Showing posts with label اے عشق جنوں پیشہ. Show all posts
Showing posts with label اے عشق جنوں پیشہ. Show all posts

ایک زمین ۔۔۔ پانچ شعراء (حفیظ تائب، نصیر الدین نصیر ، سراج اورنگ آبادی، قمر جلالوی، احمد فراز)


تعلیمی مصروفیات کے سبب ایک عرصے کی غیر حاضری کے بعد آج پہلی پوسٹ ہے۔ سو پیشِ خدمت ہے۔

استادِ شاعر سراج اورنگ آبادی دکنی کی زمین میں جناب قمر جلالوی، جناب حفیظ تائب، جناب نصیر الدین نصیر اور جناب احمد فراز نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ یہ پانچوں شاہکار ایک جگہ جمع کر سکوں۔ سراج دکنی اور قمر جلالوی کی غزلیں اردو محفل سے لی گئی ہیں جبکہ نصیر الدین نصیر کی نعت استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب (بابا جانی) کی لائبریری سے حاصل کردہ کتاب سے لی ہے اور احمد فراز کی غزل "اے عشق جنوں پیشہ" اور حفیظ تائب کی نعت "کلیاتِ حفیظ تائب" سے ٹائپ کی گئی ہیں۔

نعت رسولِ مقبول ﷺ از حفیظ تائب

رہی عمر بھر جو انیسِ جاں، وہ بس آرزوئے نبیؐ رہی
کبھی اشک بن کے رواں ہوئی، کبھی درد بن کے دبی رہی

شہِؐ دیں کے فکر و نگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے تفرقے
نہ رہا تفاخرِ منصبی، نہ رعونتِ نسبی رہی



سرِ دشتِ زیست برس گیا، جو سحابِ رحمتِ مصطفےٰؐ
نہ خرد کی بےثمری رہی، نہ جنوں کی تشنہ لبی رہی

تھی ہزار تیرگئ فتن، نہ بھٹک سکا مرا فکر و فن
مری کائناتِ خیال پر نظرِ شہِؐ عربی رہی

وہ صفا کا مہرِ منیر ہے، طلب اُس کی نورِ ضمیر ہے
یہی روزگارِ فقیر ہے، یہی التجائے شبی رہی

وہی ساعتیں تھیں سُرور کی، وہی دن تھے حاصلِ زندگی
بحضورِ شافعِؐ امّتاں مری جن دنوں طلبی رہی
٭٭٭

نعت رسولِ مقبول ﷺ از نصیر الدین نصیر

کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی

جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے
وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی



وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا
کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری رہی

مجھے بس ترا ہی خیال تھا ترا روپ میرا جمال تھا
نہ کبھی نگاہ تھی حور پر ، نہ کبھی نظر میں پری رہی

ترے آستاں سے جدا ہوا تو سکونِ دل نہ مجھے ملا
مری زندگی کے نصیب میں جو رہی تو دربدری رہی

ترا حسن آنکھ کا نور ہے ، ترا لطف وجہ سرور ہے
جو ترے کرم کی نظر نہ ہو تو متاع دل نظری رہی

جو ترے خیال میں گم ہوا تو تمام وسوسے مٹ گئے
نہ جنوں کی جامہ دری رہی ، نہ خرد کی درد سری رہی

مجھے بندگی کا مزا ملا ، مجھے آگہی کا صلہ ملا
ترے آستانہ ناز پر ، جو دھری جبیں تو دھری رہی

یہ مہ و نجوم کی روشنی ترے حسن کا پرتو بدل نہیں
ترا ہجر ، شب کا سہاگ تھا ، مرے غم کی مانگ بھری رہی

رہ عشق میں جو ہوا گزر ، دل و جاں کی کچھ نہ رہی خبر
نہ کوئی رفیق نہ ہم سفر ، مرے ساتھ بے خبری رہی

ترے حاسدوں کو ملال ہے ، یہ نصیر فن کا کمال ہے
ترا قول تھا جو سند رہا ، تری بات تھی جو کھری رہی
٭٭٭

غزل از سراج اورنگ آبادی

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی

شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی



چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں بیاں
کہ شرابِ حسرت و آرزو، خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر ہے یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پری میں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی
٭٭٭

غزل از قمر جلالوی

مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گلُ کا تو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی

مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
تِرے جام خالی نہ ہو سکے مِری چشمِ تر نہ بھری رہی



میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھے رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی

مجھے علم تیرے جمال کا نہ خبر ہے تیرے جلال کی
یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی

میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا
مری جب بھی در بدری رہی مری اب بھی در بدری رہی

یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا
وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی

شبِ وعدہ وہ جو نہ آسکے تو قمر کہوں گا یہ چرخ سے
ترے تارے بھی گئے رائگاں تری چاندنی بھی دھری رہی
٭٭٭

غزل از احمد فراز

ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی
کہ جو روشنی ترے جسم کی تھی مرے بدن میں بھری رہی

