عید 'اپنوں' کے ساتھ

صبح سویرے شبنم کی روپہلی بوندوں کا لمس پا کر سرکاری ٹی وی کے کارٹون دیکھ کر ماں کی دعاؤں کے سائے میں  باپ کی انگلی پکڑے اسکول جانے والے بچے نجانے اتنے بڑے کب سے ہو گئے کہ ماں باپ کی آسائشوں کا خیال نہ رکھ پائیں! دوپہر کو سکول سے واپسی پر اگر ماں نظر نہ آتی یا رات کو کام کا بوجھ لئے باپ کبھی دیر سے گھر آتا تو اندیشوں میں گھِر جانے والے بچے شعور کی سیڑھی کو ایسے عبور کر گئے کہ پھر سالوں ماں باپ کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ سکول سے تھکے ہارے واپس آ کر ماں کے ہاتھ سے کھانا کھانے کی شرط لگاتے بچے شاید دنیا کے جھمیلوں میں اس قدر مصروف ہوئے کہ ماں باپ کے لئے دو وقت کی روٹی کا بند و بست بھی مشکل ہو گیا۔ کبھی صبح سویرے گھر کی چھت پہ دانا چگتے چوزے اچھے لگتے تھے کہ ان سے اپنائیت کا احساس ہوتا تھا مگر پھر نہ وہ چوزے رہتے ہیں نہ وہ اپنائیت۔

منظر بدلتا ہے اور چوزوں کو دانہ چگتے دیکھ کر خوش ہونے والے بچوں کو کہیں یتیمی کا داغ لگ جاتا ہے تو  کہیں فکرِ معاش کھلونے توڑ دیتی ہے۔ کبھی وہ  بوٹ پالش کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی برتن دھوتے ہوئے۔ رنگ تو رنگ ان آنکھوں سے تو خواب بھی مٹتے جاتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ نئے کپڑے پہن کر  عید منانے کی خواہش زندگی کی بے رحم ضروریات تلے کہیں دب جاتی ہے۔ یہاں شماریات کا محل نہیں کہ رزق کی تلاش میں نکلے ہوئے ایک بچے کی آہ بھی تمام قوم کی عشرت و آسائش پہ بھاری ہے۔

بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچے

اب نہ سرخ پانی کا عذاب آئے گا، نہ ٹڈی دل چھوڑے جائیں گے کہ اب دلوں پہ مہر لگتی جا رہی ہے۔ بے حسی عذابِ الٰہی ہے۔۔۔ بے حسی عذابِ الٰہی ہے۔۔۔  اور اس سے بڑھ کر بے حسی کیا ہو گی کہ جنت اولڈ ہومز میں خود اپنے مکینوں کا، اپنے راج دلاروں کا رستہ تک رہی ہے۔ بے قیاس  و ناشناس لوگوں کے ہجوم میں بچوں کی اداس آنکھیں سراپا سوال ہیں۔۔۔

گھر تو کیا، گھر کی شباہت بھی نہیں ہے باقی
ایسے ویران ہوئے ہیں در و دیوار کہ بس

کتنی آنکھیں ایسی ہیں جو اولڈ ہومز میں اپنے پیاروں کے، اپنے بیٹوں، بیٹیوں کے آنے کی آس لگائے دھندلا جائیں گی مگر آنے والے نہیں آئیں گے! بابا ماضی کے سفر پہ نکل جائیں گے اور کس دل کے ساتھ تصور میں لائیں گے کہ کاش میرا بیٹا آئے، جیسے بچپن میں مَیں اس کی انگلی پکڑے سکول لے جاتا تھا، وہ مجھے گھر لے جائے! ماں اب بھی رات کو اولڈ ہوم کے دروازے پہ کھڑی دعاؤں کا ورد کرتی سوچ رہی ہو گی کہ اتنی رات ہو گئی، پتہ نہیں بیٹا گھر بھی پہنچا ہو گا یا نہیں، خدا خیر کرے!  پھولوں جیسے کتنے ہی معصوم سورج سے بھی پہلے تلاشِ رزق میں نکلیں گے اور رات کو تھکے ہارے ہاتھوں کا تکیہ بنائے خواب آنکھوں میں لئے سو جائیں گے!

