پھر دل میں سلگ اٹھی ہے زنجیر کی خواہش


پھر دل میں سلگ اٹھی ہے زنجیر کی خواہش
اب خواب ہیں مطلوب نہ تعبیر کی خواہش

پاگل دلِ ناداں تھا کہ کرتا رہا شب بھر
خوابوں کی حویلی میں کسی ہیر کی خواہش


یہ بارِ محبت تو سنبھالے نہیں سنبھلا
اور اُس پہ سِوا سلسلۂ میرؔ کی خواہش


ناداں تھے وہ انسان، جو ڈھاتے رہے دیوار
معمار تو کرتا رہا تعمیر کی خواہش!


رہتا ہوں مقامِ مہ و انجم سے بھی آگے
پر دل میں ہے کچھ اور بھی تسخیر کی خواہش

(محمد بلال اعظم)

ہو جائے کسی طور جو تکمیلِ تمنّا


ہو جائے کسی طور جو تکمیلِ تمنّا
لہجوں میں اتر آئے گی تفضیلِ تمنّا

سنتا رہا تاویلِ جفا اُس کی زباں سے
بہتا رہا آنکھوں سے مری نیلِ تمنّا

اُس صورتِ مریم کو سرِ بام جو دیکھا
سینے میں اتر آئی اک انجیلِ تمنّا

ایسا بُتِ کافر ہے کہ دیکھا نہیں مُڑ کر
ہر چند کہ ہوتی رہی تعلیلِ تمنّا

مدّھم ہوئی آنکھوں میں تو پھر دل میں جلا لی
پر بجھنے نہیں دی کبھی قندیلِ تمنّا

اُس عہدِ اذیّت میں اتارا گیا مجھ کو
جس عہد میں ہوتی رہی تذلیلِ تمنّا

(محمّد بلال اعظم)​

راشد اشرف۔۔۔ اردو دنیا کی ایک قد آور شخصیت


"کتابوں کا اتوار بازار"، "اس ہفتے کی کتاب" اور "ابنِ صفی" جیسے موضوعات پہ لکھنے والی مشہور شخصیت اور سینکڑوں قیمتی کتابوں کو سکین کر کے انٹرنیٹ پہ مہیا کرنے والے محترم راشد اشرف صاحب کا خصوصی انٹرویو، جو کلکتہ کے ایک اخبار کے لئے لکھا گیا تھا، اس کی ان پیج ہمیں بھی موصول  ہوئی ہے۔ جس پہ ہم راشد اشرف صاحب کا دلی شکریہ ادا کرتے ہیں۔

راشد اشرف صاحب



فیس بک پروفائل: https://www.facebook.com/zest70pk
وادئ اردو: http://www.wadi-e-urdu.com/
ای میل: zest70pk@gmail.com

امید ہے ہم سب کو اس قلمی ملاقات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

سوالنامہ منجاب محترمہ فرزانہ اعجاز، مسقط 
19
ستمبر 2013 ۔راشد اشرف
سوال 01: آپ کی پیدائش کہاں کی ہے اور آپ کے اطراف ادبی اور سماجی ماحول کیسا تھا ؟

جواب: پیدائش کراچی کی ہے۔ 70 کی دہائی میں ادبی ماحول کے بارے میں اس لیے وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پنگوڑے میں تھا اور پنگوڑے کے اطراف کا ماحول ہمیشہ انتہائی غیر ادبی ہوتا ہے۔ 

سوال 02: آپ نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کہاں حاصل کی؟اور تعلیمی زندگی میں کن اساتذہ سے علمی استفادہ کیا؟
جواب: اوائل عمری ہی میں والدین کا بسلسلہ روزگار تبادلہ حیدرآباد سندھ میں ہوگیا تھا جہاں والد ایک بینک سے وابستہ تھے جبکہ والدہ تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں اور چند برس قبل پروفیسر آف فزکس کے عہدے سے سبکدوش ہوئی ہیں ۔ابتدائی تعلیم انٹر تک حیدرآباد ہی سے حاصل کی۔ اس کے بعد ‘‘اعلی تعلیم’’ کے حصول کے لیے حیدرآباد سے کراچی کا رخ کیا جہاں سے این ای ڈی یونیورسٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں لکھنے کا آغاز سولہ برس کی عمر میں کیا۔ یہ بھی گویا ایک المیہ ہی ہے اس لیے کہ بچے عموما ڈھائی تین برس کی عمر میں ہی لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ 
تعلیمی زندگی میں اپنے اساتذہ کا احترام راقم کے دل میں شروع ہی سے تھا (اساتذہ منجانب راقم اپنے دلوں میں کتنی قدر و احترام رکھتے تھے، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے) خاص کر پبلک اسکول حیدرآباد میں اردو کے استاد سے راقم کو دلی عقیدت تھی۔ ان کا نام نعیم الرحمن جوہر تھا ، نعیم صاحب پہلے ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ انٹر کی کلاس کے آخری دن نعیم صاحب نے اپنے تمام طالب علموں کے سامنے اپنی داستان حیات بیان کی۔ تمام طالب علم ان سے محبت کرتے تھے اور ان کی باتیں سننے میں محو تھے۔ قبول اسلام سے قبل نعیم الرحمن جوہر، نربھرے رام جوہر تھے، ان کے والد نے انہیں گیتا کے ساتھ ساتھ بائبل اور قران کریم کی تعلیم بھی دی جس کی بنیاد پر آگے چل کر وہ اختیاری طور پر نربھرے رام سے نعیم الرحمن ہوئے۔

سوال 03: راشد صاحب! بتایئے کہ اس وقت اردو زبان اور اردو ادب کی ترقی کی کیا صورت حال ہے؟اور کون سی صنف زیادہ ترقی کر رہی ہے؟
جواب: اس وقت اردو زبان اور اردو ادب کی ترقی کی صورت حال بیک وقت مایوس کن اور خوش کن ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی آمد اور لوگوں کی کثیر تعداد کے اس سے استفادے کے بعد اردو لکھنے کا رجحان کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ‘‘کٹ اینڈ پیسٹ’’  کا دور دورہ ہے۔ اکثر کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں اگر ‘‘گوگل سرچ انجن’’  کی سہولت بند کردی جائے تو یقین کیجیے کہ اردو کے آدھے اخبار راتوں رات دم توڑ جائیں گے، آدھی صحافت کا صفایا ہوجائے۔ غالباً ہند میں بھی معاملہ مختلف نہ ہوگا۔ دوسری جانب امید افزاء پہلو یہ ہے کہ اس صورت حال میں بھی نئے لکھنے والے تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان میں حالیہ چند برسوں میں خودنوشت لکھنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس صنف ادب کو کئی لکھنے والوں نے درخوراعتنا جانا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کئی لکھنے والوں نے اس انداز سے خودنوشت لکھی ہے کہ اپنے قاری کو ‘‘درگور’’ کردیا ہے(یہاں جی چاہ رہا کہ درخور اور درگور کے استعمال کی جانب اسی انداز سے قارئین کی توجہ مبذول کراؤں جیسے محترم بشیر مشاعروں میں بدر ہوا میں ہاتھ لہرا لہرا کر سامعین کی توجہ اپنے اشعار کی جانب کرانے میں یدطولی رکھتے ہیں )۔۔۔۔۔۔
خاکہ نگاری، سفرنامہ اور تنقید میں بھی کثیر تعداد میں کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ 
رہا سوال شاعری کا تو اس سلسلے میں خامہ بگوش کا وہ بیان راقم کی نظر میں ہمیشہ تازہ رہے گا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ  ‘‘عہد میر میں دلی میں پانچ ہزار شاعر تھے، آج لاہور کے تھانہ انار کلی کی حدود میں اس سے زیادہ شاعر مل جائیں گے۔‘‘
اردو زبان و ادب میں شاعری ایک ’سنگین ‘ مسئلے کا رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔ حالیہ چند دہائیوں میں ایسے شعراء کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو محض اپنا کلام شائع کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس عمل کے دوران شاعری کے معیار کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ڈاکٹر گیان چند جین نے شعری مجموعوں کی کثیر تعداد میں اشاعت کے بارے میں کہا تھا: 
’’
میں کسی طرح معاصر ادب کا نقاد نہیں لیکن میرے پاس شعری مجموعے جس کثیر تعداد میں آتے ہیں، میں ان سے سراسیمہ ہوگیا ہوں۔ اکتوبر نومبر 1986 میں چھ ہفتوں کے لیے میں حیدرآباد (دکن) سے باہر گیا۔ اس عرصے میں سات شعری مجموعے وصول ہوئے جن میں پانچ کے خالق ایسے تھے جن کا نام میں نے پہلی بار ان مجموعوں کے طفیل سنا۔ اگر کسی ہفتے کوئی شعری مجموعہ نہ آئے تو میں اسے مبارک جانتا ہوں۔ ایک شامت اعمال ہفتے میں تین مجموعے وصول ہوئے۔ اگر مجھ بے بصیرت کا یہ حال ہے تو جو حضرات اردو کے نامور مبصر اور دیدہ ور نقاد ہیں ، ان کے ہاں تو شعری مجموعوں کی ایسی باڑھ آتی ہوگی کہ گھر میں ان کے بیٹھنے اٹھنے کو ایک جگہ بھی نہ بچتی ہوگی۔‘‘

سوال 04:  کیا کسی زبان کی ترقی محض اس بات پر منحصر ہے کہ اسکو سرکاری تحفظ حاصل ہو؟اگر ایسا نہیں ہے تو زبان اور ادب کے تحفظ اور ترقی کے کیا کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟
جواب: کسی زبان کی ترقی ہرگز ہرگز محض اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ اس کو سرکاری تحفظ حاصل ہو۔ اردو زبان میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی بھرپور قوت ہے۔ یہ تمام تر نامساعد و نامواقف حالات کے باوجود بھی اپنا راستہ بنا رہی ہے۔ ان حالات میں سرکار عوام کو تحفظ دے لے ، وہی بہت بڑی بات ہوگی، ایسی صورت میں عوام خود خوشی خوشی زبان کو تحفظ دے لیں گے۔ 

