بے وارث لمحوں کے مقتل میں


محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں لیکن اس کے ساتھ ہی محسن کی نثر،  جو کہ ان کی کتابوں کے دیباچے کی شکل میں موجود ہے، اس میدان میں بھی محسن کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔
محسن نقوی کی کتاب"طلوعِ اشک" کا دیباچہ انتساب کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔

بے وارث لمحوں کے مقتل میں
            مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ مَیں نے پہلا شعر کب کہا تھا۔ (یہ بہت پہلے کی بات ہے)۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں پہلا "سچ" کب بولا تھا؟ (یہ بھی شاید بہت پرانا قصّہ ہے)۔ پہلا شعر اور پہلا سچ کون یاد رکھتا ہے؟۔ اور اتنی دُور پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ اُدھر کون سی روشنی ہے۔ گھُپ اندھیرے کی ریت پر ہانپتے ہوئے چند بے وارث لمحے۔ پچھتاوے کی زد میں جانے کب اور کہاں کھو گئے۔؟
            مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ کچھ بھی تو یاد نہیں
"ماضی" بھی تو کتنا بخیل ہے۔ کبھی کبھی تو حافظے کی غربت کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور پھر اندھے کنویں کی طرح کچھ بھی تو نہیں اگلتا۔ اپنے اندر جھانکنے والوں سے پوری بینائی وصول کرتا ہے۔ بِیتے دنوں کے اُس گھُپ اندھیرے میں بھی کیا کچھ تھا۔؟