ترے شہر میں چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مرے
تو میں کس سے محوِ کلام تھا؟ تو یہ کس کی ہمسفری رہی؟



مجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک ترا دھیان تھا
تو مثال تھی مری آگہی تو کمال بے خبری رہی

مرے آشنا بھی عجیب تھے نہ رفیق تھے نہ رقیب تھے
مجھے جاں سے درد عزیز تھا انہیں فکرِ چارہ گری رہی

میں یہ جانتا تھا مرا ہنر ہے شکست و ریخت سے معتبر
جہاں لوگ سنگ بدست تھے وہیں میری شیشہ گری رہی

جہاں ناصحوں کا ہجوم تھا وہیں عاشقوں کی بھی دھوم تھی
جہاں بخیہ گر تھے گلی گلی وہیں رسمِ جامہ دری رہی

ترے پاس آ کے بھی جانے کیوں مری تشنگی میں ہراس تھا
بہ مثالِ چشمِ غزال جو لبِ آبجو بھی ڈری رہی

جو ہوس فروش تھے شہر کے سبھی مال بیچ کے جا چکے
مگر ایک جنسِ وفا مری سرِ رَہ دھری کی دھری رہی

مرے ناقدوں نے فرازؔ جب مرا حرف حرف پرکھ لیا
تو کہا کہ عہدِ ریا میں بھی جو بات کھری تھی کھری رہی
٭٭٭

بحر اور تقطیع:

بحر: بحر کامل مثمن سالم
افاعیل: مُتَفاعِلُن مُتَفاعِلُن مُتَفاعِلُن مُتَفاعِلُن
اشاری نظام: 21211-21211-21211-21211

تقطیع:
21211-21211-21211-21211
رہی عمر بھر جو انیسِ جاں، وہ بس آرزوئے نبیؐ رہی
ر ہِ عم ر بر- جَ ا نی سِ جا – وَ ب سا ر زو- ئے ن بِ ر ہی

21211-21211-21211-21211
کبھی اشک بن کے رواں ہوئی، کبھی درد بن کے دبی رہی
ک بِ اش ک بن- کِ ر وا ہُ ئی- ک بِ در د بن- کِ د بی ر ہی

اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے


اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے

جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے

تم نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پہ اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے

تم محبت میں کہاں سو د و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے

اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کُن فیکوں ہے یوں ہے

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص32)

ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک


ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک
دکھ تو یہ ہے کہ ہے ملاح بھی سازش میں شریک

تا ہمیں ترکِ تعلق کا بہت رنج نہ ہو
آؤ تم کو بھی کریں ہم اِسی کوشش میں شریک

اک تو وہ جسم طلسمات کا گھر لگتا ہے
اس پہ ہے نیتِ خیاط بھی پوشش میں شریک

ساری خلقت چلی آتی ہے اُسے دیکھنے کو
کیا کرے دل بھی کہ دنیا ہے سفارش میں شریک

اتنا شرمندہ نہ کر اپنے گنہگاروں کو
اے خدا تُو بھی رہا ہے مری خواہش میں شریک

لفظ کو پھول بنانا تو کرشمہ ہے فرازؔ
ہو نہ ہو کوئی تو ہے تیری نگارش میں شریک

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص170)

نذرِ قرۃ العین طاہرہ اور نوای طاہرہ


کل احمد فراز کی آخری کتاب اے عشق جنوں پیشہ میں ایک نظم "قرۃ العین طاہرہ" پڑھنے کو ملی۔


نذرِ قرۃ العین طاہرہ

تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو
دل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دو بدو


ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو


قوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکن
غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بو بہ بو


دامِ خیالِ یار کے ایسے اسیر ہم ہوئے
طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہر خو بہ خو

ہم نے لباس درد کا قالبِ جاں پہ سی لیا
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو


نقش کتابِ دل پہ تھا ثبت اُسی کا طاہرہؔ
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو


شیشۂ ریختہ میں دیکھ لعبتِ فارسی فرازؔ
خال بہ خال خد بہ خد نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو


(احمد فراز) 
(اے عشق جنوں پیشہ، ص106)


 اس نظم کے متعلق جناب محترم سید زبیر صاحب نے نے کچھ معلومات مہیا کی ہیں جو واقعی پڑھنے کے قابل ہیں۔
اُن کی جازت سے یہاں شئیر کر رہا ہوں۔

قراۃ العین طاہرہ فارسی کی مشہور شاعرہ رہ چکی ہیں ، بہائی مذہب سے ان کا تعلق تھا اسی وجہ سے نہائت بے دردی سے انہیں قتل کیا گیا تھا ۔ خاوند ایران کے ایک مجتہد تھے ان سے طلاق لے لی تھی ۔صاحب دیوان تھیں ۔جاویدنامہ میں ایک غزل نوائی طاہرہ کے عنوان سے موجود ہے۔ احمد فراز کی اس غزل کو کسی حد تک اس کا ترجمہ کہا جاسکتا ہے ، علامہ اقبالؒ کی غزل بمعہ سلیس نثری ترجمہ حسب ذیل ہے:

نوای طاہرہ
گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ ، روبرو
شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ ، موبمو
اگر تجھ پہ میری نظر کچھ اس طرح پڑےکہ تو میرے بالکل سامنے ہو اور تیرا چہرہ میرے چہرے کے سامنے ہوتو پھر میں تیرے غم عشق کی تفصیل ایک ایک گہری بات اور رمز سے بیان کروں

از پی دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام
خانہ بخانہ در بدر ، کوچہ بکوچہ کوبکو
تیرا چہرہ دیکھنے کے لیےمیں صبح کی نرم ولطیف ہوا کی مانند چلی پھری ہوں اور میں گھر گھر ،در در ،کوچہ کوچہ اور گلی گلی پھری ہوں

میرود از فراق تو خون دل از دو دیدہ ام
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم ، چشمہ بہ چشمہ جوبجو
تیرے فراق میں میرا خون دل میری آنکھوں سے رواں ہے اور وہ دریادریا،سمندر سمندر،چشمہ چشمہ اور ندی ندی بہہ رہا ہے

 مہر ترا دل حزین بافتہ بر قماش جان
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ ، تار بہ تار پو بہ پو
میرے غمزدہ دل نے تیری محبت کو جان کے قماش پر بن لیا ہے،دھاگہ دھاگہ ،باریک باریک، تار تار اور تانا بانا خوب ملا کر بن لیا

در دل خویش طاہرہ ، گشت و ندید جز ترا
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بتو
طاہرہ نے اپنے دل کے اندر نظر ڈالی مگر اسے دل کے صفحہ صفحہ،گوشہ گوشہ پردہ پردہ اور تہہ در تہہ تیرے سوا کوئی نظر نہ آیا

سوز و ساز عاشقان دردمند
شورہای تازہ در جانم فکند
اہل درد عاشقوں کے پر سوز ہنگاموں نے میری جاں میں نئے ہنگامے برہا کردیے

مشکلات کہنہ سر بیرون زدند
باز بر اندیشہ ام شبخون زدند
پرانی مشکلات نے اپنا سر اٹھا لیا اور ایک مرتبہ پھر میری فکر پر شب خون مارا

قلزم فکرم سراپا اضطراب
ساحلش از زور طوفانی خراب
میری فکر کا سمندر پوری طرح طوفان خیز بن گیا اور طوفان کی شدت سے اس کا ساحل خراب ہو گیا

گفت رومی "وقت را از کف مدہ
اے کہ می خواہی کشود ہر گرہ
رومی نے کہا جو اپنی ہر مشک کا خواہاں ہے ، تو وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دے

چند در افکار خود باشی اسیر
"این قیامت را برون ریز از ضمیر
تو کب تک اپنے افکار میں اسیر رہے گا۔ضمیر کا یہ بوجھ باہر گرا دے

قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ


قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ

میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ

ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ

بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگزار
پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم اللہ

ہم کو گلچیں سے گِلا ہے گل و گلشن سے نہیں
تجھ کو آنا ہے تو اے بادِ صبا بسم اللہ

گرتے گرتے جو سنبھالا لیا قاتل نے فراز
دل سے آئی کسی بسمل کی صدا، بسم اللہ

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص30)

اک ذرا سُن تو مہکتے ہوئے گیسو والی


اک ذرا سُن تو مہکتے ہوئے گیسو والی
راہ میں کون دُکاں پڑتی ہے خوشبو والی

پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی

دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدوخال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی

گفتگو ایسی کہ بس دل میں اُترتی جائے
نہ تو پُرپیچ نہ تہہ دار نہ پہلو والی

ایک منظر کی طرح دل پہ منقش ہے ابھی
اک مُلاقات سرِ شام لبِ جُو والی

درد ایسا ہے کہ بجھتا ہے چمک جاتا ہے
دل میں اک آگ سی ہے آگ بھی جُگنو والی

جیسے اک خواب سرائے سے گزر ہو تیرا
کوئی پازیب چھنک جاتی ہے گھنگرو والی

زعم چاہت کا تھا دونوں کو مگر آخرِ کار
آگئی بیچ میں دیوار من و توُ والی

ایسا لگتا ہے کہ اب کے جو غزل میں نے کہی
آخری چیخ ہے دم توڑتے آہو والی

اک نگاہِ غلط انداز ہی اے جانِ فراز
شوق مانگے ہے خلش تیرِ ترازو والی

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص43)

روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں


روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں

عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں

پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں

بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے(1؎ )لگ جاتے ہیں

کترنیں غم کی جو گلیوں میں اڑی پھرتی ہیں
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں

داغ دامن کے ہوں، دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں

1؎ ضرورتِ اظہار

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص47)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px