سوال 05: آپ کی دلچسپی اردو کی کتابیں جمع کرنے میں ہے اور ان میں سے اکثر کتب کو کمپیوٹر پر منتقل کرنے کا محنت طلب کام کرنے کا خیال کیوں کرآیا؟
جواب: انٹرنیٹ پر راقم تادم تحریر پونے تین سو نادر و نایاب کتابیں پیش کرچکا ہے اور ان تمام کتابوں کے دائرہ مطالعہ یا ‘‘ریڈرشپ’’ کا ریکارڈ حیران کن ہے۔ اب تک پوری دنیا میں ایک لاکھ سے زائد افراد ان کتابوں کو پڑھ چکے ہیں جبکہ ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کی تعداد علاحدہ ہے۔ اس کام کو سرانجام دینے کے پس پردہ صرف ایک ہی سوچ تھی اور وہ یہ کہ کسی بھی عمدہ و دلچسپ کتاب کو کسی فرد واحد کی ذاتی جاگیر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے ہرخاص و عام کی دسترس میں ہونا چاہیے۔ 
ایک امریکی اور ایک برطانوی آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ برطانوی نے اپنی دوبین سے ساحل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ‘‘وہ دیکھو! سو فٹ د ور کس قدر حسین لڑکی کھڑی ہے’’
امریکی نے جواب دیا ! ‘‘وہ تو ٹھیک ہے مگر سو فٹ دور کھڑی حسینہ کس کام کی ؟ ‘‘
سو کوئی اہم اور تاریخی کتاب اگر کسی صاحب کے کتب خانے میں برسوں سے پڑی ہے اور (معاف کیجیے گا ) وہ اگر اس پر پھن کاڑھے بیٹھے ہیں تو اس کا دوسروں کو کیا فائدہ۔ 
اس کام کو کیے جانے کے پس پردہ اردو زبان کی ترویج کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی کارفرما تھی کہ اردو کی وہ کتابیں پیش کی جائیں جو ماضی کی گرد میں کہیں چھپ کر نظروں اور ذہنوں سے اوجھل ہوگئی تھیں اور جو فی زمانہ کسی تحقیق کے کام میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہیں مزید یہ کہ دنیا کے ایسے حصوں میں قیام پذیر لوگ ان سے استفادہ کرسکیں جہاں اردو کی کتابیں پہنچا تو کجا، وہ اردو بولنے کو بھی ترس جاتے ہیں۔ 
بیرون ممالک میں مقیم ایسے ہزارہا لوگ ہیں جنہوں نے مذکورہ کتابوں میں شامل فیروز سنز سے سن ستر کی دہائی میں شائع ہوئے بچوں کے ڈیڑھ سو سے زائد ناولوں کو اپنے بچوں کو اردو سکھانے کی غرض سے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ راقم کے ذاتی ای میل میں اس سلسلے میں سینکڑوں ای میلز آچکی ہیں، لوگوں نے انہیں خود پڑھا ہے ، اپنے بچوں کو پڑھوایا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ انٹرنیٹ پر درج ذیل لنک کی مدد سے مذکورہ تمام کتب تک بہ آسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے:
http://www.scribd.com/zest70pk/documents 
اس بات کا ذکر اہم ہے کہ ان میں زیادہ تر وہ کتابیں ہیں جن کو شائع ہوئے چالیس سے پچاس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ راقم کا ای میل پتہ یہ ہے، اگر کسی صاحب کو اس سلسلے میں کسی دقت کا سامنا ہو تو براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں:
 zest70pk@gmail.com


سوال 06: اس مشکل کام کرنے میں کیا کوئی دوسرا بھی آپ کا مددگار ہے یا آپ اکیلے ہی چلے ہیں جانبِ اردو ادب؟
جواب: واضح رہے کہ ان کتب کو اسکین کرکے انٹرنیٹ پر پیش کرنے کے سلسلے میں میں راقم اکیلا ہی کام کرتا رہا ہے اور ایک اندازے
کے مطابق تادم تحریر ایک لاکھ سے زائد اوراق اس سلسلے میں اسکین کرکے پیش کیے جاچکے ہیں۔ یہ دوانے کا سودا ہے، اور اس کام سے کسی مالی فائدے کی امید سے راقم کوسوں دور ہے۔ کتابیں ہر  ‘‘عام و خاص’’ کے لیے ہیں اور دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جب تلک ساغر چلے گا، چلائیں گے۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ، کتابوں یا مطلوبہ مواد کی لوگوں کو فراہمی کے پس منظر میں مدد کا جذبہ کارفرما ہے اور اس سلسلے میں راقم، مشفق خواجہ مرحوم، سید معراج جامی اور عقیل عباس جعفری جیسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی حقیر سی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ بنا کسی غرض ، لوگوں کی مدد کی اور کررہے ہیں۔
 

سوال 07: دنیا کے ہر کونے سے آپ کو کتابیں موصول ہوتی ہیں ،آپ کا کیا تاثر ہے کہ دنیا کے الگ الگ حصوں میں رہنے والے،اردو والے،اور انکی نگارشات ایک جیسی ہیں یا ان میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ اور یہ کہ خصوصاً برصغیر ہند وپاک میں اردو زبان کاکیا مستقبل نظر آتا ہے۔اور دونوں ملکوں میں لکھے جانے والے ادب اور طباعت میں کیا کیا نمایاں فرق نظر آتا ہے؟
جواب: یہ بات درست ہے کہ راقم الحروف کو دنیا کے ہر کونے سے کتابیں موصول ہوتی ہیں۔ خاص کر ہندوستان سے جہاں سے ہر طرح کی چیز، ہر طرح کا سامان پاکستان آتا ہے سوائے کتابوں اور جرائد کے۔ 
دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والوں کی نگارشات ہرگز ہرگز ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ ان میں تنوع ہوتا ہے، ہر علاقے اور خطے کا رنگ نمایاں ہوتا ہے، ہر تحریر کا الگ الگ مزہ ہوتا ہے۔ خاص کر خودنوشتوں کے معاملے میں تو بیک وقت کئی ‘ذائقے’ محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ہاں البتہ پاک و ہند سے شائع ہونے والی خودنوشتوں میں ایک قدر مشترک ضرور ہے۔ برصغیر کے نامساعد حالات میں لوگوں کا آگے بڑھنا، زیست کرنا، اس میں درپیش مصائب کا بیان اور ہمت اور عزم سے ان سے نبرد آزما ہونے کا احوال۔ یہ قاری کو ہمت اور حوصلہ دیتا ہے۔ 
حالیہ دنوں میں راقم نے دہلی سے شائع ہوئی ایک ایسی ہی خودنوشت ‘‘پگڈنڈیاں’’ کا مطالعہ کیا اور مصنفہ ‘‘بچنت کور’’ کے دکھ کو اپنے دل میں محسوس کیا۔ اسی طرح خاکہ نگاری کی صنف میں بے شمار لوگوں نے اہم سنگ میل قائم کیے ہیں ، درجنوں معیاری مجموعے منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ منٹو، شورش کاشمیری، چراغ حسن حسرت، نصر اللہ خاں، ماہر القادری، اسلم فرخی، غرضیکہ کس کس کا نام لوں اور کس کا نہیں۔ لیکن حال ہی میں ہندوستانی فلمی صنعت سے وابستہ میرے محترم کرما فرما جاوید صدیقی کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ’’روشندان’’ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کے مطالعے کے بعد راقم کا یہ ماننا ہے کہ خاکہ نگاری کی تیزی سے ماند پڑتی صنف ادب میں گویا اس کتاب نے ایک نئی روح پھونک دی ہے اور اس کی رگوں نیا خون دوڑا دیا ہے۔ ہر حساس دل رکھنے والے کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ 
’’
پگڈنڈیاں’’ ہو یا ’’روشندان’’، دونوں میں حالات حالات کے شکنجے میں جکڑے ہوئے مجبور انسانوں کی داستانیں موجود ہیں۔ یہ اس خطے کی قسمت ہے جسے برصغیر پاک و ہند کہا جاتا ہے ۔ یہاں کی اکثریت کو نان و جویں کے لیے سنگلاخ پتھروں کا کلیجہ چیرنا پڑتا ہے۔ اپنا آپ داؤ پر لگانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر گوہر مقصود ہاتھ آتا ہے اور وہ بھی سب کے نصیب کا حصہ نہیں بنتا۔ 
راقم کی نظر میں برصغیر ہند وپاک میں اردو زبان کا مستقبل تمام تر ناموافق حالات کے باووجود پائدار ہے۔ خاص کر ہندوستان میں جب تک ’’اردو’’ زبان میں فلم بنتی رہے گی، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔ یقین کیجیے کہ جب تک چھوٹے چھوٹے اداکار بچے ہندوستان میں بنی ’’چلر پارٹی’’’ جیسی فلموں میں بے عیب، ش قاف کا خیال رکھتے ہوئے اردو بولتے رہیں گے، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔جب تک رچی مہتا جسے لوگ ’’عمل’’  جیسی فلموں کو پیش کرتے رہیں گے اور نصیر الدین شاہ جیسے عظیم اداکار مذکورہ فلم میں بے عیب اور بامحاورہ اردو بولتے رہیں گے، اردو کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں میں ہندوستانی آرٹ فلموں کا ذکر قصداً نہیں کرنا چاہتا کہ وہ میری انتہائی دلچسپی کی چیز ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کا یہ متحمل یہ انٹرویو نہیں ہوسکتا۔ لیکن بہرحال اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ ان فلموں میں سے بہتیری ایسی ہیں جن میں اردو زبان کی صحت کا خیال رکھا گیا ہے اور دیکھنے والوں کو اردو سیکھنے کی ترغیب ملی ہے۔ پاکستان کہنے کو اردو کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں یہ حال ہے کہ انگریزی دان طبقہ اردو کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان میں انگریزی بولیے ، رکے ہوئے کام ہوجائیں گے، سامنے والا مرعوب ہوجائے گا۔ یہاں ایسے مناظر دیکھتے ہوئے ایک عمر گزر گئی ہے۔ 
ہند میں انگریزی بولنا باعث فخر نہیں سمجھا جاتا جبکہ یہاں اس کے برعکس ہے۔ 
ادھر یہاں کے ٹی وی چینلز نے وہ ادھم مچایا ہے کہ الامان الحفیظ۔ سب سے زیادہ بگاڑ یہی لوگ پیدا کررہے ہیں۔ خبریں پڑھنے مرد و خواتین سارا دن غلط اردو بولتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اردو کی کوئی کتاب کھول کر بھی نہ دیکھی ہوگی۔ محترم آصف جیلانی کی بات دوہرا رہا ہوں کہ لفظ  ‘‘حوالہ’’  پاکستان میڈیا کے اعصاب پر سوا رہوگیا ہے۔ ایک ایک جملے میں چار چار مرتبہ اس لفظ کو دوہرایا جاتا ہے۔ سب سے بڑا چینل ہونے کے دعوے دارٹی وی چینل پر ایک میک اپ میں لتھڑی ہوئی خبریں پڑھنے والی خاتون کا قصہ تو محمود شام صاحب نے راقم سے بیان کیا تھا۔پاکستان میں2009 میں آنے والے سیلاب کے دنوں میں کیے گئے ایک براہ راست پروگرام کے دوران وہ ناظرین سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے فرمارہی تھیں کہ ’’آگے بڑھیے! ہم آپ کی دست درازیوں کے منتظر ہیں’’۔ اب کوئی اس سے پوچھتا کہ بی بی ! تمہاری درخواست کے جواب میں یہاں تو پروانوں کی قطار لگ جائے گی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جوعورت مذکورہ بالا فقرے کے مفہوم اور اس کے ‘نتائج’  سے نابلد تھی، اسے وائس آف امریکہ نے اپنے پروگرام میں بطور میزبان لے لیا تھا۔ 
دونوں ملکوں میں شائع ہونے والی کتابوں کی طباعت میں واضح فرق ہے۔ یہ فرق صاف نظر آتا ہے۔ راقم کو ایک ہندوستانی ناشر نے حال ہی میں بتایا تھا کہ ہند میں سرکار اردو زبان میں شائع ہونے والی کتابوں کو مالی معاونت فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سے آنے والے رسائل کی قیمت ناقابل یقین حد تک کم ہوتی ہے، اتنی قیمت میں پاکستان میں رسالے کا سرورق ہی بنتا ہوگا۔ یہی حال کتابوں کا ہے۔ ہند سے شائع ہونے والی کتابوں کا کاغذ نہایت عمدہ اور معیاری ہوتا ہے جبکہ یہاں بڑے بڑے نامی گرامی ناشرین کا یہ حال ہے کہ وہ ‘‘میٹ’’ کاغذ (ایک سالخوردہ نظر آنے والا مٹیالا و ملگجا سا شرمناک کاغذ جسے دیکھ دل بیٹھ جاتا ہے) کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ حال ہی میں نامور ادیب و براڈکاسٹر رضا علی عابدی کی کتاب ‘‘کتابیں اپنے آباء
کی’’ شائع ہوئی ہے اس قدر عمدہ اور دلچسپ و تاریخی کتاب کی طباعت کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کئی مثالیں ہیں۔ کتابیں اپنے آباء کی، ‘‘آباء ’’  ہی کے زمانے میں شائع ہوئی کوئی کتاب جان پڑتی ہے۔ 