میرا کچا مکان (جِس کی چھت کی کڑیوں سے میری سانسیں اَڑی ہوئی تھیں۔ اُس مکان میں جلتا ہوا مٹی کا "دیا"۔ جِس کی پھیکی روشنی نے مجھے لفظوں کے باطن میں اترنے کا حوصلہ بخشا۔ گُم صُم گلیوں میں کھیلتی ہوئی آوارہ دھوپ۔ جِس نے مجھے اداس راتوں کے پُرہَول سناٹے سے اُلجھنے کا سلیقہ سکھایا۔ مَیلی دیواروں سے پھسلتی ہوئی چاندنی۔ جو رائیگاں ہونے کی بجائے میرے خوابوں کی بے آواز بستی کا اثاثہ بن گئی۔ دھول میں لپٹی ہوئی بے خوف ہَوا جو میرے مسلسل سفر کی اکیلی گواہی بن کر مجھے دِلاسہ دیتی رہی۔ نا ہَموار آنگن میں ناچتی لُو سے جھلستے چہروں کی مشقّت، جس نے مجھے محرومیوں سے سمجھوتے کا انداز مستعار دیا۔ خشک ہونٹوں پر جمی ہوئی مسکراہٹ۔ جس نے مصائب و آلام کی بارش میں مجھے زندہ رہنے کا اعتماد عطا کیا۔ سہمی صبحیں، گونگی دوپہریں، بہری شامیں اور اندھی راتیں کِتنی کہانیوں کو بُنتے بُنتے راکھ ہو گئیں۔ اور ان کی کہانیوں کا کوئی ایک ریزہ بھی میرے پاس نہیں ہے۔ میرا سب کچھ میرے ماضی کے پاس گروی ہے۔
            اِس "سب کچھ" میں میرا ہنستا کھیلتا، پہیلیاں بوجھتا اور شرارتیں سوچتا بچپن بھی شامل ہے، جِسے اُس کے کھلونوں سمیت میرے ماضی نے میری دسترس سے دُور فنا کر اُس کے نقوش کھرچ ڈالے ہیں۔
            ماضی کو کون سمجھائے کہ بچپن تو ہوتا ہی یاد کرنے کے لئے ہے۔ مگر میرا بچپن؟ کِسی دیوار کی اوٹ جلتے دہکتے تندور سے باہر جھانکتے شعلوں سے اڑتی چنگاریوں کی طرح جیسے فضا میں بکھر کر کہیں بجھ گیا ہے۔ دُور بہت دُور فضا میں تحلیل ہوتے ہوئے دھویں کے اُس پار کتنی شفیق آنکھیں کتنے صبیح چہروں سے پھوٹتی ہوئی دعاؤں کی کُہر اور کِتنی نیک روحوں کے قُرب کی پاکیزہ خوشبو آج بھی میرے تپتے تپکتے دل کی لَو دیتی رگوں میں برفیلے لمس کی شبنم انڈیلتی محسوس ہوتی ہے۔
            اور اب کیا کیجیے۔ کہ اب تو آتے جاتے موسموں کا سَبھاؤ صرف سوچوں کے بہاؤ پر منحصر ہے۔ معصوم جذبوں کا بھولپن اب فقط شکستہ قلم کی شہ رگ سے ٹپکتے ہوئے لہو کے بے ترتیب قطروں میں کبھی کبھی اپنا دھندلا سا عکس دیکھ لیتا ہے۔ اور رائیگاں جاگتی آنکھیں صرف تنہائی کی لوریوں سے بہل کر سو جاتی ہیں یا کہیں کھو جاتی ہیں۔
            کُہرام مچاتی سانسوں کے اِس جاں گُداز اور آبلہ نواز سفر میں کیا کیا لوگ اپنا اپنا روگ دل میں لئے دھول اُڑاتے سنّاٹے کا رِزق ہوئے۔ کیسی کیسی رنگ رچاتی محفلیں اپنے توانا ہنگاموں سمیت پلک جھپکتے آنکھ سے اوجھل ہو گئیں۔ کیا کیا کُندن چہرے اب اپنی پہچان کا حوالہ مجھ سے طَلَب کرتے ہیں۔
            جیسے مَیں اِن دنوں بے وارث لمحوں کے مقتل سے گزر رہا ہوں۔ لمحوں کا مقتل جس میں شامِ غریباں آہستہ آہستہ اُتر رہی ہے۔
لمحوں کے اِس مقتل میں میری مسافت ختم ہوتی ہے نہ شامِ غریباں کا دھواں سرد پرتا ہے۔ میرے پاؤں میں آبلے بندھے ہوئے ہیں۔ جسم بارشِ سنگِ ملامت سے داغ داغ اور ہونٹ مسلسل مصروفِ گفتگو۔ مگر کِس سے؟ شاید رفتگاں کا راستہ بتاتی ہوئی دھول سے یا اپنے تعاقب میں آنے والے اُن رہروؤں کی آہٹوں سے؟ جو سفر کے اگلے موڑ پر مسلط سنّاٹے سے بے خبر ہیں۔ سنّاٹا۔ جو کبھی کبھی دل والوں کی بستی پر شبخوں مار کر ساری سوچیں، تمام جذبے اور کچّے خواب تک نگل لیتا ہے۔
            میرا قبیلہ میرے کَرب سے نا آشنا ہے۔ میرے ساتھ جِن ہجر والوں نے سفر آغاز کیا تھا وہ یا تو راستے کی گرد اوڑھ کر سو چکے ہیں، یا مجھ سے اوجھل اپنی اپنی خندقیں کھودنے میں مصروف ہیں۔ اور مَیں کل کی طرح آج بھی "اکیلا" ہوں۔
میرے اِرد گِرد خراشوں سے اَٹے ہوئے کچھ اجنبی چہروں کے کٹے پھٹے خدوخال ہیں۔ بھوک سے نڈھال بے نطق و لب ادھوری سوچوں کے پنجر۔ ریزہ ریزہ خوابوں کی چبھتی ہوئی کِرچیاں۔ محرومیوں کے بوجھ تلے رینگتی خواہشوں کی ٹیڑھی میڑھی قطاریں۔ دَم توڑتی محبّتوں کی بے ترتیب ہچکیاں۔ پا بُریدہ حسرتیں۔ سَر بہ زانو واہمے۔
            اور بدن دَریدہ اندیشے۔ ایسے اُجاڑ سَفر میں کون میرے دکھ بانٹنے کو میرے ساتھ چلے۔؟ یہاں تو ہَوا کے سہمے ہوئے جھونکے بھی دَبے پاؤں اترتے اور چُپ چاپ گزرتے ہیں۔ یہاں کون میرے مجروح جذبوں پر دلاسوں کے "پھاہے" رکھے؟ کِس میں اتنا حوصلہ ہے کہ میری روداد سُنے؟ کوئی نہیں۔ سوائے میری سخت جان تنہائی کے۔ جو میری خالی ہتھیلیوں پر قسمت کی لکیر کی طرح ثبت ہے۔ میرے رتجگوں کی غمگسار اور میری تھکن سے چُور آنکھوں میں نیند کی طرح بھر گئی ہے۔
            سنگلاخ تنہائی کے اِس بنجر پن میں دہکتے مہکتے جذبوں کے گلاب اُگانا اور اُنہیں بے ربط آنسوؤں سے شاداب رکھنا میرا مقصد بھی ہے اور میرا فن بھی۔ بس اِسی دُھن میں سکوت کے ہولناک صحرا میں لمحہ لمحہ سوچوں کی بستیاں بسا کر اُن میں لفظوں کے رنگ رنگ چراغ روشن کرتا ہوں۔ جانے کب سے جانے کب تک؟
            ہَوا مجھ سے برہم، سنّاٹا میرے تعاقب میں، حوادث مجھ سے دست و گریباں، صبحیں مجھ سے گریزاں اور شامیں، میری آنکھوں پر اندھیرا "باندھنے" کے لئے مضطرب۔ مگر مَیں (مسافت نصیب، سفر مزاج)۔ "گُزشتہ" کی راکھ پر "آئیندہ" کی دیوار اٹھا اُس کی منڈیر پر اپنی آنکھیں جلا رہا ہوں تاکہ میرے بعد آنے والوں کی تھکن لمحہ بھر کو سستا سکے۔
مَیں۔ تلخیاں بانٹتی اور تنہائیاں چھڑکتی ہوئی زندگی سے قطرہ قطرہ "سچ" کشید کرتا اور پھر اِس روشن "سچ" کی دمکتی ہوئی پیشانی سے پھوٹتی شعاعوں کے ریشم سے بُنے ہوئے خیالوں کی رِدا پر "شاعری" کاڑھتا ہوں۔
            شعر کہنا میرے لئے نہ تو فارغ وقت کا مشغلہ ہےاور نہ ہی "خود نمائی" کے شوق کی تکمیل کا ذریعہ۔ بلکہ اپنے جذبات و محسوسات کے اظہار کے لئے مجھے "شاعری" سے بہتر اور موثر پیرایہ ملتا ہی نہیں۔ میرے لا شعور کی تہہ میں بکھرے ہوئے تجربے اور مشاہدے حرف حرف اور نقطہ نقطہ شعور کی پلکوں سے حواس کے آئینہ خانے میں اترتے اور "شعر" کی صورت میں بکھرتےچلے جاتے ہیں۔ اور پھر کبھی میرا قلم اور کبھی موجِ صدا کا "زیر و بَم" انہیں امانت کے طور پر بصارتوں، بسیرتوں اور سماعتوں تک پہنچاتا ہے۔ کیا جانے کب سے میری فگار انگلیاں کائنات کے خد و خال کو ذات کے شیشے میں سمیٹنے کا قرض ادا کر رہی ہیں۔ اور میرا "خونچکاں خامہ" اپنے عہد کے انسان کا کرب کرید کر اُس میں پوشیدہ خواہشوں اور حسرتوں کو کاغذی پیرہن پر سجانے میں مصروف ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ فن کے صحرا میں اَب تک مَیں نے کتنا سفر طے کیا ہے؟ مَیں پیچھے مُڑ کر دیکھنے کا عادی نہیں ہوں۔ (جیسے پلٹ کر دیکھنے سے مَیں "پتھر" ہو جاؤں گا)۔