کیا یہ انتظار، انتظارِ لاحاصل ہی رہے گا؟ آئیے! اس عید پر ہمارا ساتھ دیجیے کہ کہیں یہ عید بھی بوڑھی آنکھوں میں انتظار اور احساسِ محرومی کے مزید نئے کانٹے نہ چبھو جائے۔ اگر یہ آنکھیں بے نور ہو گئیں تو ہم کیسے دیکھیں گے! یہ لب خاموش ہو گئے تو ہمارے لئے دعائیں کون مانگے گا! یہ پھول مرجھا گئے تو کہیں باغبان ہم سے ناراض نہ ہو جائے! اگر یہ کلیاں تعلیم اور اپنائیت سے محروم رہیں تو کہیں کمھلا نہ جائیں! کہیں ہم منزل پہ پہنچ کے بھی بے آسرا، بے سر و سامان ہی نہ ٹھہریں!

عید سب کے لئے --- پازیٹیو پاکستان
آئیے! اولڈ ہومز میں اپنے پیاروں کے لئے متلاشی آنکھوں کے ساتھ عید منائیے۔ آئیے! کتابوں کی بجائے ہاتھوں میں اوزار تھامے پھولوں کے ساتھ عید منائیے۔ آئیے! موسم ہو یاکوئی تہوار، کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہماری خاطر اپنا وقت سڑکوں پہ گزارنے والے ٹریفک وارڈنز اور سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ عید منائیے  کہ رشتے صرف خون کے ہی تو نہیں ہوتے۔ بعض اوقات دل کے رشتے خون کے رشتوں سے کہیں زیادہ سَچے اور سُچے ہوتے ہیں۔

اولڈ ہومز میں بسے محبت کے ان فرشتوں کو آپ کے روپے پیسے کی خواہش نہیں، سکول کی بجائے دکانوں پہ جانے والے بچے آپ کی جائیداد میں حصہ نہیں مانگتے، سڑکوں پہ اپنے فرائض انجام دیتے اہلکاروں کو آپ سے کسی صلے کی تمنا نہیں کہ انہیں صرف آپ کے وقت کی ضرورت ہے اور ہم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔ وہ بناوٹ سے عاری ہیں، دستار کا بوسہ لینا نہیں جانتے، ان کی دعائیں آپ کی پیشانی کا بوسہ لیتی ہیں۔ آپ کے نام سے، آپ کے لئے ان کی آنکھیں وضو کرتی ہیں۔ ان کے شب و روز آپ کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ آئیے! ان کے ساتھ عید منائیں اور انہیں یقین دلائیں کہ "ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں"۔

تمام عمر سلامت رہیں، دعا ہے یہی
ہمارے سر پہ ہیں جو ہاتھ برکتوں والے
 (محمد بلال اعظم)




عابد کی سال گرہ کا احوال

یوں تو کالج میں کئی بار گرم لُو کے تھپیڑے کھائے اور بارہا بارش کی بوندوں کو کوریڈور میں، الیکٹرانکس لیب کی کھڑکی کے پاس، کبھی روز گارڈن میں، کبھی سنکنگ گارڈن میں کچھ حسین دوستوں کی پُر لطف قربت میں محسوس کیا مگر جو مزہ 27 جون کی بارش میں بھیگنے کا آیا، دل اُس سے پہلے نا آشنا تھا۔