سوال 08: آ پ کو خود ادب کی کون سی صنف زیادہ پسند ہے اور آپ کس صنف میں اظہار خیال کرنا پسند کرتے ہیں ؟
جواب: خودنوشت، خاکہ اور سفرنامہ۔ راقم الحروف کے خیال سے یہ تینوں اصناف ادب محض اس کی نہیں بلکہ اکثریت کی پسندیدہ ہوتی ہیں۔ پاکستانی ادیبوں کے تحریر کردہ ہندوستان کے سفرناموں سے شیفتگی کا یہ عالم ہے کہ 2011 میں فرزند ابن صفی جناب احمد صفی دلی گئے تو راقم نے انہیں لذت کام و دہن کی آزمائش کے لیے کریم ہوٹل کا نام تجویز کیا اور نتیجہ حسب حال نکلا۔ کریم ہوٹل کے کھانے کھا کر ان کا وزن اور واپسی پر اس کے بیان سے ہماری اشتہا، دونوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح اور کئی مثالیں بھی ہیں۔ 
خودنوشت آپ بیتی راقم کی دلچسپی کا ایک خاص موضوع ہے اور اس صنف ادب میں کچھ کام بھی کیا ہے۔ پاک و ہند سے شائع ہونے والی خودنوشت آپ بیتیوں کی فہرست پر راقم گزشتہ چار برس سے کام کررہا ہے، یہ تقریبا مکمل ہوچکی ہے اور امکان ہے کہ کسی موقر(یا غیر موقر) ادبی جریدے میں شائع ہوگی۔ اسی طرح ابن صفی پر دو کتابیں لکھنے کے بعد اب اردو خودنوشتوں پر ایک جامع کتاب لکھنے کا ارادہ ہے لیکن کیا کیجیے کہ راقم کسی ‘‘قدر ناشناس’’ کی تگڑی سی ‘‘زرپرستی’’ کا طلبگار ہے اور ذاتی طور پر سوچتا ہے کہ اگر اس کے بجائے ملکہ شراوت پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیا ہوتا تو ناشرین کی قطار لگ چکی ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ قطار میں موجود ناشرین کی اکثریت میں ‘نا’ اور ‘شر’، دونوں عناصرکا غلبہ ہوتا۔ لیکن صاحب، کیا کیجیے کہ اگلے وقتوں میں زور شرافت پر ہوتا تھا، اب ‘‘شراوت’’ پر ہے۔ 
خیر یار زندہ صحبت باقی بلکہ ناشر زندہ شراوت باقی ۔۔۔۔۔!
رہا سوال اظہار خیال کرنے والی بات کا تو کتابوں بالخصوص خودنوشتوں پر تبصرے ہی عرصہ چار برسوں سے دلچسپی کا موضوع رہے ہیں جو پاک و ہند کے مختلف ادبی جرائد میں شائع ہورہے ہیں۔ راقم اس کوشش کو اپنے باعث فخر نہیں سمجھتا، یوں سمجھ لیجیے کہ دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک ذریعہ ہے۔ 

سوال 09: کمپیوٹر کی ایجاد نے اردو والوں کو بہت قریب کردیا ہے ، یہ اچھی علامت ہے یا تصادم کی ؟
جواب: اس بات میں دوسری کوئی رائے نہیں ہوسکتی کہ کمپیوٹر کی ایجاد نے اردو والوں کو قریب کردیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور متفرق فورمز کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے جہاں نئی کتابوں کی اشاعت کی اطلاعات، شاعری، نثری مضامین سبھی کچھ ایک پلک جھپکتے میں ای میل باکس میں پہنچ جاتا ہے، لوگ اسے باقاعدگی سے دیکھتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ اس سے کتابوں کی فروخت میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ راقم الحروف کی، بارے نئی کتابوں کی اشاعت، پیش کی جانے والی خبروں کے ردعمل میں لوگ اردو بازار کراچی کی سب سے بڑی دو دکانوں میں متعلقہ کتاب کے حصول کے لیے راقم کی ‘‘مدلل’’ رائے و تعارف کے احترام میں راقم کا نام لیتے پہنچے۔ البتہ اس بات کا کوئی ریکارڈ نہ مل سکا کہ زر کثیر صرف کرکے کتاب خریدنے اور اسے پڑھنے کے بعد وہی لوگ راقم الحروف کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ سچ پوچھیے تو طبیعت میں پائی جانے والی درویشی اور متاثرین کے متوقع ردعمل کے سبب کبھی ہمیں اس کی تفصیلات جاننے کا شوق بھی نہ ہوا۔ 
بہرحال یہ صحت مندانہ رجحان ہے، حوصلہ افزاء بات ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اردو ٹائپنگ یعنی یونی کوڈ (یا ان پیج)کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور راقم کے ذاتی علم میں ایسے کئی بزرگ ہیں جو اسی برس سے زیادہ کی عمر میں مہارت سے اس کا استعمال کررہے ہیں۔ مقصود الہی شیخ، پروفیسر اطہر صدیقی، آصف جیلانی۔۔۔۔ کتنے ہی ان جیسے مزید نامور لوگ ہیں جو مذکورہ طرز تحریر میں مہارت رکھتے ہیں۔ 
اس شعبے میں کئی خاموش مجاہد صلے کی تمنا کی پروا کیے بغیر چپ چاپ اپنا کام کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں کئی نام ہیں جیسے فرخ منظور، محمد وارث اور اسی طرح ہند میں اعجاز عبید ہیں جنہوں نے یونی کوڈ میں متفرق موضوعات پر ہزارہا برقی کتابوں کی دستیابی کو ممکن بنایا ہے۔ پاکستان میں ایک صاحب شرجیل نامی نے شکاریات پر ایک عمدہ ویب سائٹ بنائی ہے۔ اعجاز عبید صاحب کو پاکستان سے بھی کئی لوگوں کا تعاون حاصل ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ ان تمام لوگوں کی ستائش کرسکوں۔ اردو محفل، اردو ویب، اردو سخن وغیرہ کئی ایسی سائٹس ہیں جہاں اراکین اردو میں لکھتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ 
حال ہی میں ریختہ کے نام سے ہند میں ایک اردو ویب سائٹ کا آغاز کیا گیا ہے جہاں پرانی کتابیں دستیاب ہیں۔ یہ نہایت کارآمد ویب سائٹ ہے جو تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ 
راقم الحروف نے بھی اس سلسلے میں کچھ ٹوٹا پھوٹا کام حسب توفیق و استطاعت کیا ہے اور تادم تحریر متفرق موضوعات پر 282 کتابیں اپ لوڈ کی ہیں۔ ان میں پچانوے فیصد کتابیں ایسی ہیں جن کی اشاعت کو چالیس سے پچاس اور بعض کو ساٹھ برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان میں خودنوشتیں بھی ہیں، سفرنامے بھی اور خاکوں کے مجموعے بھی ہیں۔ ان کتابوں کے مصنفین کی اکثریت اس دنیا سے جاچکی ہے بصورت دیگر وہ کاپی رائٹ کی اس خلاف ورزی کی صورت میں راقم پر یقیناؐ نالش کردیتے۔
پاک و ہند سے جب کبھی بھی کوئی رابطہ کرکے یہ اطلاع دیتا ہے کہ راقم کی اپ لوڈ کی ہوئی فلاں کتاب اس کے ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مقالے کی تکیل کے سلسلے میں کارآمد ثابت ہوئی ہے تو یقین کیجیے کہ یہ خاکسار کے لیے ازحد باعث طمانیت و انبساط ہوتا ہے۔ 