            مَیں قدم قدم نئی جہت کی تلاش میں سر گرداں ہوں، (ورنہ کی بجائے) کہ ایک ہی سمت میں ایک ہی انداز سے چلتے رہنے کی یکسانیت اور ایک جیسی رفتار نہ صرف سفر کی کشش کو چاٹ لیتی ہے بلکہ حصولِ منزل کا اعتماد بھی چکنا چُور ہو کر رہ جاتا ہے۔
            میرے سفر کی ڈور کا دوسرا سِرا میری سانس سے بندھا ہوا ہے۔ میں لمحہ بھر کو رُک گیا تو یہ ڈور ٹوٹ جائے گی۔
کِسی بھی حسّاس اور سنجیدہ فنکار کے لئے مشکل ترین مرحلہ اُس کے اپنے عہد کے تقاضوں کا اِدراک اور ا ن تقاضوں کے مطابق موضوع کا انتخاب ہوا کرتا ہے۔ جو فنکار اپنے عہد سے بے خبر رہ کر تخلیق کی مشقت کرتا ہے، وہ خود کلامی کی بھول بھلّیوں میں بھٹک کر یا تو رجعت پسندی کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے یا تشکیک کی زد میں ابہام کا شکار ہو کر فکری انتشار کے برزخ کی "بے سمتی" میں اپنا آپ گنوا بیٹھتا ہے۔ میرے نزدیک یہ باتیں کرنا اِس لئے بھی ضروری ہیں کہ
            ۔۔۔ عصری جبر، سماجی گھٹن، سیاسی حبس اور طبقاتی تضاد کی دَلدَل میں دھنسے ہوئے جس معاشرے میں مجھے جذبوں کے اظہار کا اِذن مِلا ہے، وہ بذاتِ خود تشکیک و ابہام اور سکوت و تحیّر کی سیاہ چادر اوڑھ کر سانس روکے ہوئے زندگی کی ساعتیں گِن رہا ہے۔ عدل و انصاف کے مقابلے میں ظلم اپنے پَر پھیلائے دَم توڑتے انسان کی ہچکیاں نِگل رہا ہے۔ رستے مقتل بن گئے ہیں، چوراہوں سے بارود اُگ رہا ہے، بازاروں میں درندگی برہنہ رقص رَچا رہی ہے، "سچ" سرِ عام مصلوب اور جھوٹ بَرملا مسند آراء ہے۔ جرم رواج بن گیا ہے۔ غارت گری روایت میں شامل ہو رہی ہے، دہشت گردی سے شہر سہمے ہوئے، وحشت صحراؤں پر مسلط، لہو کے رشتے کچّے دھاگوں کی طرح ٹوٹ رہے ہیں۔
            یوں لگتا ہے جیسے ظلم و ستم کی سیاہ رات نے سورج کو چَبا ڈالا ہے۔ دکھ، درد اور کرب کی اِس مسلسل رات، بے یقینی اور مایوسی کی دھول سے اَٹی ہوئی رات میں میری شاعری "طلوعِ اشک" سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
"طلوعِ اشک" کی شاعری اپنے عہد میں بڑھتی ہوئی نفرتوں کے خلاف انسانی سانسوں کے ریشم سے بُنے ہوئے اُن نازک جذبوں اور دائمی رشتوں کا ایک دھیما سا احتجاج ہے، جن کی پہچان کا واحد حوالہ محبت ہے۔
                        "محبت" جو کدورتوں کی آگ میں جلتے جھلستے جنگلوں کے اُس پار زیتون کی وہ شاخ ہے، جِس کی خوشبو کا دوسرا نام "امن" ہے۔
            "طلوعِ اشک" میں نہ تو آپ کو عملی جدوجہد سے محروم کوئی "دعویٰ" نظر آئے گا۔ اور نہ ہی بے مقصد "ہنگامہ آرائی"۔
            کیونکہ اپنے چاروں طرف بکھرے ہوئے ظلم، پھیلی ہوئی نفرت اور افراتفری کے با وجود مَیں ابھی تک انسانی رشتوں کی اہمیت، روح کی گہرائی میں پھیلتے پھولتے جذبوں کی توانائی، دائمی اَمن کی عالمگیر کشش، "سچ" کی فتح مندی اور اِدراک و آگہی پر "محبت" کے تسلط سے نہ تو مایوس ہوا ہوں اور نہ ہی منحرف۔
            مجھے یقین ہے کہ جب تک کائنات میں انسان کا وجود باقی ہے۔ محبت اپنے توانا جذبوں کی صداقت سمیت باقی رہے گی۔ میں نے محبت کو اپنے احساس، ادراک اور آگہی کی اساس بنایا ہے۔ اِسے دھوپ دھوپ سمیٹا ہے اور پھر اپنے "اشعار" میں رنگ رنگ بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی سب کچھ میرا فن بھی ہے اور متاعِ فن بھی۔
جہاں تک اپنے فن کے قد و قامت کی "بے محل" نمود و نمائش کا تعلق ہے، مَیں ہمیشہ اِس سے اجتناب کرتا ہوں، نہ ہی "خود ستائی" کی بوسیدہ قَبا اوڑھ کر "دوسروں" کو اپنی طرف متوجہ کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔
            آخر "سَستی شہرت" کے لئے اپنی قیمتی "اَنا" کو چھلنی کرنے کی ضرورت کیا اور شوق کیوں؟ کہ دنیا میں جو ہے، اُسے اپنے "اثبات" کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں اور جو "نہیں" ہے، اُس کے "ہونے" پر اصرار بے معنی۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔
            مجھے اپنے تخلیقی سفر کے آغاز سے اب تک کیسے کیسے صبر آزما مراحل سے گذرنا پڑا؟ کِس جان لیوا کرب کی شدّت میں سانس لینا پڑا؟ کیسی کیسی چوٹ کھا کر مسکرانا پڑا؟ یہ کہانی دہرانے کا وقت ہے نہ فرصت۔ (پھر سہی)
            ابھی آپ جلدی میں ہیں۔ اور مجھے بھی اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ میری آنکھیں اندھیروں کا تسلط قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ میں اندھی رات کے جَبر کے خلاف کِسی ایک کِرن، کِسی ایک چنگاری، کِسی ایک آنسو کی طلب میں لمحوں کا مقتل جھیل رہا ہوں۔ اور اپنے گِرد بکھری ہوئی دست و پا بُریدہ خواہشوں کی پُرسش میں مصروف بھی۔ اندھی رات کے مسلسل جَبر کے خلاف کوئی جگنو، کرن، چنگاری یا کوئی ایک آنسو مجھے کچھ دیر اور جینے کا حوصلہ دے سکتا ہے۔ مَیں کچھ اور جاگ سکتا ہوں کہ مسلسل جاگتے رہنے کا اعزاز یہ کِسی زندہ، روشن اور دہکتے ہوئے سورج کی صورت نہ سہی، ہلکی روشنی کی علامت کے طور پر ہی میری آنکھوں کو صدیوں تک کے لئے اُجلے خوابوں کی دھنک میں مَست اور مگن رکھ سکتا ہے۔ اگر آپ اندھی رات کے جَبر کے خلاف میرے ساتھ محبت اور امن کی روشنی بُن سکتے ہیں تو اپنی آنکھیں میرے لفظوں میں انڈیل دیں کہ یہی میرے لئے روشنی کا استعارہ بن جائیں۔ ورنہ میری تنہائی میرے بغیر اداس ہو گی۔
مُحسنؔ نقوی
                                                                                                            جمعرات 28 مئی 1992ء لاہور
کتاب: طلوعِ اشک