بارش کی ایک ہی منزل ہے۔۔۔ دل کی لائبریری۔۔۔ کاغذ کی کشتی، بارش کا پانی۔۔۔من آنگن میں۔۔۔  وہ ہنستے ہنستے رونے لگتی تھی، دھوپ میں بارش ہونے لگتی تھی۔۔۔ ایسے میں کچھ دکھ بھی خودرو پودوں کی طرح باہر آ جاتے مگر یہ اداسی بھی تو دل مندر کی داسی ہے۔۔۔ لطیف اور حسین۔۔۔ بارش صرف یادوں میں ہی نہیں، کھانے پینے کی چیزوں اور خیالوں میں بھی برکت ڈال دیتی ہے۔۔۔ خیال، جن کی رفتار بارش کی بوندوں کو بھی مات دے دے۔ یہ بارش بھی تو سرما کی چاندنی جیسی ہے کہ خوابوں کو مزید اُجلا کر دیتی ہے۔ کتنے ہی آفاق دوستوں کے ساتھ گزری یادوں کے حیرت کدہ میں گم ہو جاتے ہیں! دل کے شہرِ پُر فن میں احبابِ دل نگار موجود ہوں تو بارش کی بوندیں خیال و فکر کی تجسیم و تخلیق کا لمحہ عطا کرتی ہیں اور اگر ان میں کسی ایک کے لئے کوئی لمحہ خاص ہو تو وہی بوندیں متاعِ یقین کے اسباب مہیا کرتی ہیں، رم جھم ایسا احساس مہیا کرتی ہے جیسے پانی میں محبت کا امرت گھلا ہوا اور تقدیس و محبت کے تمام "عابد" و "شاہد" فرشتے اس منظر کی گواہی دینے خود آئے ہوئے ہوں۔


بچپن سے سنتے آئے ہیں
اے ابرِ کرم آج اتنا برس۔۔۔۔ کہ وہ جا نہ سکیں
جبکہ ستائیس جون کی رات اس قدر اثر انگیز و حیرت ناک تھی کہ دل نے بے ساختہ صدا دی
اے ابرِ کرم آج اتنا برس۔۔۔ کہ "ہم" جا نہ سکیں


جہاں رونقِ محفل عابد و شاہد ہوں، محفلِ دوستاں کو منور کریں استادِ مَن مطیع الرحمان، یارِ دلآویز و مونسِ جاں عثمان بھائی، ارشد ، ضرغام اور عدنان ہوں وہاں مجھ تشنہ لباں سمیت سب ہی آسمانِ ہنر کے اُس پار "شفیق چہروں کی صبیح آنکھوں سے پھوٹتی دعاؤں کے کہر" محسوس کر رہے تھے۔ پہلے دماغ مصر رہا کہ سپورٹس آفس میں بیٹھا جائے مگر وہ دل ہی کیا جو بارش کی بوندوں اور تیز ہوا کو دیکھ کے مچل نہ جائے۔۔۔ یادگار سوئمنگ پول کے باہر کرسیاں لگائی گئیں تو سفیرانِ محبت کو دیکھ کر ہوا نے بھی اپنا رخ بدل لیا اور لگی لطیف روح کی کثیف سوچوں کو شفاف کرنے۔۔۔ بوندوں کی ہمرہی میں کیک کاٹا گیا اور روایتِ دوستاں کے منکر نہ ٹھہریں، اس لئے اسی کیک سے محفل کے دولہا کا چہرہ "کیک و کیک" کیا۔۔۔ اس کارِ خیر میں سب نے کارِ ثواب کی نیت سے حصہ لیا۔


کسی نے کہا تھا
کل ہلکی ہلکی بارش تھی
کل تیز ہوا کا رقص بھی تھا

ہوا رقص کرے، پتوں کی پازیب بجے تو کس کافر کا دل مانے گا خاموش رہنے کو۔۔۔ ہتھیلیوں کی تھاپ پہ شروع ہونے والا سفر دل کی لَے پر یادوں کے سُر سنگیت کے ساتھ لفظوں کی "انتاکشری" کا ہم رکاب ہوا۔جب ہر لہر کے پاؤں سے گھنگھرو لپٹے اور بارش کی ہنسی نے تال پہ پازیب چھنکائے تو بخدا درختوں پہ ستارے اتر آئے۔  المختصر یہ کہ رقص کیا اور کبھی شور مچایا۔۔۔ ہم تھے اور ہمارا "پاگل پن" تھا۔۔۔ خیر وقت کو گزرنا، وہ وقت بھی گزر گیا لیکن جاتے جاتے ہمیں کئی حسین یادیں دے گیا۔۔۔