سوال 10:  آخیر میں ان ادیبوں اور شاعروں کے نام بتا ئیے ؟ جو آپکو زیادہ پسند ہیں اورایسے کچھ اشعار سنائیے جو آپ کے دل کے قریب آگئے ۔ 
جواب: یہ سوال دلچسپ ہے۔ اوائل عمری ہی سے بچوں کے ناول لکھنے اور ترجمہ کرنے والے ادیب میرے دل کے قریب رہے تھے۔ یہ مجھے ایک ایسی دنیا میں لے جاتے تھے جو ایک طلسماتی دنیا تھی۔ یہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے تھے، ذہنوں کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ یہ وہ خاموش مجاہد تھے جن کے اوپر تاحال کوئی تحقیق نہ ہوئی، کوئی مقالہ نہ لکھا گیا، اور تو اور ان میں سے اکثر کا ذکر بعد از مرگ وفیات کی کتابوں میں بھی نہ آیا۔ وہ قلم کی مزدوری کرتے، کسی صلے کی تمنا کے حصول کے بنا، خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن مجھ ایسے لاکھوں پڑھنے والوں کے ذہن و قلب میں وہ آج بھی پوری آب و تاب سے زندہ ہیں۔ ان میں مقبول جہانگیر ہیں، سلیم احمد صدیقی، زبیدہ سلطانہ، جبار توقیر، محمد یونس حسرت ہیں۔ راز یوسفی، سعید لخت، سعید احمد سعید، ابو ضیاء اقبال ہیں۔ 
ان میں سید ذاکر اعجاز، شوکت ہاشمی، قمر نقوی، فرخندہ لودھی، عزیز اثری، ذوالفقار احمد تابش، سیف الدین حسام جیسے قلمکار شامل ہیں۔ یہ میرے ہیرو ہیں اور میں ان کو سلام پیش کرتا ہوں۔ 
اور پھر اے حمید مرحوم کو تو کسی طور نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا ہے۔ کچھ وقت گزرا اور چھٹی جماعت میں پہنچا تو وقت سے قبل ہی ابن صفی مرحوم کو جاپکڑا اور ان کی تحریر کے سحر میں ایسا مبتلا ہوا کہ آگے چل کر ان پر باقاعدہ تحقیق کرڈالی, اور ان پر دو عدد کتابیں لکھیں اور مرتب کیں۔مختصر الفاظ میں کہنا چاہوں گا کہ ابن صفی، اے حمید اور محمد خالد اختر سے میں نے محبت کی ہے۔ ان میں اے حمید مرحوم سے لاہور میں ان کی قیام گاہ پر ملاقات کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔ آج بھی ان تینوں ادیبوں کی کوئی بھی کتاب ہاتھ میں تھام کر دنیا و مافہیا، بلکہ کراچی کے حالات کے تناظر میں ‘‘مافیا’’ کہیں تو بہتر ہوگا، سے بے خبر ہوجاتا ہوں۔ 
ان مصنفین کی برسہا برس پرانی تحریر کردہ کتابوں کو دیکھ کر آج بھی میری وہی کیفیت ہوتی ہے جسے محمد خالد اختر نے ایک مرتبہ اپنی پسندیدہ کتابوں کو ایک زمانے بعد اپنے عزیز از جان دوست ،مشہورمزاح نگار شفیق الرحمن کے گھر میں ایک ڈبے میں رکھا دیکھ کر ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
’’
چھ سبز چھوٹی سی کتابیں۔کیسے خوبصورت، مسرت بخش essays وہ لکھتا تھا اور ملنے میں وہ کتنا شفیق، ہنس مکھ ، خوش گفتار رفیق ہوگا۔ اب میں نے اس کی کتابیں سالوں کے بعد دیکھیں۔ایک پھانس سی میرے حلق تک آئی اور میں نے انہیں بھیگی ہوئی آنکھوں سے، احترام سے اس گوشے سے اٹھایا۔اپنے ہاتھ سے بار بار تھپکا۔ایلفا، پیارے ایلفا۔تم نے ہمیں ہماری جوانی میں کیا کچھ نہیں دیا۔تمہارے جیسے essays ، زندگی کے حزن،اس کی شادمانی اور خوبصورتی سے دمکتے ہوئے، اب کون لکھ سکے گا’’۔

رہا سوال اشعار کی پسندیدگی کا، تو چند پسند کے اشعار یہ ہیں لیکن خدارا اس سے خاکسار کے ذہنی رجحان، رویوں وغیرہ کا اندازہ نہ لگایا جائے جیسے ماہرینِ تحریر شناسی، تحریر دیکھ کر اور دست شناس ہاتھ کی لکیریں دیکھنے کے بعد الل ٹپ اندازے لگاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اب تک کی زندگی میں اتنے قتل اور اتنے عشق کیے ہیں اور مزید اتنے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے :

افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ 

دل کو ہم سمجھا کے لائے کوئے جاناں سے حسن
دل ہمیں سمجھا بجھا کر، کوئے جاناں لے چلا

ہونا تو وہی ہے جو مقدر میں مرے ہے
لیکن وہ مرے خواب، مرے خواب، مرے خواب

کھلا اک عمر میں کار ہوس میں کچھ نہیں رکھا
پھر اس کے بعد میں نے دسترس میں کچھ نہیں رکھا

جمال یار میں رنگوں کا امتزاج تو دیکھ
سفید جھوٹ ہیں ظالم کے سرخ ہونٹوں پر

بے وارث لمحوں کے مقتل میں


محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں لیکن اس کے ساتھ ہی محسن کی نثر،  جو کہ ان کی کتابوں کے دیباچے کی شکل میں موجود ہے، اس میدان میں بھی محسن کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔
محسن نقوی کی کتاب"طلوعِ اشک" کا دیباچہ انتساب کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔

بے وارث لمحوں کے مقتل میں
            مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ مَیں نے پہلا شعر کب کہا تھا۔ (یہ بہت پہلے کی بات ہے)۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں پہلا "سچ" کب بولا تھا؟ (یہ بھی شاید بہت پرانا قصّہ ہے)۔ پہلا شعر اور پہلا سچ کون یاد رکھتا ہے؟۔ اور اتنی دُور پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ اُدھر کون سی روشنی ہے۔ گھُپ اندھیرے کی ریت پر ہانپتے ہوئے چند بے وارث لمحے۔ پچھتاوے کی زد میں جانے کب اور کہاں کھو گئے۔؟
            مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ کچھ بھی تو یاد نہیں
"ماضی" بھی تو کتنا بخیل ہے۔ کبھی کبھی تو حافظے کی غربت کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور پھر اندھے کنویں کی طرح کچھ بھی تو نہیں اگلتا۔ اپنے اندر جھانکنے والوں سے پوری بینائی وصول کرتا ہے۔ بِیتے دنوں کے اُس گھُپ اندھیرے میں بھی کیا کچھ تھا۔؟