"طلوعِ اشک" کا انتساب!

تُو غزل اوڑھ کے نکلے کہ دھنک اوٹ چھُپے؟
لوگ جس روپ میں دیکھیں، تجھے پہچانتے ہیں

یار تو یار ہیں، اغیار بھی اب محفل میں
مَیں ترا ذکر نہ چھیڑوں تو بُرا مانتے ہیں

کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو؟
شہر والے مرا "موضوعِ سخن" جانتے ہیں

بہتی چاندنی کا بولتا سُکوت


محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں لیکن اس کے ساتھ ہی محسن کی نثر،  جو کہ ان کی کتابوں کے دیباچے کی شکل میں موجود ہے، اس میدان میں بھی محسن کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔
محسن نقوی کی کتاب"رختِ شب" کا دیباچہ انتساب کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔

بہتی چاندنی کا بولتا سُکوت
            میں خواب دیکھتا ہوں، تعبیروں کی جستجو میں جَلتے بَلتے اور چَکنا چُور ہوتے خواب! یہ ٹوٹتے پھوٹتے خواب میری خواہشوں کی اساس بھی ہیں اور میری آنکھوں کا اثاثہ بھی۔ اپنا اثاثہ کِسے عزیز نہیں ہوتا؟ مجھے بھی اپنے خواب بہت عزیز ہیں۔ زندگی کی طرح۔ زندگی کے چہرے پر دہکتے مہکتے رنگوں اور ان رنگوں میں رقص رچاتی خوشبو کی طرح۔