مگر ان یادوں میں خلش رہی کہ سر عمران کا ساتھ میسر نہ آیا۔۔۔ عمران صاحب یاد آئے، دل ماضی کے سفر پر نکل گیا اور دور کہیں سے ذہن میں جھماکا اور ہاتھ جھلمل جھلمل کرتے برقی کی بورڈ پہ چلنے لگے۔۔۔ استادِ مہربان کے لئے خاکسار کا ایک شعر
کتنا یاد آتے ہیں
بارش، چائے اور تم


 اگلے برس بھی ستائیس جون آئے گی،  ہم نجانے کہاں ہوں گے مگر یہ یادیں اُس روز بھی یہ موسم، یہ محفل یاد دلائیں گی۔۔۔ جیسے پچھلی سترہ جون کو ہم کامسیٹس میں تھے، کالج میں سائیکل اسٹینڈ کے باہر کیک کاٹا اور اِس بار عثمان بھائی کے گھر۔۔۔ جیسے اس بار میں اور عثمان بھائی پچھلی سالگرہ کی یادوں کو تازہ کرتے رہے، اگلے سال یقیناً ہم سب کریں گے مگر اس امید کے ساتھ کہ یہ محفلیں کبھی ختم نہیں ہوں گی، محبتوں کو نہ کبھی زوال آیا نہ آئے گا۔۔۔ہسٹری سوسائٹی کی اس غیر رسمی ملاقات کے  اختتام پہ بشیر بدر یاد آ گئے

کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں
کوئی بارش ہو یہ کاغذ ذرا بھی نم نہیں ہوتا











 (محمد بلال اعظم)

آؤ مل کر قدرت کے راز کھوجیں!۔۔۔۔ تجسس سائنس فورم۔۔۔۔ تعارف (دوسرا حصہ)


تجسس سائنس فورم کے تعارف کا پہلا حصہ تیزابیت پہ پڑھا جا سکتا ہے۔

آج کے دور میں ملکی و غیر ملکی زبانوں میں تعلیمی ویب سائٹس کسی بھی ملک کی تعلیمی روایات کا ایک اہم حصہ گردانا جاتا ہے اور یہ ویب سائٹس کسی بھی ملک میں سائنس کی ترویج میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔علاوہ ازیں یہ طلباوطالبات کی شخصی،ذہنی،علمی و عملی اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
سائنس ایک مشکل مگر دلچسپ مضمون کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسکی افادیت سے دنیا بخوبی واقف ہے۔مگر طلباوطالبات اس مضمون کے بارے علم تو رکھتے ہیں مگر سمجھ نہیں رکھتے اور یہ عدم توجہی کی وجہ سے ہے۔ شاید کہ طلبا اس مضمون کو بس ایک مضمون سمجھ کر پڑھتے ہیں، اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اکثریت اردو زبان سے وابستہ ہے، انگریزی کو سرکاری اور دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود طلبا کی اکثریت اردو میڈیم سے وابستہ ہے۔ تجسس سائنس فورم کا مقصد اردو زبان میں سائنس کی ترویج و اشاعت ہے۔
پاکستان میں سائنس کی ترویج و اوشاعت اور ترقی کے لئے بہت لوگ کوشاں رہے اور اس شعبہ نے بہت سے صاحبِ علم پیدا کئے۔ جنہوں نے ملکی سطح پر اور شہری سطح پر اپنی خدمات سر انجام دیں اور ابھی تک یہ سلسلہ برقرار ہے اور انشاءاللہ یونہی برقرار رہےگا۔ ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، ڈاکٹر عطاءالرحمان اس کی روشن مثال ہیں۔
سائنس ایک بہت وسیع شعبہ ہے اور اسکو سمجھنے کے لئے دلچسپی اور وقت درکار ہے۔ ویب سائٹ کے زیرِتحت سائنس سے تعلق رکھنے والے تمام طلبا و طالبات اپنے نظریات کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اپنے تخلیقی کام کو متعارف بھی کروا سکتے ہیں۔ سائنس دن بدن ترقی میں مصروف ہے مگر ہمارا تعلیمی نظام کچھ ایسا ہے کہ سال ہا سال وہی پرانا نصاب پڑھایا جاتا رہا اور یہ نصاب بھی سائنس کے شعبہ کے کچھ درخشندہ ستاروں کی مرہونِ منّت ہے۔ سائنس میں روزانہ کی بنیاد پہ نئی چیزیں اور نظریات دریافت ہو رہے ہیں مگر ہمارے طلبا و طالبات اس سب سے بے خبر ہیں اورہمارے ہاں ان سب باتوں سے آگاہی کا فقدان ہے حالانکہ طلبا کا ان سب باتوں سے با خبر رہنا وقت کی ضرورت ہے۔لہذا تجسس سائنس فورم اس بات کی کمی کو دور کرنے میں ہمیشہ سے کوشاں رہی ہے اور انشاءاللہ رہے گی۔