میرا کچا مکان (جِس کی چھت کی کڑیوں سے میری سانسیں اَڑی ہوئی تھیں۔ اُس مکان میں جلتا ہوا مٹی کا "دیا"۔ جِس کی پھیکی روشنی نے مجھے لفظوں کے باطن میں اترنے کا حوصلہ بخشا۔ گُم صُم گلیوں میں کھیلتی ہوئی آوارہ دھوپ۔ جِس نے مجھے اداس راتوں کے پُرہَول سناٹے سے اُلجھنے کا سلیقہ سکھایا۔ مَیلی دیواروں سے پھسلتی ہوئی چاندنی۔ جو رائیگاں ہونے کی بجائے میرے خوابوں کی بے آواز بستی کا اثاثہ بن گئی۔ دھول میں لپٹی ہوئی بے خوف ہَوا جو میرے مسلسل سفر کی اکیلی گواہی بن کر مجھے دِلاسہ دیتی رہی۔ نا ہَموار آنگن میں ناچتی لُو سے جھلستے چہروں کی مشقّت، جس نے مجھے محرومیوں سے سمجھوتے کا انداز مستعار دیا۔ خشک ہونٹوں پر جمی ہوئی مسکراہٹ۔ جس نے مصائب و آلام کی بارش میں مجھے زندہ رہنے کا اعتماد عطا کیا۔ سہمی صبحیں، گونگی دوپہریں، بہری شامیں اور اندھی راتیں کِتنی کہانیوں کو بُنتے بُنتے راکھ ہو گئیں۔ اور ان کی کہانیوں کا کوئی ایک ریزہ بھی میرے پاس نہیں ہے۔ میرا سب کچھ میرے ماضی کے پاس گروی ہے۔
            اِس "سب کچھ" میں میرا ہنستا کھیلتا، پہیلیاں بوجھتا اور شرارتیں سوچتا بچپن بھی شامل ہے، جِسے اُس کے کھلونوں سمیت میرے ماضی نے میری دسترس سے دُور فنا کر اُس کے نقوش کھرچ ڈالے ہیں۔
            ماضی کو کون سمجھائے کہ بچپن تو ہوتا ہی یاد کرنے کے لئے ہے۔ مگر میرا بچپن؟ کِسی دیوار کی اوٹ جلتے دہکتے تندور سے باہر جھانکتے شعلوں سے اڑتی چنگاریوں کی طرح جیسے فضا میں بکھر کر کہیں بجھ گیا ہے۔ دُور بہت دُور فضا میں تحلیل ہوتے ہوئے دھویں کے اُس پار کتنی شفیق آنکھیں کتنے صبیح چہروں سے پھوٹتی ہوئی دعاؤں کی کُہر اور کِتنی نیک روحوں کے قُرب کی پاکیزہ خوشبو آج بھی میرے تپتے تپکتے دل کی لَو دیتی رگوں میں برفیلے لمس کی شبنم انڈیلتی محسوس ہوتی ہے۔
            اور اب کیا کیجیے۔ کہ اب تو آتے جاتے موسموں کا سَبھاؤ صرف سوچوں کے بہاؤ پر منحصر ہے۔ معصوم جذبوں کا بھولپن اب فقط شکستہ قلم کی شہ رگ سے ٹپکتے ہوئے لہو کے بے ترتیب قطروں میں کبھی کبھی اپنا دھندلا سا عکس دیکھ لیتا ہے۔ اور رائیگاں جاگتی آنکھیں صرف تنہائی کی لوریوں سے بہل کر سو جاتی ہیں یا کہیں کھو جاتی ہیں۔
            کُہرام مچاتی سانسوں کے اِس جاں گُداز اور آبلہ نواز سفر میں کیا کیا لوگ اپنا اپنا روگ دل میں لئے دھول اُڑاتے سنّاٹے کا رِزق ہوئے۔ کیسی کیسی رنگ رچاتی محفلیں اپنے توانا ہنگاموں سمیت پلک جھپکتے آنکھ سے اوجھل ہو گئیں۔ کیا کیا کُندن چہرے اب اپنی پہچان کا حوالہ مجھ سے طَلَب کرتے ہیں۔
            جیسے مَیں اِن دنوں بے وارث لمحوں کے مقتل سے گزر رہا ہوں۔ لمحوں کا مقتل جس میں شامِ غریباں آہستہ آہستہ اُتر رہی ہے۔
لمحوں کے اِس مقتل میں میری مسافت ختم ہوتی ہے نہ شامِ غریباں کا دھواں سرد پرتا ہے۔ میرے پاؤں میں آبلے بندھے ہوئے ہیں۔ جسم بارشِ سنگِ ملامت سے داغ داغ اور ہونٹ مسلسل مصروفِ گفتگو۔ مگر کِس سے؟ شاید رفتگاں کا راستہ بتاتی ہوئی دھول سے یا اپنے تعاقب میں آنے والے اُن رہروؤں کی آہٹوں سے؟ جو سفر کے اگلے موڑ پر مسلط سنّاٹے سے بے خبر ہیں۔ سنّاٹا۔ جو کبھی کبھی دل والوں کی بستی پر شبخوں مار کر ساری سوچیں، تمام جذبے اور کچّے خواب تک نگل لیتا ہے۔
            میرا قبیلہ میرے کَرب سے نا آشنا ہے۔ میرے ساتھ جِن ہجر والوں نے سفر آغاز کیا تھا وہ یا تو راستے کی گرد اوڑھ کر سو چکے ہیں، یا مجھ سے اوجھل اپنی اپنی خندقیں کھودنے میں مصروف ہیں۔ اور مَیں کل کی طرح آج بھی "اکیلا" ہوں۔
میرے اِرد گِرد خراشوں سے اَٹے ہوئے کچھ اجنبی چہروں کے کٹے پھٹے خدوخال ہیں۔ بھوک سے نڈھال بے نطق و لب ادھوری سوچوں کے پنجر۔ ریزہ ریزہ خوابوں کی چبھتی ہوئی کِرچیاں۔ محرومیوں کے بوجھ تلے رینگتی خواہشوں کی ٹیڑھی میڑھی قطاریں۔ دَم توڑتی محبّتوں کی بے ترتیب ہچکیاں۔ پا بُریدہ حسرتیں۔ سَر بہ زانو واہمے۔
            اور بدن دَریدہ اندیشے۔ ایسے اُجاڑ سَفر میں کون میرے دکھ بانٹنے کو میرے ساتھ چلے۔؟ یہاں تو ہَوا کے سہمے ہوئے جھونکے بھی دَبے پاؤں اترتے اور چُپ چاپ گزرتے ہیں۔ یہاں کون میرے مجروح جذبوں پر دلاسوں کے "پھاہے" رکھے؟ کِس میں اتنا حوصلہ ہے کہ میری روداد سُنے؟ کوئی نہیں۔ سوائے میری سخت جان تنہائی کے۔ جو میری خالی ہتھیلیوں پر قسمت کی لکیر کی طرح ثبت ہے۔ میرے رتجگوں کی غمگسار اور میری تھکن سے چُور آنکھوں میں نیند کی طرح بھر گئی ہے۔
            سنگلاخ تنہائی کے اِس بنجر پن میں دہکتے مہکتے جذبوں کے گلاب اُگانا اور اُنہیں بے ربط آنسوؤں سے شاداب رکھنا میرا مقصد بھی ہے اور میرا فن بھی۔ بس اِسی دُھن میں سکوت کے ہولناک صحرا میں لمحہ لمحہ سوچوں کی بستیاں بسا کر اُن میں لفظوں کے رنگ رنگ چراغ روشن کرتا ہوں۔ جانے کب سے جانے کب تک؟
            ہَوا مجھ سے برہم، سنّاٹا میرے تعاقب میں، حوادث مجھ سے دست و گریباں، صبحیں مجھ سے گریزاں اور شامیں، میری آنکھوں پر اندھیرا "باندھنے" کے لئے مضطرب۔ مگر مَیں (مسافت نصیب، سفر مزاج)۔ "گُزشتہ" کی راکھ پر "آئیندہ" کی دیوار اٹھا اُس کی منڈیر پر اپنی آنکھیں جلا رہا ہوں تاکہ میرے بعد آنے والوں کی تھکن لمحہ بھر کو سستا سکے۔
مَیں۔ تلخیاں بانٹتی اور تنہائیاں چھڑکتی ہوئی زندگی سے قطرہ قطرہ "سچ" کشید کرتا اور پھر اِس روشن "سچ" کی دمکتی ہوئی پیشانی سے پھوٹتی شعاعوں کے ریشم سے بُنے ہوئے خیالوں کی رِدا پر "شاعری" کاڑھتا ہوں۔
            شعر کہنا میرے لئے نہ تو فارغ وقت کا مشغلہ ہےاور نہ ہی "خود نمائی" کے شوق کی تکمیل کا ذریعہ۔ بلکہ اپنے جذبات و محسوسات کے اظہار کے لئے مجھے "شاعری" سے بہتر اور موثر پیرایہ ملتا ہی نہیں۔ میرے لا شعور کی تہہ میں بکھرے ہوئے تجربے اور مشاہدے حرف حرف اور نقطہ نقطہ شعور کی پلکوں سے حواس کے آئینہ خانے میں اترتے اور "شعر" کی صورت میں بکھرتےچلے جاتے ہیں۔ اور پھر کبھی میرا قلم اور کبھی موجِ صدا کا "زیر و بَم" انہیں امانت کے طور پر بصارتوں، بسیرتوں اور سماعتوں تک پہنچاتا ہے۔ کیا جانے کب سے میری فگار انگلیاں کائنات کے خد و خال کو ذات کے شیشے میں سمیٹنے کا قرض ادا کر رہی ہیں۔ اور میرا "خونچکاں خامہ" اپنے عہد کے انسان کا کرب کرید کر اُس میں پوشیدہ خواہشوں اور حسرتوں کو کاغذی پیرہن پر سجانے میں مصروف ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ فن کے صحرا میں اَب تک مَیں نے کتنا سفر طے کیا ہے؟ مَیں پیچھے مُڑ کر دیکھنے کا عادی نہیں ہوں۔ (جیسے پلٹ کر دیکھنے سے مَیں "پتھر" ہو جاؤں گا)۔
            مَیں قدم قدم نئی جہت کی تلاش میں سر گرداں ہوں، (ورنہ کی بجائے) کہ ایک ہی سمت میں ایک ہی انداز سے چلتے رہنے کی یکسانیت اور ایک جیسی رفتار نہ صرف سفر کی کشش کو چاٹ لیتی ہے بلکہ حصولِ منزل کا اعتماد بھی چکنا چُور ہو کر رہ جاتا ہے۔
            میرے سفر کی ڈور کا دوسرا سِرا میری سانس سے بندھا ہوا ہے۔ میں لمحہ بھر کو رُک گیا تو یہ ڈور ٹوٹ جائے گی۔
کِسی بھی حسّاس اور سنجیدہ فنکار کے لئے مشکل ترین مرحلہ اُس کے اپنے عہد کے تقاضوں کا اِدراک اور ا ن تقاضوں کے مطابق موضوع کا انتخاب ہوا کرتا ہے۔ جو فنکار اپنے عہد سے بے خبر رہ کر تخلیق کی مشقت کرتا ہے، وہ خود کلامی کی بھول بھلّیوں میں بھٹک کر یا تو رجعت پسندی کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے یا تشکیک کی زد میں ابہام کا شکار ہو کر فکری انتشار کے برزخ کی "بے سمتی" میں اپنا آپ گنوا بیٹھتا ہے۔ میرے نزدیک یہ باتیں کرنا اِس لئے بھی ضروری ہیں کہ
            ۔۔۔ عصری جبر، سماجی گھٹن، سیاسی حبس اور طبقاتی تضاد کی دَلدَل میں دھنسے ہوئے جس معاشرے میں مجھے جذبوں کے اظہار کا اِذن مِلا ہے، وہ بذاتِ خود تشکیک و ابہام اور سکوت و تحیّر کی سیاہ چادر اوڑھ کر سانس روکے ہوئے زندگی کی ساعتیں گِن رہا ہے۔ عدل و انصاف کے مقابلے میں ظلم اپنے پَر پھیلائے دَم توڑتے انسان کی ہچکیاں نِگل رہا ہے۔ رستے مقتل بن گئے ہیں، چوراہوں سے بارود اُگ رہا ہے، بازاروں میں درندگی برہنہ رقص رَچا رہی ہے، "سچ" سرِ عام مصلوب اور جھوٹ بَرملا مسند آراء ہے۔ جرم رواج بن گیا ہے۔ غارت گری روایت میں شامل ہو رہی ہے، دہشت گردی سے شہر سہمے ہوئے، وحشت صحراؤں پر مسلط، لہو کے رشتے کچّے دھاگوں کی طرح ٹوٹ رہے ہیں۔
            یوں لگتا ہے جیسے ظلم و ستم کی سیاہ رات نے سورج کو چَبا ڈالا ہے۔ دکھ، درد اور کرب کی اِس مسلسل رات، بے یقینی اور مایوسی کی دھول سے اَٹی ہوئی رات میں میری شاعری "طلوعِ اشک" سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
"طلوعِ اشک" کی شاعری اپنے عہد میں بڑھتی ہوئی نفرتوں کے خلاف انسانی سانسوں کے ریشم سے بُنے ہوئے اُن نازک جذبوں اور دائمی رشتوں کا ایک دھیما سا احتجاج ہے، جن کی پہچان کا واحد حوالہ محبت ہے۔
                        "محبت" جو کدورتوں کی آگ میں جلتے جھلستے جنگلوں کے اُس پار زیتون کی وہ شاخ ہے، جِس کی خوشبو کا دوسرا نام "امن" ہے۔
            "طلوعِ اشک" میں نہ تو آپ کو عملی جدوجہد سے محروم کوئی "دعویٰ" نظر آئے گا۔ اور نہ ہی بے مقصد "ہنگامہ آرائی"۔
            کیونکہ اپنے چاروں طرف بکھرے ہوئے ظلم، پھیلی ہوئی نفرت اور افراتفری کے با وجود مَیں ابھی تک انسانی رشتوں کی اہمیت، روح کی گہرائی میں پھیلتے پھولتے جذبوں کی توانائی، دائمی اَمن کی عالمگیر کشش، "سچ" کی فتح مندی اور اِدراک و آگہی پر "محبت" کے تسلط سے نہ تو مایوس ہوا ہوں اور نہ ہی منحرف۔
            مجھے یقین ہے کہ جب تک کائنات میں انسان کا وجود باقی ہے۔ محبت اپنے توانا جذبوں کی صداقت سمیت باقی رہے گی۔ میں نے محبت کو اپنے احساس، ادراک اور آگہی کی اساس بنایا ہے۔ اِسے دھوپ دھوپ سمیٹا ہے اور پھر اپنے "اشعار" میں رنگ رنگ بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی سب کچھ میرا فن بھی ہے اور متاعِ فن بھی۔
جہاں تک اپنے فن کے قد و قامت کی "بے محل" نمود و نمائش کا تعلق ہے، مَیں ہمیشہ اِس سے اجتناب کرتا ہوں، نہ ہی "خود ستائی" کی بوسیدہ قَبا اوڑھ کر "دوسروں" کو اپنی طرف متوجہ کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔
            آخر "سَستی شہرت" کے لئے اپنی قیمتی "اَنا" کو چھلنی کرنے کی ضرورت کیا اور شوق کیوں؟ کہ دنیا میں جو ہے، اُسے اپنے "اثبات" کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں اور جو "نہیں" ہے، اُس کے "ہونے" پر اصرار بے معنی۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔
            مجھے اپنے تخلیقی سفر کے آغاز سے اب تک کیسے کیسے صبر آزما مراحل سے گذرنا پڑا؟ کِس جان لیوا کرب کی شدّت میں سانس لینا پڑا؟ کیسی کیسی چوٹ کھا کر مسکرانا پڑا؟ یہ کہانی دہرانے کا وقت ہے نہ فرصت۔ (پھر سہی)
            ابھی آپ جلدی میں ہیں۔ اور مجھے بھی اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ میری آنکھیں اندھیروں کا تسلط قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ میں اندھی رات کے جَبر کے خلاف کِسی ایک کِرن، کِسی ایک چنگاری، کِسی ایک آنسو کی طلب میں لمحوں کا مقتل جھیل رہا ہوں۔ اور اپنے گِرد بکھری ہوئی دست و پا بُریدہ خواہشوں کی پُرسش میں مصروف بھی۔ اندھی رات کے مسلسل جَبر کے خلاف کوئی جگنو، کرن، چنگاری یا کوئی ایک آنسو مجھے کچھ دیر اور جینے کا حوصلہ دے سکتا ہے۔ مَیں کچھ اور جاگ سکتا ہوں کہ مسلسل جاگتے رہنے کا اعزاز یہ کِسی زندہ، روشن اور دہکتے ہوئے سورج کی صورت نہ سہی، ہلکی روشنی کی علامت کے طور پر ہی میری آنکھوں کو صدیوں تک کے لئے اُجلے خوابوں کی دھنک میں مَست اور مگن رکھ سکتا ہے۔ اگر آپ اندھی رات کے جَبر کے خلاف میرے ساتھ محبت اور امن کی روشنی بُن سکتے ہیں تو اپنی آنکھیں میرے لفظوں میں انڈیل دیں کہ یہی میرے لئے روشنی کا استعارہ بن جائیں۔ ورنہ میری تنہائی میرے بغیر اداس ہو گی۔
مُحسنؔ نقوی
                                                                                                            جمعرات 28 مئی 1992ء لاہور
کتاب: طلوعِ اشک

