شکست


شکست

بارہا مجھ سے کہا دل نے کہ اے شعبدہ گر
تُو کہ الفاظ سے اصنام گری کرتا ہے
کبھی اُس حُسنِ دل آرا کی بھی تصویر بنا
جو تری سوچ کے خاکوں میں لہو بھرتا ہے

!بارہا دل نے یہ آواز سنی اور چاہا
مان لوں مجھ سے جو وجدان مرا کہتا ہے
لیکن اس عجز سے ہارا مرے فن کا جادو
چاند کو چاندسے بڑھ کر کوئی کیا کہتا ہے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)


وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا


غزل

وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات بھی کی اور تیرا نام بھی نہ لیا

خوشا وہ لوگ کہ محرومِ التفات رہے
ترے کرم کو بہ اندازِ سادگی نہ لیا

تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے
ہزار شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا

تمام مستی و تشنہ لبی کے ہنگامے
کسی نے سنگ اٹھایا کسی نے مینا لیا

فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات بھی تھی اندھیری چراغ بھی نہ لیا
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)


دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی


غزل

دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
اب تو ہم لوگ گئے، دیدئہ بے خواب سے بھی

رو پڑا ہوں تو کوئی بات ہی ایسی ہو گی
میں کہ واقف تھا ترے ہجر کے آداب سے بھی

کچھ تو اس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بےتاب سے بھی

اے سمندر کے ہَوا تیرا کرم بھی معلوم
پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی

کچھ تو اُس حسن کو جانے ہے زمانہ سارا
اور کچھ بات چلی ہے مرے احباب سے بھی

دل کبھی غم کے سمندر کا شناور تھا فراز
اب تو خوف آتا ہے اک موجہءپایاب سے بھی
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

سُن بھی اے نغمہ سنجِ کنجِ چمن اب سماعت کا اعتبار کسے


غزل

سُن بھی اے نغمہ سنجِ کنجِ چمن اب سماعت کا اعتبار کسے
کون سا پیرہن سلامت ہے دیجیے دعوتِ بہار کسے

جل بجھیں دردِ ہجر کی شمعیں گھل چکے نیم سوختہ پیکر
سر میں سودائے خام ہو بھی تو کیا طاقت و تابِ انتظار کسے

نقدِ جاں بھی تو نذر کر آئے اور ہم مفلسوں کے پاس تھا کیا
کون ہے اہلِ دل میں اتنا غنی اس قدر پاس طبعِ یار کسے

کاہشِ ذوق جستجو معلوم داغ ہے دل چراغ ہیں آنکھیں
ماتمِ شہرِ آرزو کیجیے فرصتِ نغمہءقرار کسے

کون دارائے ملکِ عشق ہُوا کس کو جاگیر چشم و زلف ملی
خونِ فرہاد، برسرِ فرہاد“ قصرِ شیریں پہ اختیار کسے

حاصلِ مشرب مسیحائی سنگِ تحقیر و مرگِ رسوائی
قامت یار ہو کہ رفعتِ دار ان صلیبوں کا اعتبار کسے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)


خودکشی


خودکشی

وہ پیمان بھی ٹوٹے جن کو
ہم سمجھے تھے پایندہ
وہ شمعیں بھی داغ ہیں جن کو
برسوں رکھا تابندہ
دونوں وفا کر کے ناخوش ہیں
دونوں کیے پر شرمندہ
پیار سے پیارا جیون پیارے
کیا ماضی کیا آیندہ
ہم دونوں اپنے قاتل ہیں
ہم دونوں اب تک زندہ
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

اظہار


اظہار

پتھر کی طرح اگر میں چپ رہوں
تو یہ نہ سمجھ کہ میری ہستی
بیگانہ شعلہِ وفا ہے
تحقیر سے یوں نہ دیکھ مجھے
اے سنگ تراش! تیرا تیشہ
ممکن ہے کہ ضربِ اولیں سے
پہچان سکے کہ میرے دل میں
جو آگ ترے لئے دبی ہے
وہ آگ ہی میری زندگی ہے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے


غزل

خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

اِک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو! درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر
یارانِقفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے


غزل

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے
کیا خبر تھی کہ بہار اس کے بھی ارمان میں ہے

ایک ضرب اور بھی اے زندگیِ تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مری جان میں ہے

میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے

فاصلے قرب کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
میں ترے شہر سے دُور اور تُو مرے دھیان میں ہے

سرِ دیوار فروزاں ہے ابھی ایک چراغ
اے نسیمِ سحری! کچھ ترے امکان میں ہے

دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے گاہے گاہے
جےسے اب بھی تری آواز مرے کان میں ہے

خلقتِ شہر کے ہر ظلم کے با وصف فراز
ہائے وہ ہاتھ کہ اپنے ہی گریبان میں ہے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن


غزل 

نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا بدن

سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوﺅں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن

دلِ فریب زدہ! دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قد و گیسو ہیں کل کہ دار و رسن

غریبِ شہر کسی سایہءشجر میں نہ بیٹھ
کہ اپنی چھاﺅں میں خود جل رہے ہیں سرو و سمن

بہارِ قرب سے پہلے اجاڑ دیتی ہیں
جدائیں کی ہوائیں محبتوں کے چمن

وہ ایک رات گزر بھی گئی مگر اب تک
وصالِ یار کی لذت سے ٹوٹتا ہے بدن

پھر آج شب ترے قدموں کی چاپ کے ہمراہ
سنائی دی ہے دلِ نامراد کی دھڑکن

یہ ظلم دیکھ کہ تُو جانِ شاعری ہے مگر
مری غزل میں ترا نام بھی ہے جرمِ سخن

امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہءمذہب کبھی بنامِ وطن

ہوائے دہر سے دل کا چراغ کیا بجھتا
مگر فراز سلامت ہے یار کا دامن
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)


دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے


غزل

دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اُڑا لے جائے

کون لایا تری محفل میں ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تری محفل سے اُٹھا لے جائے

اور سے اور ہوئے جاتے ہیں معیارِ وفا
اب متاعِ دل و جاں بھی کوئی کیا لے جائے

جانے کب ابھرے تری یاد کا ڈوبا ہُوا چاند
جانے کب دھیان کوئی ہم کو اُڑا لے جائے

یہی آوارگیِ دل ہے تو منزل معلوم
جو بھی آئے تری باتوں میں لگا لے جائے

دشتِ غربت میں تمہیں کون پکارے گا فراز
چل پڑو خود ہی جدھر دل کی صدا لے جائے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)


خودکلامی


خودکلامی

دیکھے ہی نہیں وہ لب و رخسار و گیسو
بس ایک کھنکتی ہوئی آواز کا جادو
حیران پریشاں لیے پھرتا ہے بہر سُو

پابندِ تصور نہیں وہ جلوئہ بے تاب
ہو دُور تو جگنو ہے قریب آئے تو خوشبو
لہرائے تو شعلہ ہے چھنک جائے تو گھنگرو

باندھے ہیں نگاہوں نے صداﺅں کے بھی منظر
وہ قہقہے جیسے بھری برسات میں کُو کُو
جیسے کوئی قمری سر شمشاد لبِ جُو

اے دل تری باتوں میں کہاں تک کوئی جائے
جذبات کی دنیا میں کہاں سوچ کے پہلو
کب آئے ہیں فتراک میں وحشت زدہ آہُو

مانا کہ وہ لب ہوں گے شفق رنگ و شرر خُو
شاید کہ وہ عارض ہوں گُلِ تر سے بھی خوشرو
دل کش ہی سہی حلقہءزلف و خمِ ابرو

یہ کس کو خبر کس کا مقدر ہے یہ سب کچھ
خوابوں کی گھٹا دُور برس جائے گی اور تُو
لَوٹ آئے گا لے کر فقط آہیں فقط آنسو
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

شاخِ نہالِ غم


شاخِ نہالِ غم

میں ایک برگِ خزاں کی مانند
کب سے شاخِ نہالِ غم پر
لرز رہا ہوں
مجھے ابھی تک ہے یاد وہ جاں فگار ساعت
کہ جب بہاروں کی آخری شام
مجھ سے کچھ یوں لپٹ کے روئی
کہ جیسے اب عمر بھر نہ دیکھے گا
ہم میں ایک دوسرے کو کوئی
وہ رات کتنی کڑی تھی
جب آندھیوں کے شب خوں سے
بوئے گل بھی لہو لہوتھی

سحر ہوئی جب تو پیڑ یوں خشک و زرد رُو تھے
کہ جیسے مقتل میں میرے بچھڑے ہوئے رفیقو ںکی
زخم خوردہ برہنہ لاشیں
گڑی ہوئی ہیں
میں جانتا تھا
کہ جب یہ بوجھل اشجار
جن کی کہنہ جڑیں زمیں کی عمیق گہرائیں میں برسوں سے جا گزیں تھیں
ہجومِ صرصر میں چند لمحے یہ ایستادہ نہ رہ سکے تو
میں ایک برگِ خزاں بھی
شاخِ نہالِ غم پر رہ سکوں گا


وہ ایک پل تھا کہ ایک رُت تھی
مگر مرے واسطے بہت تھی
مجھے خبر ہے کہ کل بہاروں کی اوّلیں صبح
پھر سے بے برگ و بار شاخوں کو
زندگی کی نئی قبائیں عطا کرے گی
مگرمرا دل دھڑک رہا ہے
مجھے، جسے آندھیوں کی یورش
خزاں کے طوفاں نہ چھُو سکے تھے
کہیں نسیمِ بہار۔۔۔شاخِ نہالِ غم سے
جُدا نہ کر دے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px