اشفاق احمد صاحب کی87ویں سالگرہ



آج لیجنڈری اشفاق احمد صاحب کا یوم پیدائش ہے -
آپ 22 اگست 1925 کو پیدا ہوئے اور 7 ستمبر 2004 کو ہم سب کو داغِ مفارقت دے گئے۔

اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین

آپ سب بھی انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں شکریہ -

اللہ تعالیٰ آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔

ان کی تحاریر سےمیرے چند پسندیدہ  چند اقتباسات (جو زاویہ ڈاٹ کام سے لئے گئے ہیں) پیشِ خدمت ہیں:

"اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق حقیقی ہے، اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشق حقیقی ایک درخت ہے اور عشق مجازی اسکی شاخ ہے۔
جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔۔۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔"
٭٭٭
محبت آزادی ہے۔ مکمل آزادی۔ حتٰی کہ محبت کے پھندے بھی آزادی ہیں جو شخص بھی اپنے آپ کو محبت کی ڈوری سے باندھ کر محبت کا اسیر ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں آزادی کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرو۔ محبت تلاش نہ کرو۔۔۔۔ آزادی کی تلاش بیسیوں مرتبہ انسان کو انا کے ساتھ باندھ کر اسے نفس کے بندی خانے میں ڈال دیتی ہے۔ محبت کا پہلا قدم اٹھتا ہی اس وقت ہے جب وجود کے اندر سے انا کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے۔ محبت کی تلاش انا کی موت ہے۔ انا کی موت مکمل آزادی ہے۔
٭٭٭
ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔
٭٭٭
محبت آزادی ہے۔ مکمل آزادی۔ حتٰی کہ محبت کے پھندے بھی آزادی ہیں جو شخص بھی اپنے آپ کو محبت کی ڈوری سے باندھ کر محبت کا اسیر ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں آزادی کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرو۔ محبت تلاش نہ کرو۔۔۔۔ آزادی کی تلاش بیسیوں مرتبہ انسان کو انا کے ساتھ باندھ کر اسے نفس کے بندی خانے میں ڈال دیتی ہے۔ محبت کا پہلا قدم اٹھتا ہی اس وقت ہے جب وجود کے اندر سے انا کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے۔ محبت کی تلاش انا کی موت ہے۔ انا کی موت مکمل آزادی ہے۔
انا دنیا پر قبضہ جمانے کا پروگرام بناتی ہے۔ یہ موت سے غایت درجہ خوف کھاتی ہے۔ اس لیے زندگی پر پورا پورا قبضہ حاصل کرنے کا پلان وضع کرتی ہے۔ انا دنیاوی اشیاء کے اندر پرورش پاتی ہے اور مزید زندہ رہنے کے لیے روحانی برتری میں نشوونما حاصل کرنے لگتی ہے۔ اس دنیا کی غلامی اور چاکری کی ڈور انا کے ساتھ بندھی ہے۔ انا خود غلامی ہے، خود محکومی ہے۔ انا کو آزاد کرانا اور اسے غلامی سے نجات دلانا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام تو خود کو انا کی غلامی اور محکومی سے آزاد کرانا ہے۔ یاد رکھئے انا کبھی بھی اپنایت سے، قربانی سے، مذہب سے، علم سے، علم سے خوفزدہ نہیں ہوتی بلکہ ان سب کے لیے تن من کی بازی لگا دیتی ہے۔ انا اگر خوفزدہ ہے تو صرف محبت سے۔
٭٭٭

عید الفطر 2012 بہت بہت مبارک ہو آپ سب کو،


السلامُ علیکم دوستو، آپ سب کو ، آپ کے اہلِ خانہ کو، آپ کے محلے والوں کو اور تمام چھوٹے بڑوں کی میری طرف سے عیدالفطر 
بہت بہت مبارک ہو۔ اللہ کرے یہ عید آپ سب کی زندگیوں میں بہار کی نوید بن کر آئے۔
ایک دوست بلاگر کے بلاگ پہ ایک نظم پڑھی تھی سو آپ سب کی نذر
اے اللہ
اس عید پر دینا
مجھے کچھ ایسا تحفہ
بس رہ جائیں
میرے اپنوں کے گرد
خوشیاں ہی خوشیاں
رہے ان پر ہمیشہ
تیری برکتوں کا سایہ
دنیا ہی نہیں
آخرت میں‌بھی
کر تو بلند
میرے اپنوں کا رتبہ
کچھ اس طرح سے کر ان پر
رحمتوں کی بارش
کہ نہ رہے باقی
کوئی دکھ ان کا
دے دے تو ان کو وہ سب بھی
جو کبھی انہوں نے
نہ ہو مانگا
میری خوشیاں بھی دے دے
تو میرے اپنوں کو
تو سنتا ہے سب کی
میری بھی سن لے مولا
آمین

جان تیری، جہان تیرا ہے


غزل

جان تیری، جہان تیرا ہے
دل کہاں ہے ،مکان تیرا ہے

فصل سود و زیاں کی میری ہے
فصلِ غم کا لگان تیرا ہے

کوئی بھی آسرا نہیں دیتا
کیا زمیں، آسمان تیرا ہے

تھے جو مشکل سوال، سب میرے
پیش اب امتحان تیرا ہے

ہم غریبوں کے آستانے کے
سامنے، آستان تیرا ہے

گھر ہو، مے خانہ ہو کہ محفل ہو
ہر جگہ ہم کو دھیان تیرا ہے

توڑ دی ہیں قیودِ جسم و جاں
دل کو پھر بھی گمان تیرا ہے

مے کدے کو بلال گھر ہی سمجھ
ایک یہ بھی مکان تیرا ہے
(محمد بلال اعظم)
(اصلاح کردہ: اعجاز عبید صاحب)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px