"طلوعِ اشک" کا انتساب!

تُو غزل اوڑھ کے نکلے کہ دھنک اوٹ چھُپے؟
لوگ جس روپ میں دیکھیں، تجھے پہچانتے ہیں

یار تو یار ہیں، اغیار بھی اب محفل میں
مَیں ترا ذکر نہ چھیڑوں تو بُرا مانتے ہیں

کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو؟
شہر والے مرا "موضوعِ سخن" جانتے ہیں

بہتی چاندنی کا بولتا سُکوت


محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں لیکن اس کے ساتھ ہی محسن کی نثر،  جو کہ ان کی کتابوں کے دیباچے کی شکل میں موجود ہے، اس میدان میں بھی محسن کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔
محسن نقوی کی کتاب"رختِ شب" کا دیباچہ انتساب کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔

بہتی چاندنی کا بولتا سُکوت
            میں خواب دیکھتا ہوں، تعبیروں کی جستجو میں جَلتے بَلتے اور چَکنا چُور ہوتے خواب! یہ ٹوٹتے پھوٹتے خواب میری خواہشوں کی اساس بھی ہیں اور میری آنکھوں کا اثاثہ بھی۔ اپنا اثاثہ کِسے عزیز نہیں ہوتا؟ مجھے بھی اپنے خواب بہت عزیز ہیں۔ زندگی کی طرح۔ زندگی کے چہرے پر دہکتے مہکتے رنگوں اور ان رنگوں میں رقص رچاتی خوشبو کی طرح۔



