Showing posts with label عبد الحئ عارفی. Show all posts
Showing posts with label عبد الحئ عارفی. Show all posts

مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحئ عارفیؔ کے چند نعتیہ اشعار


مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحئ عارفیؔ کے چند نعتیہ اشعار:

جذب کر لے میری ہستی اپنے ہر انداز
ہاں مجھے بھی رنگ لے اپنے رنگ میں اے کوئے دوست
عارفیؔ بس اب یہی ہے آرزوئے زندگی
کاش میرا شغل ہو ہر دم طوافِ کوئے دوست
٭٭٭

مرا کیف نغمۂ دل، مرا ذوق شاعرانہ
ترے حسن کا ترنم، ترے عشق کا ترانہ

ترے حسن کی عطا ہے، ترے عشق کا صلہ ہے
مری آہ صبحگاہی، مرا نالۂ شبانہ

تری یاد دے اجازت تو بتاؤں میں کہ ہے کیوں
مرا ہر نفس حقیقت، مرا ہر نفس فسانہ

تری یاد کی خلش ہو، ترے ذکر کی تپش ہو
مرے اشکہائے غم کو کوئی چاہیے بہانہ

ترا ذکر روح پرور ہے زبانِ عارفیؔ پر
بہ تو اے محرمانہ، بحدیثِ دیگرانہ
٭٭٭

ہر ذرّہ ترے کوچہ کا آنکھوں سے لگا لوں
ممکن ہے کسی پر ترا نقشِ کفِ پا ہو
٭٭٭



جب کبھی وہ ادھر سے گذرے ہیں
کتنے  عالم نظر سے گذرے ہیں

بس گئی ہے فضا میں نکہتِ حسن
وہ جہاں بھی جدھر سے گذرے ہیں

کتنے دلکش ہیں ان کے نقشِ قدم
جو تری رہگذر سے گذرے ہیں

نت نئے حسنِ یار کے جلوے
میری شام و سحر سے گذرے ہیں

دل پہ اک تازہ چوٹ کھائی ہے
جب بھی ہم ان کے در سے گذرے ہیں

جب بھی گذرے ہیں وہ تصور میں
پردۂ چشمِ تر سے گذرے ہیں

عارفیؔ ہم کو بھی ہے اس پر ناز
ہم بھی ان کی نظر سے گذرے ہیں

1؎ جناب نیازؔ فتح پوری لکھتے ہیں "اس غزل کا مطلع و خیر ملہمات سے تعلق رکھتا ہے۔"
(ملاحظہ ہو: رسالہ نگارؔ، پاکستان بابت ماہ اکتوبر 1965ء)
٭٭٭

کب تک آخر یورشِ افکار کی باتیں کریں
آؤ اب کچھ دیر بزمِ یار کی باتیں کریں

اپنے دل کو اپنی خلوت کا بنا کر ہم نشیں
چپکے چپکے حسن و عشقِ یار کی باتیں کریں

عشق کی رنگین فضاؤں کے ترانے چھیڑ دیں
حسن کے پُر کیف جلوہ زار کی باتیں کریں

پیچ و تابِ غم کو دل سے محو کر دیں سر بسر
ہو کے بیخود چشمِ مستِ یار کی باتیں کریں

پہلے جان و دل میں بھر لیں مستئ صہبائے شوق
پھر کسی کی لذتِ گفتار کی باتیں کریں

تلملا کر دل کی ہر خوابیدہ حسرت جاگ اٹھے
یوں کی شوخیِ رفتار کی باتیں کریں

عارفیؔ وارفتگئ دل ہی جو چاہے کرے
ورنہ ہم اور اپنی جانِ زار کی باتیں کریں
٭٭٭

ایک زمین۔۔۔دو شاعر (علامہ اقبالؒ، عبد الحئ عارفی)۔۔۔دو غزلیں


ایک زمین۔۔۔دو شاعر (علامہ اقبالؒ، عبد الحئ عارفی)۔۔۔دو غزلیں


علامہ اقبالؒ کی غزل:
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں

بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں



کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

کہہ گئیں راز محبت پردہ داریہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں

تھی کسی درماندہ رہرو کی صداۓ درد ناک
جس کو آواز رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں



مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحئ عارفیؔ کی غزل:

عیشِ بزمِ دوست، عیشِ جاوداں سمجھا تھا میں
یہ بھی اک خوابِ سحر ہے یہ کہاں سمجھا تھا میں

مجھ کو اپنی بیخودی کا وہ بھی عالم یاد ہے
جب کسی کو اپنے دل میں مہماں سمجھا تھا میں




لذتِ درد نہاں بھی بارِ خاطر تھی مجھے
کچھ اسے بھی اک حجابِ درمیاں سمجھا تھا میں

یادِ عہدِ آرزو بھی رفتہ رفتہ مٹ گئی
اور اسی کو حاصلِ عمرِ رواں سمجھا تھا میں

کیا غلط تھا اے دلِ نا عاقبت اندیش اگر
ان سے امیدِ وفا کو رائیگاں سمجھا تھا میں

منزلِ ذوقِ طلب میں، جادۂ ہستی سے دور
تم وہیں آخر ملے مجھ کو جہاں سمجھا تھا میں

رفتہ رفتہ ہو گئی برہم زن صبر و قرار
یاد اُن کی باعث تسکیں جاں سمجھا تھا میں

اللہ اللہ تھی انہیں کے پائے نازک پر جبیں
بیخودی میں سجدہ گہ کو آستاں سمجھا تھا میں

دل کی باتیں ان سے کہہ دیں اس طرح دیوانہ وار
جیسے ان کو اپنے دل کا راز داں سمجھا تھا میں

عارفیؔ کیا مجھ پہ ہوتا رنج و راحت کا اثر
زندگی کو دھوپ چھاؤں کا سماں سمجھا تھا میں

شئیر کیجیے

Ads 468x60px