            مجھے یقین ہے جس دن خواب ختم ہو جائیں گے، انسان سونا چھوڑ دے گا۔ کہ رائیگاں اور خالی نیند کا دوسرا نام تو موت ہے۔ زندگی تو خواہشوں، خراشوں، خیالوں اور خوابوں سے عبارت ہے۔
            مجھے سرما کی چاندنی سے اسی لئے اُنس ہے کہ اِس میں دُھل کر خواب کچھ اور اجلے ہو جاتے ہیں۔ اور گرم رُتوں کی دھوپ سے یہ شکایت ہے کہ وہ میری دُکھتی آنکھوں پر سے خوابوں کی پَٹّی کو پگھلا کر رکھ دیتی ہے، اور پھر میری آنکھیں جاگتے دنوں کے الاؤ میں جھلسنے لگتی ہیں، جاگتے دن جو حقیقتوں کے چہرے سے استعاروں کی نقابیں نوچ کر اُن کے خد و خال کا کھُردرا پن اَفشا کر دیتے ہیں۔  خواب بہت میٹھے اور نرم ہوتے ہیں۔بہت ملائم، جبکہ حقیقتیں بہت تلخ ہوتی ہیں، بہت تُند، بہت تیز اور کبھی کبھی بہت عُریاں۔ !حقیقتوں کی تہ میں بکھری ہوئی کڑوی سچائیوں کے ذائقے سے مانوس ہونا میرا منصب سہی۔ مگر ان کی پَرتیں اتارنے کے لئے جتنی زندگیاں صَرف ہوتی ہیں وہ اپنے پاس کہاں؟ میری زندگی تو لمحہ لمحہ سمٹی جا رہی ہے۔ مجھے تو اپنی سانس کی ڈور کا دوسرا سِرا بھی صاف دکھائی دے رہا ہے، مَیں تو حیات تَیر چُکا۔ سامنے دوسرا کنارہ ہے۔ اور دوسرے کنارے سے اُدھر اسرار کا وہ بے کراں محیط ہے۔ جس کی وسعتیں سوچوں کے کئی پاتال پی کر بھی پیاسی ہیں جس کے سینے میں لا تعداد آفاق ہانپ رہے ہیں۔
            میرے حواس محدود ہیں۔اور میں "لا محدود" کی زَد میں ہوں! مجھ پر اسرار کا بے کراں کیا کھُل سکے گا۔؟ کہ میری بینائی تو جہاں تھک کر دم توڑ دیتی ہے، میں اُس سے آگے کی گرد کو آسمان سمجھ کر لَوٹ آتا ہوں! میری سماعت میں جہاں سنّاٹا گونجنے لگتا ہے، مَیں فنا کی چاپ وہیں سے تراشنے لگتا ہوں اور میری آواز جہاں گم ہونے لگتی ہے، مَیں اُس سے آگے "بے سمت خلا" کا پھیلاؤ سوچنے لگتا ہوں، میری عقل سے ماوراء سب کچھ میرے لئے "الجھاؤ" سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ پھر مَیں خواب ہی کیوں نہ دیکھوں؟ جن میں بکھری ہوئی تمام "کائناتیں" میری بینائی کی دسترس میں ہوتی ہیں اور جن کے دامن میں محدود سے لا محدود تک کے تمام فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ مَیں خوابوں سے تعلّق توڑ کر اپنی آنکھوں کو لا محدود کی تیز اور پُر اسرار روشنیوں میں دفن کرنا چاہتا ہوں۔ میرے خواب میری خود کلامی سے بہلتے ہیں اور میری خود کلامی ادھوری خواہشوں کی خود ساختہ تکمیل کا عمل ہے! میں بھولنے والے خوابوں کو بے وفا دوستوں کی یادوں کی طرح لا شعور کے تہ خانے میں "حنوط" کر دیتا ہوں مگر یاد رہ جانے والے خواب بہت "ضدّی" ہوتے ہیں۔ یہ آنکھوں میں چبھتے رہتے ہیں۔ کانچ کی کرچیوں کی طرح۔
            کبھی کبھی تو ان کی "چُبھن" آنکھوں میں گلاب کھِلا دیتی ہے، پھر دل میں اپنی "دُکھن" اُنڈیل کر روح تک میں اپنا اضطراب گھول دیتی ہے!
            یہ "خواب" جب تک آنکھوں میں رہیں محض خواب ہوتے ہیں، مگر جب روح میں اتری ہوئی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو جائیں تو پھر خواب نہیں رہتے، ریزہ ریزہ سچائیوں میں بٹ جاتے ہیں اور کبھی حرف حرف صداقتوں کے صورت گر بن کر سماعتوں اور بصارتوں کے آئینہ خانے میں کرن کرن کھِل اٹھتے ہیں۔ آنکھوں سے روح تک اترنے کا لمحہ۔ خواب و خیال کی تجسیم اور فکری نقش و نگار کی تخلیق کا "لمحہ" ہے، یہی لمحہ میری مسافتِ اِدراک کے لئے "متاعِ یقین" اور میری مشقّتِ آگہی کے لئے "رختِ شب" ہے۔
            "رختِ شب" میرے خیالوں کا اقرار نامہ اور میرے خوابوں کا نگار خانہ ہے، اِس کے لفظوں میں میرے چبھتے ہوئے آنسوؤں کی کسک بھی ہے، میرے جاگتے ہوئے زخموں سے پھوٹتی ہوئی شعاعیں بھی ہیں اور میری آنکھوں میں کھِلتے گلابوں کی باس۔ میں رائیگاں نیند نہیں سوتا۔ نہ بے صرفہ دھوپ جاگتا ہوں۔ میں اپنے سچ کو خواب پہناتا اور اپنے خوابوں پر سچ اوڑھتا سانسوں کی چبھتی کرچیوں کے بے نہایت سفر میں مصروف رہتا ہوں، اور اِس سفر میں بگولوں کے ساتھ رقص کرتے غبارِ خاک سے آنکھیں ڈھانپ ڈھانپ کر سورج کے سائے سائے شام کی شفق میں ڈوب جاتا ہوں۔!!
            جہاں تک میری شخصیت اور شاعری کا تعلق ہے، مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ مَیں اپنے بارے میں بہت کم جانتا ہوں، اِس سلسلے میں تو میرے احباب بھی مجھ سے کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ کہ میرے شب و روز کی تمام مسافتیں اور کٹھنائیاں، میری شہرتیں اور رسوائیاں، میرے ہنگامے اور تنہائیاں ورَق ورَق اور حرف حرف اُن کے سامنے کھُلتی اور کھِلتی رہیں۔ اِسے میرا عیب سمجھیں یا خوبی کہ مَیں جسے ایک بار "اپنا" سمجھ لوں، اُسے زندگی بھر کے لئے اپنی ذات کا حصّہ سمجھ لیتا ہوں، پھر اُسے لمحہ بھر کے لئے بھی خود سے الگ سمجھنا میرے نزدیک بہت مشکل اور تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے، یہ الگ بات ہے، اپنی مصروفیات کی بنا پر کچھ عرصہ کے لئے میں "اپنوں" سے بچھڑ جاؤں مگر روحانی اور ذہنی قُرب کی شدّت میں کبھی بھی کمی نہیں آ سکتی، میں اپنے دوستوں سے  بھی ملتا ہوں ٹوٹ کر ملتا ہوں اور جتنی دیر اُن کے ساتھ رہتا ہوں، ہمیشگی کی لذّت دل میں بسا کر ساتھ رہتا ہوں، میں تو اپنوں کے زخم بھی "سنبھال" کر رکھتا ہوں کہ یہ زخم بھی مجھے میرے اپنے مہربانوں کی طرح عزیز ہیں اور اُنہی کی طرح پیارے بھی لگتے ہیں، میں دوستی کی رسم عام کرنا چاہتا ہوں، دُشمنی کا لفظ میرے لئے بے حیثیت سا لفظ ہے۔ محبتیں بانٹتا ہوں اور نفرتوں سے نفرت کرتا ہوں۔ زندگی بہت مصروف اور تیز رَو ہے، بیسویں صدی اپنی بوسیدہ روایات سمیت آخری ہچکیاں لے رہی ہے اور اکیسویں صدی لمحہ لمحہ ماہ و سال کے سینے پر دستک دے رہی ہے، زمین اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے، نیا انسان۔ پُرانے آدمی کو پہچاننے سے انکاری ہے، رِشتے رَویّوں کے محتاج ہو رہے ہیں، گروہی تعصّبات، نسلی امتیاز، طبقاتی تضاد اور فرقہ پرستی نئی نسل کے لئے نا قابلِ برداشت جبر کی میراث ہیں، دنیا بھر کے مظلوم اپنے سینے میں ظلم کے خلاف بغاوتوں کو پال پوس کر جوان کر چکے ہیں، تاریخ کے افق پر نئی صدی نئے انقلابی عزائم کے ساتھ طلوع ہونے کے لئے مصروفِ آرائش ہے، میں اور میرے جیسے کروڑوں انسان اُس صدی کے منتظر ہیں جس کے عہد نامے میں انسانی امن اور معاشرتی حُسن کی ضمانت "حرفِ آغاز" کے طور پر رقم ہے۔ جس کا منشور ظلم، جبر، قتل و غارت، بھوک اور افلاس کے خلاف مشترکہ انسانی جہاد کی چکا چوند سے منور اور باہمی محبت و اخلاص سے مُستنیر ہے۔ میرے خواب تعبیر کے انتظار میں سانس لے رہے ہیں۔ میری شاعری بھی ایسے ہی اجلے خوابوں کا جزیرہ ہے۔ جس کے چاروں طرف وہم و تشکیک کا موجیں مارتا ہوا سمندر گونج رہا ہے، مگر میں اپنے اجلے خوابوں کے جزیرے میں خواہشوں کا خیمہ نصب کئے خود کلامی میں مصروف ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ میری آواز کہاں تک اپنے دائرے بُن رہی ہے؟ میرے لفظوں کے سینے میں پوشیدہ دعائیں بابِ قبول "وَا" ہونے کی منتظر ہیں۔ میرے دل میں لمحۂ یقین کی شعاعیں مسلسل تسکین و تسلّی کا جہان آباد کرنے میں مصروف ہیں۔ مَیں اپنے "ہونے" کا سراغ ڈھونڈ رہا ہوں۔ مَیں اور میری شاعری مسلسل اندھیروں سے نبرد آزما ہیں، اندھیروں سے نبرد آزما ہونا بھی ہر کسی کے مقدر میں کہاں؟ اور پھر رات بھر کا اندھیرا تو آنکھیں بند کر کے بسر کیا جا سکتا ہے، یہاں تو دوپہروں کے ماتمی لباس نے پہن لیا ہے اور صبحیں مُنہ چھپا چھپا کر طلوع ہو رہی ہیں۔ ایسے تاریک لمحوں سے چاندنی نچوڑنا کتنا جاں گداز عمل ہے؟ اِس کا اندازہ صرف اُنہی آنکھوں کو ہو گا جو کھُلے منظروں میں کھِلی دھوپ سے کھیلتے کھیلتے اچانک بجھ گئی ہوں، اور پھر پلکیں جھپکتے جھپکتے شل ہو چکی ہوں مگر دھوپ کی ایک آدھ کرن کا سراغ بھی نہ مل سکا ہو۔