            مجھے یقین ہے جس دن خواب ختم ہو جائیں گے، انسان سونا چھوڑ دے گا۔ کہ رائیگاں اور خالی نیند کا دوسرا نام تو موت ہے۔ زندگی تو خواہشوں، خراشوں، خیالوں اور خوابوں سے عبارت ہے۔
            مجھے سرما کی چاندنی سے اسی لئے اُنس ہے کہ اِس میں دُھل کر خواب کچھ اور اجلے ہو جاتے ہیں۔ اور گرم رُتوں کی دھوپ سے یہ شکایت ہے کہ وہ میری دُکھتی آنکھوں پر سے خوابوں کی پَٹّی کو پگھلا کر رکھ دیتی ہے، اور پھر میری آنکھیں جاگتے دنوں کے الاؤ میں جھلسنے لگتی ہیں، جاگتے دن جو حقیقتوں کے چہرے سے استعاروں کی نقابیں نوچ کر اُن کے خد و خال کا کھُردرا پن اَفشا کر دیتے ہیں۔  خواب بہت میٹھے اور نرم ہوتے ہیں۔بہت ملائم، جبکہ حقیقتیں بہت تلخ ہوتی ہیں، بہت تُند، بہت تیز اور کبھی کبھی بہت عُریاں۔ !حقیقتوں کی تہ میں بکھری ہوئی کڑوی سچائیوں کے ذائقے سے مانوس ہونا میرا منصب سہی۔ مگر ان کی پَرتیں اتارنے کے لئے جتنی زندگیاں صَرف ہوتی ہیں وہ اپنے پاس کہاں؟ میری زندگی تو لمحہ لمحہ سمٹی جا رہی ہے۔ مجھے تو اپنی سانس کی ڈور کا دوسرا سِرا بھی صاف دکھائی دے رہا ہے، مَیں تو حیات تَیر چُکا۔ سامنے دوسرا کنارہ ہے۔ اور دوسرے کنارے سے اُدھر اسرار کا وہ بے کراں محیط ہے۔ جس کی وسعتیں سوچوں کے کئی پاتال پی کر بھی پیاسی ہیں جس کے سینے میں لا تعداد آفاق ہانپ رہے ہیں۔
            میرے حواس محدود ہیں۔اور میں "لا محدود" کی زَد میں ہوں! مجھ پر اسرار کا بے کراں کیا کھُل سکے گا۔؟ کہ میری بینائی تو جہاں تھک کر دم توڑ دیتی ہے، میں اُس سے آگے کی گرد کو آسمان سمجھ کر لَوٹ آتا ہوں! میری سماعت میں جہاں سنّاٹا گونجنے لگتا ہے، مَیں فنا کی چاپ وہیں سے تراشنے لگتا ہوں اور میری آواز جہاں گم ہونے لگتی ہے، مَیں اُس سے آگے "بے سمت خلا" کا پھیلاؤ سوچنے لگتا ہوں، میری عقل سے ماوراء سب کچھ میرے لئے "الجھاؤ" سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ پھر مَیں خواب ہی کیوں نہ دیکھوں؟ جن میں بکھری ہوئی تمام "کائناتیں" میری بینائی کی دسترس میں ہوتی ہیں اور جن کے دامن میں محدود سے لا محدود تک کے تمام فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ مَیں خوابوں سے تعلّق توڑ کر اپنی آنکھوں کو لا محدود کی تیز اور پُر اسرار روشنیوں میں دفن کرنا چاہتا ہوں۔ میرے خواب میری خود کلامی سے بہلتے ہیں اور میری خود کلامی ادھوری خواہشوں کی خود ساختہ تکمیل کا عمل ہے! میں بھولنے والے خوابوں کو بے وفا دوستوں کی یادوں کی طرح لا شعور کے تہ خانے میں "حنوط" کر دیتا ہوں مگر یاد رہ جانے والے خواب بہت "ضدّی" ہوتے ہیں۔ یہ آنکھوں میں چبھتے رہتے ہیں۔ کانچ کی کرچیوں کی طرح۔
            کبھی کبھی تو ان کی "چُبھن" آنکھوں میں گلاب کھِلا دیتی ہے، پھر دل میں اپنی "دُکھن" اُنڈیل کر روح تک میں اپنا اضطراب گھول دیتی ہے!
            یہ "خواب" جب تک آنکھوں میں رہیں محض خواب ہوتے ہیں، مگر جب روح میں اتری ہوئی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو جائیں تو پھر خواب نہیں رہتے، ریزہ ریزہ سچائیوں میں بٹ جاتے ہیں اور کبھی حرف حرف صداقتوں کے صورت گر بن کر سماعتوں اور بصارتوں کے آئینہ خانے میں کرن کرن کھِل اٹھتے ہیں۔ آنکھوں سے روح تک اترنے کا لمحہ۔ خواب و خیال کی تجسیم اور فکری نقش و نگار کی تخلیق کا "لمحہ" ہے، یہی لمحہ میری مسافتِ اِدراک کے لئے "متاعِ یقین" اور میری مشقّتِ آگہی کے لئے "رختِ شب" ہے۔
            "رختِ شب" میرے خیالوں کا اقرار نامہ اور میرے خوابوں کا نگار خانہ ہے، اِس کے لفظوں میں میرے چبھتے ہوئے آنسوؤں کی کسک بھی ہے، میرے جاگتے ہوئے زخموں سے پھوٹتی ہوئی شعاعیں بھی ہیں اور میری آنکھوں میں کھِلتے گلابوں کی باس۔ میں رائیگاں نیند نہیں سوتا۔ نہ بے صرفہ دھوپ جاگتا ہوں۔ میں اپنے سچ کو خواب پہناتا اور اپنے خوابوں پر سچ اوڑھتا سانسوں کی چبھتی کرچیوں کے بے نہایت سفر میں مصروف رہتا ہوں، اور اِس سفر میں بگولوں کے ساتھ رقص کرتے غبارِ خاک سے آنکھیں ڈھانپ ڈھانپ کر سورج کے سائے سائے شام کی شفق میں ڈوب جاتا ہوں۔!!
            جہاں تک میری شخصیت اور شاعری کا تعلق ہے، مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ مَیں اپنے بارے میں بہت کم جانتا ہوں، اِس سلسلے میں تو میرے احباب بھی مجھ سے کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ کہ میرے شب و روز کی تمام مسافتیں اور کٹھنائیاں، میری شہرتیں اور رسوائیاں، میرے ہنگامے اور تنہائیاں ورَق ورَق اور حرف حرف اُن کے سامنے کھُلتی اور کھِلتی رہیں۔ اِسے میرا عیب سمجھیں یا خوبی کہ مَیں جسے ایک بار "اپنا" سمجھ لوں، اُسے زندگی بھر کے لئے اپنی ذات کا حصّہ سمجھ لیتا ہوں، پھر اُسے لمحہ بھر کے لئے بھی خود سے الگ سمجھنا میرے نزدیک بہت مشکل اور تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے، یہ الگ بات ہے، اپنی مصروفیات کی بنا پر کچھ عرصہ کے لئے میں "اپنوں" سے بچھڑ جاؤں مگر روحانی اور ذہنی قُرب کی شدّت میں کبھی بھی کمی نہیں آ سکتی، میں اپنے دوستوں سے  بھی ملتا ہوں ٹوٹ کر ملتا ہوں اور جتنی دیر اُن کے ساتھ رہتا ہوں، ہمیشگی کی لذّت دل میں بسا کر ساتھ رہتا ہوں، میں تو اپنوں کے زخم بھی "سنبھال" کر رکھتا ہوں کہ یہ زخم بھی مجھے میرے اپنے مہربانوں کی طرح عزیز ہیں اور اُنہی کی طرح پیارے بھی لگتے ہیں، میں دوستی کی رسم عام کرنا چاہتا ہوں، دُشمنی کا لفظ میرے لئے بے حیثیت سا لفظ ہے۔ محبتیں بانٹتا ہوں اور نفرتوں سے نفرت کرتا ہوں۔ زندگی بہت مصروف اور تیز رَو ہے، بیسویں صدی اپنی بوسیدہ روایات سمیت آخری ہچکیاں لے رہی ہے اور اکیسویں صدی لمحہ لمحہ ماہ و سال کے سینے پر دستک دے رہی ہے، زمین اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے، نیا انسان۔ پُرانے آدمی کو پہچاننے سے انکاری ہے، رِشتے رَویّوں کے محتاج ہو رہے ہیں، گروہی تعصّبات، نسلی امتیاز، طبقاتی تضاد اور فرقہ پرستی نئی نسل کے لئے نا قابلِ برداشت جبر کی میراث ہیں، دنیا بھر کے مظلوم اپنے سینے میں ظلم کے خلاف بغاوتوں کو پال پوس کر جوان کر چکے ہیں، تاریخ کے افق پر نئی صدی نئے انقلابی عزائم کے ساتھ طلوع ہونے کے لئے مصروفِ آرائش ہے، میں اور میرے جیسے کروڑوں انسان اُس صدی کے منتظر ہیں جس کے عہد نامے میں انسانی امن اور معاشرتی حُسن کی ضمانت "حرفِ آغاز" کے طور پر رقم ہے۔ جس کا منشور ظلم، جبر، قتل و غارت، بھوک اور افلاس کے خلاف مشترکہ انسانی جہاد کی چکا چوند سے منور اور باہمی محبت و اخلاص سے مُستنیر ہے۔ میرے خواب تعبیر کے انتظار میں سانس لے رہے ہیں۔ میری شاعری بھی ایسے ہی اجلے خوابوں کا جزیرہ ہے۔ جس کے چاروں طرف وہم و تشکیک کا موجیں مارتا ہوا سمندر گونج رہا ہے، مگر میں اپنے اجلے خوابوں کے جزیرے میں خواہشوں کا خیمہ نصب کئے خود کلامی میں مصروف ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ میری آواز کہاں تک اپنے دائرے بُن رہی ہے؟ میرے لفظوں کے سینے میں پوشیدہ دعائیں بابِ قبول "وَا" ہونے کی منتظر ہیں۔ میرے دل میں لمحۂ یقین کی شعاعیں مسلسل تسکین و تسلّی کا جہان آباد کرنے میں مصروف ہیں۔ مَیں اپنے "ہونے" کا سراغ ڈھونڈ رہا ہوں۔ مَیں اور میری شاعری مسلسل اندھیروں سے نبرد آزما ہیں، اندھیروں سے نبرد آزما ہونا بھی ہر کسی کے مقدر میں کہاں؟ اور پھر رات بھر کا اندھیرا تو آنکھیں بند کر کے بسر کیا جا سکتا ہے، یہاں تو دوپہروں کے ماتمی لباس نے پہن لیا ہے اور صبحیں مُنہ چھپا چھپا کر طلوع ہو رہی ہیں۔ ایسے تاریک لمحوں سے چاندنی نچوڑنا کتنا جاں گداز عمل ہے؟ اِس کا اندازہ صرف اُنہی آنکھوں کو ہو گا جو کھُلے منظروں میں کھِلی دھوپ سے کھیلتے کھیلتے اچانک بجھ گئی ہوں، اور پھر پلکیں جھپکتے جھپکتے شل ہو چکی ہوں مگر دھوپ کی ایک آدھ کرن کا سراغ بھی نہ مل سکا ہو۔