ہمارے مقاصد: 
یوں تو تجسس سائنس فورم کے اغراض و مقاصد بہت ہیں مگر مختصراً کچھ کا ذکر درج ذیل ہے:
1)           سائنس سے متعلقہ مسائل کے حل میں طلبا کی مدد
2)           نئی ایجادات و دریافت سے آگاہی اور سائنس کی دنیا کے عظیم ناموں کے بارے میں اردو زبان میں لکھنا
3)           فورم کے ممبران میں سائنسی و تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ماہانہ بنیادوں پہ مقابلہ جات کا انعقاد
4)           طلبا کو اس قابل بنانا کہ وہ دوسرے ممالک اور ملکی سطح پر دوسرے اداروں کے طلبا کا سامنا کر سکیں
5)           مختلف موضوعات پر مختلف شعبہ جات کے اساتذہ کی جانب انکی تاریخ اور نظریات میں ترقی پر مبنی لیکچرز کا انعقاد
6)            سائنس سے متعلقہ مطالعاتی دوروں کا انعقاد
7)           سائنس کے بارے میں طلبا میں دل چسپی پیدا کرنا
8)           طلبا کو انکے روشن مستقبل کے مواقع کے بارے آگاہ کرنا                  
9)            طلبا کو سائنسی نمونہ جات بنانے کی طرف راغب کرنا اور انکی حوصلہ افزائی
10)         چھوٹی جماعتوں کے طلبا کو
سائنس کی افادیت اور اس مضمون سے آگاہ کرنا،اور اساتذہ کی تعلیمی زندگی کا تعارف انکے سامنے رکھنا                       تا کہ وہ انہیں اپنے لئے مثال سمجھیں۔
11)        ایک سائنسی جریدے کی اشاعت کی کوشش کرنا

               لیکن ہمیں ان سب مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے بہترین افرادی قوت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کام صرف دو چار لوگوں کا نہیں بلکہ ایک پوری ٹیم کا ہے۔ مگر ہمیں امید ہے کہ اس سفر میں ہم تنہا نہ ہوں گے، آہستہ آہستہ ہم ایک قافلہ کی شکل اختیار کر لیں گے۔ آئیے ہمارا ساتھ دیجیے، تجسس سائنس فورم کے رکن بنیں اور پاکستان میں سائنس کے حوالے سے ایک نئے باب کا در وا کرنے میں ہماری کوشش کا حصہ بنیں۔