            مَیں بھی "ہونے اور نہ ہونے" کے اِسی "برزخ" سے گزر رہا ہوں، مُنہ زور جذبوں کی زد میں ضبط کے چراغ کی لَو سنبھالنا اور وہم و تشکیک کے موسم میں "یقین" کے خد و خال اُجالنا۔ لمحوں کی نوکیلی کرچیوں میں صدیوں کا کرب ڈھالنا اور صدیوں کی لَب بستہ سیپیوں سے سانس لیتے لمحوں کے موتی نکالنا۔ شاید میری عمر بھر کی مشقت ہے۔ جس کے بغیر "اعتمادِ ذات" کا اعزاز حاصل نہیں ہوتا۔
            میں ایک ایسے "مدفُون شہر" کا باسی ہوں جس کی خاک سے کبھی "ذہن" اُگتے تھے، جس کی گلیوں میں کبھی ہَوا، زندگی کی روشنیاں اور رعنائیاں بانٹتی تھی۔ شب و روز شعر و نغمہ کی پائلیں بجاتے اور مَدھر کافیوں کی جھانجھریں جھنجھناتے تھے، جس کے لوگ کبھی ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا عبادت سمجھتے تھے، جس کے پانی میں محبت کی چاندنی کا اَمرت گھُلتا اور جس کی راتوں میں صبحوں کا سیماب کھُلتا تھا۔ مگر یہ باتیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اب وہاں کے بسنے والوں کے خد و خال سے "اجنبیّت" جھانکتی اور گلیوں میں "رُلتی" ہَوا خاک پھانکتی ہے۔! میرا شہر اَب "شہرِ نا پُرساں" ہے کہ وہاں کی تمام رسمیں بدل چکی ہیں، میرے سارے لوگ اَب اپنی اپنی صلیبوں کی کِیلیں شمار کرنے میں مگن ہیں، اُنہیں کچھ نہیں معلوم کہ باہر کیا ہو رہا ہے؟ اُن سے الگ رہ کر کِس کِس نے اُن کی تاریخ کے لئے دَر بدَری شِعار کی، اُنہیں کیا کہ وہ تو ابھی رنگ و نسل کے قَفس سے ادھر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں رکھتے، میرے شہر کے سیدھے سادے لوگ! جو کبھی ایک دوسرے کے دکھ میں اپنی آنکھیں نَم رکھتے تھے، اب اپنے ہی شہر میں خالی آنکھیں لئے زندگی کرتے اور اپنی اپنی ذات کا دَم بھرتے ہیں  خیر۔ یوں ہی سہی، مجھے پھر بھی اس شہر کی خاک سے محبت ہے، کہ یہ شہر میری پہچان کا حوالہ تو ہے نا۔ اِس نے مجھے زندہ رہنے کا ہُنر سکھایا۔ یہی احسان غنیمت ہے۔ اب اگر میرے "اعزازِ جراحَت" پہ گُم صُم ہے تو کیا ہوا۔ کہ اِسی شہر کے سنّاٹے نے ہی مجھے اپنا ماتم کرنے کا سلیقہ بخشا۔
            اِس شہر کی "اجنبیّت" نے مجھے صحراؤں میں تنہا سفر کرنے کا حوصلہ عطا کیا۔ مَیں اپنے شہرِ نا پُرساں کے ہر دوست کی "بے نیاز" محبت کا مقروض ہوں، میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی ہم مزاج ہَوا کے ہاتھ اپنے شہر کے سارے پیارے لوگوں کے نام پیغام بھجواؤں کہ مَیں جہاں بھی ہوں "تمہارا ہوں" اور تمہارے لئے ہوں،۔ میرے شہر کے خاک اُڑاتے راستوں کو "میری آوارگی" کا سَلام پہنچے اور میرے احباب کی محفلوں کو میری تنہائی کی دعائیں راس آئیں۔۔۔
            اور اے خاک بَسر ہَوا! میرے شہر کے باسیوں سے کہنا۔ کہ مجھے اب تک صحرا میں بہتی چاندنی کا بولتا سکوت اچھا لگتا ہے!
            شفّاف نیلے آسمان کی وسعت میں آزاد پرندوں کی اُڑان اَب بھی مجھے اپنی طرف "بے ساختہ" دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اُجلے چہروں کے دہکتے رنگ اور سوتی جاگتی بوجھل آنکھوں میں تیرتے ہوئے سوالوں کے سُرخ ڈورے اب بھی میری بینائی میں انجانے کرب کی پرچھائیاں گھول دیتے ہیں۔
            مَیں اَب بھی کڑکتی دھوپ میں پگھلتی سڑک کے سنگلاخ کِناروں پر نوکِیلے پتھر کُوٹنے والے زخمی ہاتھوں کے لئے اُس عہد کا منتظر ہوں جب ان کے زخموں کو مُندمِل کر کے اُنہیں شیشے کے دستانے پہنائے جائیں گے اور اُن کی ہتھیلیوں پہ بکھری ہوئی شکستہ لکیروں میں خوش قسمتی کا سیماب رواں ہو گا، مجھے برف اوڑھے ہوئے پہاڑوں کی ہری بھری چھاتیوں سے پھوٹتے آبشار اب تک اندیشوں کے دشتِ خوف میں پَسپا نہیں ہونے دیتے۔
            مَیں آباد بستیوں کے ہنستے بستے گھروں میں جلتے ہوئے چولھوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں پر جان دیتا ہوں اور مجھے اَب بھی "بارود" کے دھوئیں سے شدید نفرت ہے کہ "بارود" اِنسانی بقا کے لئے مہلک ہے! مجھے ہریالیوں کی اوٹ میں تِتلیاں تلاش کرتے بچوں کی معصوم مسکراہٹ دنیا بھر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی لگتی ہے۔
            میرا بس چلے تو اپنی غربت کے تاریک غاروں میں سانس لینے والوں کو اپنا حکمران تسلیم کروں کہ اُن کی غربت کو احساسِ کمتری میں مُبتلا کر کے بہت سے لوگ اُن سے اُن کی خواہشوں کا خراج لیتے ہیں۔
            اور ہاں اے ہر سَمت بھٹکتی ہوئی ہَوا، گر بن پرے تو میرےلوگوں سے کہنا کہ میں نے ابھی تک اپنی "انا" کو کِسی قسم کی مَصلحت کے "سرد خانے" میں ٹھِٹھرنے نہیں دیا۔ نہ رائیگاں شہرت کے حصول کے لئے اپنے فِکر کا "کشکول" اٹھایا ہے۔
            میں آج بھی سرخرو ہوں کہ میرے فن نے اپنا قد بڑھانے کے لئے نہ تو کِسی "اُدھار" کی شاخ سے جھُولنے کی اجازت طَلب کی ہے اور نہ ہی اپنے خدّ و خال نکھارنے کے لئے کوئی مانگے کا آئینہ کِسی آنکھ میں چسپاں کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری شاعری کو پڑھنے والے مجھے محبت سے پڑھتے ہیں اور اس سے زیادہ باعثِ مسرّت بات یہ ہے کہ میرا قاری میری شاعری کے بارے میں کِسی "نقّاد" کی رائے کا محتاج نہیں۔ میں اپنے تجربے کی وُسعت پر اعتماد کرتا ہوں، میرا مشاہدہ اپنے اظہار کے لئے خود سے دائرے بُنتا ہے اور میرے جذبے کی حِدّت اور شِدّت خود سے لفطوں کے انبار میں سے اپنی قبا پر کاڑھنے کے لئے لفظ چُنتی ہے۔
            مَیں دائمی اَمن کی بقا کے لئے سوچتا ہوں، اِنسانی محبتوں کے ذائقے میری رگوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ ظُلم سے شدید نفرت مجھے میرے شجرے سے ورثے میں مِلی ہے، میں دنیا بھر میں انسان کی عزّت و توقیر پر ایمان رکھتا ہوں، صحرا کی وسعت، آسمان کی بلندی اور نِیل کی گہرائی یں نے اپنی روح میں بسا لی ہیں، اور حُریّتِ فکر میرا منشور ہے۔
            "رَختِ شب" میرے مُسلسل فِکری سَفر کی تازہ رُوداد ہے، اِس رُوداد میں اپنی خواہشوں کے اُدھورے دائرے، میری خراشوں کی نا مکمّل لکیریں اور جاگتی راتوں کی کروٹیں آپ کی آنکھوں کے نام کر رہا ہوں، یہ رختِ شب میرے اجلے خوابوں کی متاع ہے۔ میرے جلتے سُلگتے خیالوں کا سرمایہ ہے، مَیں نے جذبوں کی آنچ میں پگھل پگھل کر اور اندھیروں کے سینے میں اُتر اُتر کر اشعار کے یہ جُگنو سنبھالے ہیں۔ آئیے یہ جُگنو میں آپ کی پلکوں پر ٹانک دوں، آپ حقیقتوں کی جھیل میں یہ جُگنو بھگو کر اپنی رُوح کے پاتال میں اُتار سکیں تو میری تنہائی میں بکھری ہوئی دھوپ لمحہ لمحہ تقسیم ہو جائے گی۔ ورنہ آپ کو نیندیں مبارک اور مجھے "خواب" سلامت کہ
            "میں خواب بہت دیکھتا ہوں"
مُحسنؔ نقوی
3 اگست 1994ء لاہور
کتاب: رختِ شب


