی ہیں؟
معصوم و حسیں دوشیزائیں
برکھا کے ترانے گاتی ہیں؟
اور تیتریوں کی طرح سے رنگیں
جھولوں پہ لہراتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی اُفق کے سینے پر
شاداب گھٹائیں جھومتی ہیں؟
دریا کے کنارے باغوں میں
مستانہ ہوائیں جھومتی ہیں؟
اور اُن کے نشیلے جھونکوں سے
خاموش فضائیں جھومتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا شام کو اب بھی جاتے ہیں
احباب، کنارِ دریا پر؟
وہ پیڑ گھنیرے اب بھی ہیں
شاداب، کنارِ دریا پر؟
اور پیار سے آ کر جھانکتا ہے
مہتاب، کنارِ دریا پر؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا آم کے اونچے پیڑوں پر
اب بھی وہ پپیہے بولتے ہیں؟
شاخوں کے حریری پردوں میں
نغموں کے خزانے کھولتے ہیں؟
ساون کے رسیلے گیتوں سے
تالاب میں امرس گھولتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا پہلی سی ہے معصوم ابھی
وہ مدرسے کی شاداب فضا؟
کچھ بھُولے ہوئے دن گزرے ہیں
جس میں، وہ مثالِ خواب فضا؟
وہ کھیل، وہ ہمسن، وہ میداں
وہ خواب گہِ مہتاب فضا؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی کسی کے سینے میں
باقی ہے ہماری چاہ بتا؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ے اب
یاروں میں کوئی، آہ بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا
لِللّٰہ بتا، لللّٰہ بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا ہم کو وطن کے باغوں کی
مستانہ فضائیں بھول گئیں؟
برکھا کی بہاریں بھول گئیں
ساون کی گھٹائیں بھول گئیں؟
دریا کے کنارے بھول گئے
جنگل کی ہوائیں بھول گئیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا گاؤں میں اب بھی ویسے ہی
مستی بھری راتیں آتی ہیں؟
دیہات کی کم سن باہوشیں
تالاب کی جانب آتی ہیں؟
اور چاند کی سادہ روشنی میں
رنگین ترانے گاتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی گجر دم چرواہے
ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں؟
اور شام کے دھندلے سایوں کے
ہمراہ گھروں کو آتے ہیں؟
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں
عشق کے نغمے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں
برکھا کی بہاریں چھاتی ہیں؟
معصوم گھروں سے بھوربھئے
چکّی کی صدائیں آتی ہیں؟
اور یاد میں اپنے میکے کی
بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
دریا کا وہ خواب آلودہ سا گھاٹ
اور اُس کی فضائیں کیسی ہیں؟
وہ گاؤں، وہ منظر، وہ تالاب
اور اُن کی صدائیں کیسی ہیں؟
وہ کھیت، وہ جنگل، وہ چڑیاں
اور اُن کی صدائیں کیسی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر
تاریخ کی عبرت طاری ہے؟
اَن پورنا کے اجڑے مندر پر
مایوسی و حسرت طاری ہے؟
سنسان گھروں پر چھاؤنی کے
ویرانی و رقّت طاری ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا
وہ غارتِ ایماں کیسی ہے؟
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی
وہ آفتِ دوراں کیسی ہے؟
ہم دونوں تھے جس کے پروانے
وہ شمعِ شبستاں کیسی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
مرجانہ تھا جس کا نام بتا
وہ غنچہ دہن کس حال میں ہے؟
جس پر تھے فدا طفلانِ وطن
وہ جانِ وطن کس حال میں ہے؟
وہ سروِ چمن، وہ رشکِ سمن
وہ سیم بدن کس حال میں ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی رخِ گلرنگ پہ
وہ جنّت کے نظارے روشن ہیں؟
کیا اب بھی رسیلی آنکھوں میں
ساون کے ستارے روشن ہیں؟
اور اُس کے گلابی ہونٹوں پر
بجلی کے شرارے روشن ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی شہابی عارض پر
گیسوئے سیہ بل کھاتے ہیں؟
یا بحرِ شفق کی موجوں پر
دو ناگ پڑے لہراتے ہیں؟
اور جن کی جھلک سے ساون کی
راتوں کے سے سپنے آتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
اب نامِ خدا، ہو گی وہ جواں
میکے میں ہے یا سسرال گئی؟
دوشیزہ ہے یا آفت میں اُسے
کم بخت جوانی ڈال گئی؟
گھر پر ہی رہی، یا گھر سے گئی
خوشحال رہی، خوشحال گئی؟
او دیس سے آنے والے بتا!


شاعر: اختر شیرانی
ماخذ: کلیاتِ اختر شیرانی
مُرتّبہ: گوپال متّل
ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس (9 گولا مارکیٹ دریا گنج نئی دھلی)

اے عشق ہمیں برباد نہ کر


اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم، تُو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہارِ صبح گئی، آنکھوں سے فروغِ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چُھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دُھنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں
اے عشق، یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر وقت خلِش، بے خواب ہوں میں، بیدار ہے وہ
جینے سے ادھر بیزار ہوں میں، مرنے پہ اُدھر تیار ہے وہ
اور ضبط کہے فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا، گھبرائے ہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کمہلائے ہوئے پھولوں کی طرح کمہلائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر، برباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
بے درد، ذرا انصاف تو کر، اس عمر میں اور مغموم ہے وہ
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی، تاروں کی طرح معصوم ہے وہ
یہ حسن، ستم، یہ رنج، غضب، مجبور ہوں میں، مظلوم ہے وہ
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق خدارا دیکھ کہیں، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
ناموس کا اس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
امید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دِکھلا خواب ہمیں
آئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بے تاب ہمیں
کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی، آتی ہے نظر کمیاب ہمیں
چھوڑ ایسی خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
کیا سمجھے تھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم
ہے پہلے پہل کا تجربہ اور کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم
اے عشق، خدارا رحم و کرم، معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم
نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا جائے کوئی تو خیر نہیں
آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آ جائے کوئی تو خیر نہیں
ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو خیر نہیں
ہے ظلم مگر فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دو دن ہی میں عہدِ طفلی کے، معصوم زمانے بُھول گئے
آنکھوں سےوہ خوشیاں مِٹ سی گئیں، لب کو وہ ترانے بُھول گئے
ان پاک بہشتی خوابوں کے، دلچسپ فسانے بُھول گئے
ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اس جانِ حیا کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے، بس میں ہے
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو پیار یہاں آپس میں ہے
ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
کہتی ہے حیا فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا، ہر جذبِ نہاں پر رو دینا
آہنگِ طرب پر جُھک جانا، آواز فغاں پر رو دینا
بربط کی صدا پر رو دینا، مُطرب کے بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
ہر دم ابدی راحت کا سماں دِکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
للہ، حبابِ آبِ رواں پر نقش بقا تحریر نہ کر
مایوسی کے رمتے بادل پر امید کے گھر تعمیر نہ کر
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جی چاہتا ہے اِک دوسرے کو یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں
آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو اور دل میں خیال آباد کریں
خِلوت میں بھی ہوجلوت کا سماں، وحدت کو دوئی سےشاد کریں
یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے، بے تاب سی ہے
امید یہاں اِک وہم سی ہے، تسکین یہاں اِک خواب سی ہے
دنیا میں خوشی کا نام نہیں، دنیا میں خوشی نایاب سی ہے
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

(اختر شیرانی)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px