میرے کمرے میں کہیں رات پڑی ہو جیسے


میرے کمرے میں کہیں رات پڑی ہو جیسے
سرمئی شام اسے ڈھونڈ رہی ہو جیسے

خواب تو جل کے دھواں کب کا ہوا ہے لیکن
 ایک چنگاری کہیں اب بھی دبی ہو جیسے

ایک گزرے ہوئے لمحے میں پڑا ہوں کب سے
 زندگی رکھ کے مجھے بھول گئی ہو جیسے

ہاتھ میں ہاتھ مگر پھر بھی یہ لگتا ہے مجھے
 تُو بہت دور بہت دور کھڑی ہو جیسے

اشک پلکوں کے کناروں سے  اُمڈ آئے ہیں
 میری آنکھوں سے کوئی بھول ہوئی ہو جیسے

چلتے چلتے ہوئے اکثر میں ٹھٹھک جاتا ہوں
 میں نے پھر سے وہی آواز سُنی ہو جیسے

(اسد قریشی)

عشق کا نام تو آزار بھی ہو سکتا تھا


عشق کا نام تو آزار بھی ہو سکتا تھا
ہجر سہنا کبھی بیکار بھی ہو سکتا تھا

جرم کی آگ میں جھلسا ہے جو معصوم سا پل
 اگلے وقتوں کا یہ معمار بھی ہوسکتا تھا

 برف نے ڈھانپ رکھا ہے جسے اب تک سوچو
آتشِ قہر کا کوہسار بھی ہو سکتا تھا

ہے عجب رزق کی تقسیم، تو ترسیل عجب
جو ہے محدود و بسیار بھی ہو سکتا تھا

 یوں تو دنیا نے دیئے غم ہیں بہت سے مجھ کو
ورنہ غم تیرا گراں بار بھی ہوسکتا تھا

خیر ہو قیس کی صحرا کو بنایا مسکن
دلِ وحشی تھا یہ خونخوار بھی ہو سکتا تھا

شمع جل کر بھی نہ جل پائی، مگر پروانہ
عشق میں تھوڑا سمجھدار بھی ہوسکتا تھا

میں نے چاہا نہ کبھی خود کو نمایاں کرنا
میرے قدموں میں یہ سنسار بھی ہوسکتا تھا

 وہ تو اچھا ہے کہ سمجھا نہ زمانہ مجھ کو
 ورنہ منصور، سرِ دار بھی ہوسکتا تھا

تجھ پہ سایا ہے تری ماں کی دعاؤں کا اسدؔ
شکر کر راندہِ دربار بھی ہوسکتا تھا

(اسد قریشی)

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا


اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی پسند مثال نہیں بنتی، کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا


اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھُلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی، ہر پھول گلاب نہیں ہوتا




اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی، سب کارِ ثواب نہیں ہوتا

میرے چاروں طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بیتاب نہیں ہوتا

یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا، کبھی سچا خواب نہیں ہوتا

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو، اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی، کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

میری باتیں جیون سپنوں کی، میرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا، مجھ سے آداب نہیں ہوتا


(سلیم کوثر)

اُس سمت چلے ہو تو بس اتنا اُسے کہنا

محترم غلام سرور صاحب، جو سرور مجاز کے قلمی نام سے لکھتے تھے، کی ایک بہت خوبصورت غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر

اُس سمت چلے ہو تو بس اتنا اُسے کہنا
اب کوئی نہیں حرفِ تمنّا، اُسے کہنا

اُس نے ہی کہا تھا تو یقیں میں نے کیا تھا
امّید پہ قائم ہے یہ دنیا، اُسے کہنا

دنیا تو کسی حال میں جینے نہیں دیتی
چاہت نہیں ہوتی کبھی رسوا، اُسے کہنا

زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
دریا ہی بدل لیتے ہیں رستا، اُسے کہنا

وہ میری رسائی میں نہیں ہے تو عجب کیا
حسرت بھی تو ہے عشق کا لہجہ، اُسے کہنا

کچھ لوگ سفر کے لئے موزوں نہیں ہوتے
کچھ راستے کٹتے نہیں تنہا، اُسے کہنا

(سرور مجاز)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px