"رختِ شب" کا انتساب!

یہ ٹوٹتی ہوئی سانسیں، یہ حرف حرف خیال
مَیں سوچتا ہوں کہ اِس بار کِس کے نام کروں؟

تراشتے ہیں سبھی زخم اپنے اپنے سُخن
کِسے سکوت پہ کاڑھوں، کِسے کلام کروں؟

ہزار شکل ابھرتی ہے تیری یاد کے ساتھ
کِسے متاعِ سفر، کِس کو حُسنِ شام کروں؟

بغاوتوں پہ اُتر آئیں خواہشیں میری
کِسے رِہائی دو، کِس کو اسیرِ دام کروں؟

تجھے تو خَیر سنورنے کو آئینے ہیں بہت
مگر مَیں اپنی غزل کِس طرح تمام کروں؟

میرا نظریۂ شعر از اختر شیرانی


میرا نظریۂ شعر از اختر شیرانی


                 ۔۔۔ میں نے جب شعر کہنا شروع کیا تو شاعری کے افادی مقاصد کا وہ تصور کہیں موجود نہ تھا جسے آج ترقی پسندی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس تصور نے کافی فروغ پا لیا۔۔۔ شاعر کا کام زندگی کے حسن کو خود دیکھنا اور دوسروں کو دکھانا ہے۔ زندگی کے ناسوروں کے علاج کی کوشش کرنا اس کا کام نہیں۔
            ۔۔۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ زمانے نے بعض ایسے نا گزیر مسئلے میرے سامنے لا رکھے ہیں جن سے گریز ممکن ہے نہ مصالحت۔ سیاست میں آواز اور خیالات کا اثر بڑھ گیا ہے، اقتصادی کش مکش ہمہ گیرہوتی جا رہی ہے، تجارتی لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری نے سماج کے ہر ایک طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور بے شمار ملک اور گروہ ہماری دنیا کے خوبصورت جسم کے بڑے بڑے ناسور بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم شاعر بھی انسان ہونے کی حیثیت سے ان اثرات کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے لیکن ہمارا ان ناسوروں کی جراحی کر کے انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کرنا ایک اناڑی کی کوشش سے زیادہ نہ ہو گا۔ ان کا علاج تو سیاسی اور اقتصادی ماہروں کے ہاتھ میں ہے اور انہی پر علاج کا فرض بھی عائد ہوتا ہے۔۔۔
            ۔۔۔ شاعری افراد اور اقوام کے لئے ایک لطیف غذا تو بن سکتی ہے جو ان کے ذائقے کی تشفی کرے اور اس کی عمدگی کو برقرار رکھےلیکن اس سے بیمار اور بوڑھی قوموں کے حق میں 'معجونِ شباب آور' کا کام لینا میرے نزدیک بہت بڑی زیادتی ہے۔ ترقی پسندی کی تحریک کو جس قدر بھی فروغ اب تک حاصل ہوا ہے اس کا باعث اس کے بنیادی تصور کی دلکشی نہیں بلکہ اس کے لیبل کی دلکشی ہے۔ اس کے لیبل کو دیکھ کر ذہن سب سے پہلے ترقی پسندوں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔۔۔
            ۔۔۔ میرے نزدیک شاعر کے لئے اپنے آپ کو کسی سیاسی یا اقتصادی نظام سے وابستہ کرنا ضروری نہیں۔ وہ نظام سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت، جمہوریت ہو یا فاشیت، شاعر کے لئے ان میں سے ایک بھی قابلِ توجہ نہیں۔ شاعر کی قدریں ان سب سے الگ اور آزاد ہیں۔
                    (1942ء کی ایک ریڈیائی تقریر سے)
شاعر: اختر شیرانی
ماخذ: کلیاتِ اختر شیرانی
مُرتّبہ: گوپال متّل
ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس (9 گولا مارکیٹ دریا گنج نئی دھلی)

او دیس سے آنے والے بتا!


او دیس سے آنے والے بتا!

انٹرنیٹ پہ ہر جگہ تلاش کیا مگر یہ نظم اپنی مکمل شکل میں دستیاب نہ ہو سکی۔ لہٰذا اسے "کلیاتِ اختر شیرانی" سے مکمل نقل کر کے پوسٹ کر رہا ہوں۔
یہ نظم اختر شیرانی کی کتاب "اخترستان" میں شامل ہے۔