            مَیں بھی "ہونے اور نہ ہونے" کے اِسی "برزخ" سے گزر رہا ہوں، مُنہ زور جذبوں کی زد میں ضبط کے چراغ کی لَو سنبھالنا اور وہم و تشکیک کے موسم میں "یقین" کے خد و خال اُجالنا۔ لمحوں کی نوکیلی کرچیوں میں صدیوں کا کرب ڈھالنا اور صدیوں کی لَب بستہ سیپیوں سے سانس لیتے لمحوں کے موتی نکالنا۔ شاید میری عمر بھر کی مشقت ہے۔ جس کے بغیر "اعتمادِ ذات" کا اعزاز حاصل نہیں ہوتا۔
            میں ایک ایسے "مدفُون شہر" کا باسی ہوں جس کی خاک سے کبھی "ذہن" اُگتے تھے، جس کی گلیوں میں کبھی ہَوا، زندگی کی روشنیاں اور رعنائیاں بانٹتی تھی۔ شب و روز شعر و نغمہ کی پائلیں بجاتے اور مَدھر کافیوں کی جھانجھریں جھنجھناتے تھے، جس کے لوگ کبھی ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا عبادت سمجھتے تھے، جس کے پانی میں محبت کی چاندنی کا اَمرت گھُلتا اور جس کی راتوں میں صبحوں کا سیماب کھُلتا تھا۔ مگر یہ باتیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اب وہاں کے بسنے والوں کے خد و خال سے "اجنبیّت" جھانکتی اور گلیوں میں "رُلتی" ہَوا خاک پھانکتی ہے۔! میرا شہر اَب "شہرِ نا پُرساں" ہے کہ وہاں کی تمام رسمیں بدل چکی ہیں، میرے سارے لوگ اَب اپنی اپنی صلیبوں کی کِیلیں شمار کرنے میں مگن ہیں، اُنہیں کچھ نہیں معلوم کہ باہر کیا ہو رہا ہے؟ اُن سے الگ رہ کر کِس کِس نے اُن کی تاریخ کے لئے دَر بدَری شِعار کی، اُنہیں کیا کہ وہ تو ابھی رنگ و نسل کے قَفس سے ادھر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں رکھتے، میرے شہر کے سیدھے سادے لوگ! جو کبھی ایک دوسرے کے دکھ میں اپنی آنکھیں نَم رکھتے تھے، اب اپنے ہی شہر میں خالی آنکھیں لئے زندگی کرتے اور اپنی اپنی ذات کا دَم بھرتے ہیں  خیر۔ یوں ہی سہی، مجھے پھر بھی اس شہر کی خاک سے محبت ہے، کہ یہ شہر میری پہچان کا حوالہ تو ہے نا۔ اِس نے مجھے زندہ رہنے کا ہُنر سکھایا۔ یہی احسان غنیمت ہے۔ اب اگر میرے "اعزازِ جراحَت" پہ گُم صُم ہے تو کیا ہوا۔ کہ اِسی شہر کے سنّاٹے نے ہی مجھے اپنا ماتم کرنے کا سلیقہ بخشا۔
            اِس شہر کی "اجنبیّت" نے مجھے صحراؤں میں تنہا سفر کرنے کا حوصلہ عطا کیا۔ مَیں اپنے شہرِ نا پُرساں کے ہر دوست کی "بے نیاز" محبت کا مقروض ہوں، میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی ہم مزاج ہَوا کے ہاتھ اپنے شہر کے سارے پیارے لوگوں کے نام پیغام بھجواؤں کہ مَیں جہاں بھی ہوں "تمہارا ہوں" اور تمہارے لئے ہوں،۔ میرے شہر کے خاک اُڑاتے راستوں کو "میری آوارگی" کا سَلام پہنچے اور میرے احباب کی محفلوں کو میری تنہائی کی دعائیں راس آئیں۔۔۔
            اور اے خاک بَسر ہَوا! میرے شہر کے باسیوں سے کہنا۔ کہ مجھے اب تک صحرا میں بہتی چاندنی کا بولتا سکوت اچھا لگتا ہے!
            شفّاف نیلے آسمان کی وسعت میں آزاد پرندوں کی اُڑان اَب بھی مجھے اپنی طرف "بے ساختہ" دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اُجلے چہروں کے دہکتے رنگ اور سوتی جاگتی بوجھل آنکھوں میں تیرتے ہوئے سوالوں کے سُرخ ڈورے اب بھی میری بینائی میں انجانے کرب کی پرچھائیاں گھول دیتے ہیں۔
            مَیں اَب بھی کڑکتی دھوپ میں پگھلتی سڑک کے سنگلاخ کِناروں پر نوکِیلے پتھر کُوٹنے والے زخمی ہاتھوں کے لئے اُس عہد کا منتظر ہوں جب ان کے زخموں کو مُندمِل کر کے اُنہیں شیشے کے دستانے پہنائے جائیں گے اور اُن کی ہتھیلیوں پہ بکھری ہوئی شکستہ لکیروں میں خوش قسمتی کا سیماب رواں ہو گا، مجھے برف اوڑھے ہوئے پہاڑوں کی ہری بھری چھاتیوں سے پھوٹتے آبشار اب تک اندیشوں کے دشتِ خوف میں پَسپا نہیں ہونے دیتے۔
            مَیں آباد بستیوں کے ہنستے بستے گھروں میں جلتے ہوئے چولھوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں پر جان دیتا ہوں اور مجھے اَب بھی "بارود" کے دھوئیں سے شدید نفرت ہے کہ "بارود" اِنسانی بقا کے لئے مہلک ہے! مجھے ہریالیوں کی اوٹ میں تِتلیاں تلاش کرتے بچوں کی معصوم مسکراہٹ دنیا بھر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی لگتی ہے۔
            میرا بس چلے تو اپنی غربت کے تاریک غاروں میں سانس لینے والوں کو اپنا حکمران تسلیم کروں کہ اُن کی غربت کو احساسِ کمتری میں مُبتلا کر کے بہت سے لوگ اُن سے اُن کی خواہشوں کا خراج لیتے ہیں۔
            اور ہاں اے ہر سَمت بھٹکتی ہوئی ہَوا، گر بن پرے تو میرےلوگوں سے کہنا کہ میں نے ابھی تک اپنی "انا" کو کِسی قسم کی مَصلحت کے "سرد خانے" میں ٹھِٹھرنے نہیں دیا۔ نہ رائیگاں شہرت کے حصول کے لئے اپنے فِکر کا "کشکول" اٹھایا ہے۔
            میں آج بھی سرخرو ہوں کہ میرے فن نے اپنا قد بڑھانے کے لئے نہ تو کِسی "اُدھار" کی شاخ سے جھُولنے کی اجازت طَلب کی ہے اور نہ ہی اپنے خدّ و خال نکھارنے کے لئے کوئی مانگے کا آئینہ کِسی آنکھ میں چسپاں کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری شاعری کو پڑھنے والے مجھے محبت سے پڑھتے ہیں اور اس سے زیادہ باعثِ مسرّت بات یہ ہے کہ میرا قاری میری شاعری کے بارے میں کِسی "نقّاد" کی رائے کا محتاج نہیں۔ میں اپنے تجربے کی وُسعت پر اعتماد کرتا ہوں، میرا مشاہدہ اپنے اظہار کے لئے خود سے دائرے بُنتا ہے اور میرے جذبے کی حِدّت اور شِدّت خود سے لفطوں کے انبار میں سے اپنی قبا پر کاڑھنے کے لئے لفظ چُنتی ہے۔
            مَیں دائمی اَمن کی بقا کے لئے سوچتا ہوں، اِنسانی محبتوں کے ذائقے میری رگوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ ظُلم سے شدید نفرت مجھے میرے شجرے سے ورثے میں مِلی ہے، میں دنیا بھر میں انسان کی عزّت و توقیر پر ایمان رکھتا ہوں، صحرا کی وسعت، آسمان کی بلندی اور نِیل کی گہرائی یں نے اپنی روح میں بسا لی ہیں، اور حُریّتِ فکر میرا منشور ہے۔
            "رَختِ شب" میرے مُسلسل فِکری سَفر کی تازہ رُوداد ہے، اِس رُوداد میں اپنی خواہشوں کے اُدھورے دائرے، میری خراشوں کی نا مکمّل لکیریں اور جاگتی راتوں کی کروٹیں آپ کی آنکھوں کے نام کر رہا ہوں، یہ رختِ شب میرے اجلے خوابوں کی متاع ہے۔ میرے جلتے سُلگتے خیالوں کا سرمایہ ہے، مَیں نے جذبوں کی آنچ میں پگھل پگھل کر اور اندھیروں کے سینے میں اُتر اُتر کر اشعار کے یہ جُگنو سنبھالے ہیں۔ آئیے یہ جُگنو میں آپ کی پلکوں پر ٹانک دوں، آپ حقیقتوں کی جھیل میں یہ جُگنو بھگو کر اپنی رُوح کے پاتال میں اُتار سکیں تو میری تنہائی میں بکھری ہوئی دھوپ لمحہ لمحہ تقسیم ہو جائے گی۔ ورنہ آپ کو نیندیں مبارک اور مجھے "خواب" سلامت کہ
            "میں خواب بہت دیکھتا ہوں"
مُحسنؔ نقوی
3 اگست 1994ء لاہور
کتاب: رختِ شب


"رختِ شب" کا انتساب!

یہ ٹوٹتی ہوئی سانسیں، یہ حرف حرف خیال
مَیں سوچتا ہوں کہ اِس بار کِس کے نام کروں؟

تراشتے ہیں سبھی زخم اپنے اپنے سُخن
کِسے سکوت پہ کاڑھوں، کِسے کلام کروں؟

ہزار شکل ابھرتی ہے تیری یاد کے ساتھ
کِسے متاعِ سفر، کِس کو حُسنِ شام کروں؟

بغاوتوں پہ اُتر آئیں خواہشیں میری
کِسے رِہائی دو، کِس کو اسیرِ دام کروں؟

تجھے تو خَیر سنورنے کو آئینے ہیں بہت
مگر مَیں اپنی غزل کِس طرح تمام کروں؟

شئیر کیجیے

Ads 468x60px