او دیس سے آنے والے بتا!
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یارانِ وطن
آوارۂ غربت کو بھی سُنا
کس رنگ میں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن، فردوسِ وطن
وہ سرو وطن، ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں
مستانہ ہوائیں آتی ہیں؟
کیا اب بھی وہاں کے پربت پر
گھنگھور گھٹائی چھاتی ہیں؟
کیا اب بھی وہاں کی برکھائیں
ویسے ہی دلوں کو بھاتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سر مست نظارے ہوتے ہیں؟
کیا اب بھی سہانی راتوں کو
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں؟
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے
کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی شفق کے سایوں میں
دن رات کے دامن ملتے ہیں؟
کیا اب بھی چمن میں ویسے ہی
خوشرنگ شگوفے کھلتے ہیں؟
برساتی ہوا کی لہروں سے
بھیگے ہوئے پودے ہلتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
شاداب و شگفتہ پھولوں سے
معمور ہیں گلزار اب کہ نہیں؟
بازار میں مالن لاتی ہے
پھولوں کے گندھے ہار اب کہ نہیں؟
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں
نو عمر خریدار اب کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا شام پڑے گلیوں میں وہی
دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے؟
اور سڑکوں کی دھندلی شمعوں پر
سایوں کا بسیرا ہوتا ہے؟
باغوں کی گھنیری شاخوں میں
جس طرح سویرا ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں
اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں؟
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی
اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں؟
وہ حُسن کے جادو چلتے ہیں
وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
ویرانیوں کے آغوش میں ہے
آباد وہ بازار اب کہ نہیں؟
تلواریں بغل میں دابے ہوئے
پھرتے ہیں طرحدار اب کہ نہیں؟
اور بہلیوں میں سے جھانکتے ہیں
تُرکانِ سیہ کار اب کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی مہکتے مندر سے
ناقوس کی آواز آتی ہے؟
کیا اب بھی مقدّس مسجد پر
مستانہ اذاں تھرّاتی ہے؟
اور شام کے رنگیں سایوں پر
عظمت کی جھلک چھا جاتی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر
پنہاریاں پانی بھرتی ہیں؟
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں؟
اور اپنے گھروں کو جاتے ہوئے
ہنستی ہویہ چہلیں کرتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
برسات کے موسم اب بھی وہاں
ویسے ہی سہانے ہوتے ہیں؟
کیا اب بھی کے باغوں میں
جھُولے اور گانے ہوتے ہیں؟
اور دُور کہیں کچھ دیکھتے ہیں
نو عمر دِوانے ہوتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پہاڑی چوٹیوں پر
برسات کے بادل چھاتے ہیں؟
کیا اب بھی ہوائے ساحل کے
وہ رس بھرے جھونکے آتے ہیں؟
اور سب سے اونچی ٹیکری پر
لوگ اب بھی ترانے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں
گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں؟
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں
برکھا کی ہوائیں گونجتی ہیں؟
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں
موروں کی صدائیں گونجتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں، میلوں میں وہی
برسات کا جوبن ہوتا ہے؟
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں
جھُولوں کا نشیمن ہوتا ہے؟
اُمڈے ہوئے بادل آتے ہیں
چھایا ہوا ساون ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا شہر کے گرد، اب بھی ہیں رواں
دریائے حسیں لہرائے ہوئے؟
جُوں گود میں اپنے من کو لئے
ناگن ہو کوئی تھرّائے ہوئے؟
یا نور کی ہنسلی، حُور کی گردن
میں ہو عیاں بل کھائے ہوئے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی فضا کے دامن میں
برکھا کے سمے لہراتے ہیں؟
کیا اب بھی کنارِ دریا پر
طوفان کے جھونکے آتے ہیں؟
کیا اب بھی اندھیری راتوں میں
ملّاح ترانے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں برسات کے دن
باغوں میں بہاریں آتی ہیں؟
معصوم و حسیں دوشیزائیں
برکھا کے ترانے گاتی ہیں؟
اور تیتریوں کی طرح سے رنگیں
جھولوں پہ لہراتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی اُفق کے سینے پر
شاداب گھٹائیں جھومتی ہیں؟
دریا کے کنارے باغوں میں
مستانہ ہوائیں جھومتی ہیں؟
اور اُن کے نشیلے جھونکوں سے
خاموش فضائیں جھومتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا شام کو اب بھی جاتے ہیں
احباب، کنارِ دریا پر؟
وہ پیڑ گھنیرے اب بھی ہیں
شاداب، کنارِ دریا پر؟
اور پیار سے آ کر جھانکتا ہے
مہتاب، کنارِ دریا پر؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا آم کے اونچے پیڑوں پر
اب بھی وہ پپیہے بولتے ہیں؟
شاخوں کے حریری پردوں میں
نغموں کے خزانے کھولتے ہیں؟
ساون کے رسیلے گیتوں سے
تالاب میں امرس گھولتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا پہلی سی ہے معصوم ابھی
وہ مدرسے کی شاداب فضا؟
کچھ بھُولے ہوئے دن گزرے ہیں
جس میں، وہ مثالِ خواب فضا؟
وہ کھیل، وہ ہمسن، وہ میداں
وہ خواب گہِ مہتاب فضا؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی کسی کے سینے میں
باقی ہے ہماری چاہ بتا؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ے اب
یاروں میں کوئی، آہ بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا
لِللّٰہ بتا، لللّٰہ بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا ہم کو وطن کے باغوں کی
مستانہ فضائیں بھول گئیں؟
برکھا کی بہاریں بھول گئیں
ساون کی گھٹائیں بھول گئیں؟
دریا کے کنارے بھول گئے
جنگل کی ہوائیں بھول گئیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا گاؤں میں اب بھی ویسے ہی
مستی بھری راتیں آتی ہیں؟
دیہات کی کم سن باہوشیں
تالاب کی جانب آتی ہیں؟
اور چاند کی سادہ روشنی میں
رنگین ترانے گاتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی گجر دم چرواہے
ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں؟
اور شام کے دھندلے سایوں کے
ہمراہ گھروں کو آتے ہیں؟
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں
عشق کے نغمے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں
برکھا کی بہاریں چھاتی ہیں؟
معصوم گھروں سے بھوربھئے
چکّی کی صدائیں آتی ہیں؟
اور یاد میں اپنے میکے کی
بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
دریا کا وہ خواب آلودہ سا گھاٹ
اور اُس کی فضائیں کیسی ہیں؟
وہ گاؤں، وہ منظر، وہ تالاب
اور اُن کی صدائیں کیسی ہیں؟
وہ کھیت، وہ جنگل، وہ چڑیاں
اور اُن کی صدائیں کیسی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر
تاریخ کی عبرت طاری ہے؟
اَن پورنا کے اجڑے مندر پر
مایوسی و حسرت طاری ہے؟
سنسان گھروں پر چھاؤنی کے
ویرانی و رقّت طاری ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا
وہ غارتِ ایماں کیسی ہے؟
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی
وہ آفتِ دوراں کیسی ہے؟
ہم دونوں تھے جس کے پروانے
وہ شمعِ شبستاں کیسی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
مرجانہ تھا جس کا نام بتا
وہ غنچہ دہن کس حال میں ہے؟
جس پر تھے فدا طفلانِ وطن
وہ جانِ وطن کس حال میں ہے؟
وہ سروِ چمن، وہ رشکِ سمن
وہ سیم بدن کس حال میں ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی رخِ گلرنگ پہ
وہ جنّت کے نظارے روشن ہیں؟
کیا اب بھی رسیلی آنکھوں میں
ساون کے ستارے روشن ہیں؟
اور اُس کے گلابی ہونٹوں پر
بجلی کے شرارے روشن ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی شہابی عارض پر
گیسوئے سیہ بل کھاتے ہیں؟
یا بحرِ شفق کی موجوں پر
دو ناگ پڑے لہراتے ہیں؟
اور جن کی جھلک سے ساون کی
راتوں کے سے سپنے آتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!

او دیس سے آنے والے بتا!
اب نامِ خدا، ہو گی وہ جواں
میکے میں ہے یا سسرال گئی؟
دوشیزہ ہے یا آفت میں اُسے
کم بخت جوانی ڈال گئی؟
گھر پر ہی رہی، یا گھر سے گئی
خوشحال رہی، خوشحال گئی؟
او دیس سے آنے والے بتا!


شاعر: اختر شیرانی
ماخذ: کلیاتِ اختر شیرانی
مُرتّبہ: گوپال متّل
ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس (9 گولا مارکیٹ دریا گنج نئی دھلی)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px