دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں

دیوانہ ہوں پتھر سے وفا مانگ رہا ہوں
دنیا کے خداؤں سے ، خدا مانگ رہا ہوں

اُس شخص سے چاہت کا صلا مانگ رہا ہوں
حیرت ہے کہ میں آج یہ کیا مانگ رہا ہوں

الفاظ بھی سادہ ہیں مری بات بھی سادہ
ٹوٹے ہوئے تاروں سے ضیا مانگ رہا ہوں

پہنے ہوئے نکلا ہوں جو بکھرے ہوئے پتے
ہر شخص سے میں سنگِ صبا مانگ رہا ہوں

گر مانگا نہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں مانگا
اب مانگ رہا ہوں، تو خدا مانگ رہا ہوں

بے نام اندھیروں کی سیاہی ہے مرے پاس
پھر بھی شبِ ظلمت کا پتا مانگ رہا ہوں

(محمد بلال اعظم)

حکیم محمد سعید

 

حکیم محمد سعید۔ تصویر بشکریہ ہمدرد فاونڈیشن

یہ سترہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کی ایک صبح کا ماجرہ ہے، جب سپیدہ سحر پوری طرح نمودار بھی نہیں ہوا تھا۔ حکیم محمد سعید اپنی سفید گاڑی میں اپنے آرام باغ میں واقع اپنے مطب پہنچے۔ گاڑی سے اترے اوراپنی ٹوپی اپنے ایک معاون کے ہاتھ میں دی اور مطب کی طرف بڑھنے لگے ۔
اسی دوران نیم اندھیرے میں آتشیں ہتھیاروں نے شعلے اُگلے اور کئی گولیاں حکیم سعید کے جسم میں پیوست ہوگئیں۔ پھر دنیا نے یہ دلخراش منظر بھی دیکھاکہ لاکھوں لوگوں کا علاج کرنے والے مسیحا کی لاش ایک گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی۔
پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید نے نو جنوری انیس سو بیس کو دہلی میں آنکھ کھولی۔ دو برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بچپن شرارتوں میں بیتا پھر اظہارِ ذہانت شروع ہوا۔
لکنت سے زبان لڑکھڑاتی تھی تو اپنی قوتِ ارادی اور مسلسل مشق سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پایا۔ زمانے کا شعور ہوا تھا تو سر میں کئی پہاڑ سر کرنے کا سودا سمایا۔ طب و حکمت میں قدم رکھتے ہوئے اپنے بھائی کیساتھ ملکر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے ہمدرد کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
پھر یوں ہوا کہ ہمدرد کا نام تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا۔ سعید پہلے صحافی بننا چاہتے تھے لیکن خاندانی کام کو آگے بڑھانے کے لئے اس سے وابستہ ہوئے۔
پاکستان بننے تک ہمدرد ایشیا میں طبی ادویہ کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا تھا۔
تقسیم کے بعد جب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوئی تو سعید نے تمام کاروبار، عیش وآرام اور دولت چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیااور نو جنوری انیس سو اڑتالیس کو کراچی آگئے۔
شہزادہ سدارتھ کی طرح وہ سب کچھ خیرباد کہہ کر جب کراچی آئے تو دہلی میں پیکارڈ کار پر سفر کرنے والے محمد سعید نے اپنے ساتھ لائی ہوئی روح افزا اور گرائپ واٹر کی شیشیاں بیچنے کے لئے شہر کا چپہ چپہ چھان مارا، یہاں تک کہ ان کے جوتوں میں سوراخ ہوگئے۔
پچاس روپے مہینہ پر ایک دکان اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کراپنے کام کا آغاز کیا۔ پھر ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی جس نے ہمدرد فاونڈیشن کی راہ ہموار کی اور حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمتِ کے لیے باقاعدہ وقف کردیا۔ طبِ یونانی کا فروغ اور اسے درست مقام دلوانا حکیم محمد سعید کی زندگی کا اہم مشن رہا۔
گورنر سندھ بننے کے بعد بھی پاکستان بھر میں اپنے مریضوں کو باقاعدہ دیکھتے اور ان کا مفت علاج کرتے رہے۔ اسی طرح ضیاالحق کے دور میں وہ وزیر بننے کے بعد بھی کراچی ، لاہور، سکھر اور پشاور میں مطب کرتے رہے۔ سرکاری گاڑی نہیں لی اور نہ ہی رہائش یہاں تک کہ وہ غیر ملکی زرِ مبادلہ جو انہیں سرکاری خرچ کے لئے ملا تھا وہ بھی قومی خزانے کو واپس کردیا۔
محترمہ فاطمہ جناح نے چودہ اگست انیس سو اٹھاون میں ہمدرد کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا جس سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔
حکیم محمد سعید بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور بچے بھی ان کے دیوانے ٹھہرے۔ یہاں تک کہ پشاور کا ایک بچہ والدین کی ڈانٹ پر گھر سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ میں کراچی میں حکیم سعید کے پاس جارہا ہوں۔ قولِ سعید ہے کہ بچوں کو عظیم بنادو، پاکستان خود بخود بڑا بن جائے گا۔
انہوں نے بچوں کی تربیت کے لئے رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا اور بزمِ نونہال کے ہزاروں پروگرامز کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کا سامان کیا۔ ساتھ ہی ہمدرد نونہال ادب کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں کتابیں شائع کیں ۔ سچی ڈائری کے عنوان سے بچوں کے لئے کتابیں شائع کرکے اپنی زندگی کے دن رات بیان کردئے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ہی حکیم محمد سعید کے دل میں علم و حکمت کے فروغ کی تڑپ بڑھتی رہی اوروہ جنون میں بدل گئی-
کراچی میں مدینتہ الحکمت نامی منصوبہ بھی اسی دیوانگی کا نتیجہ ہے جہاں آج بیت الحکمت کے نام سے ایک بہت بڑی لائبریری، یونیورسٹی ، کالجز، اسکول اور دیگر اہم ادارے قائم ہیں۔ سائنس و ثقافت اورعلم و حکمت کا یہ شہر آج بھی اس شخص کی یاد دلاتا ہے جس کے عزم وعمل نے ریگستان کو ایک علمی نخلستان میں بدل دیا۔
بزمِ ہمدرد نونہال، ہمدر د شوریٰ، شامِ ہمدرد اور ہمدرد نونہال اسمبلی جیسے ماہانہ پروگراموں میں ممتاز عالموں ، علمائے سائنس ، ادیبوں اور دانشوروں کو مدعو کرکے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے فکری نظریات کو عام آدمی تک بھی پہنچایا۔
حکیم محمد سعید نے دنیا بھر کا سفر کیا اور لاتعداد اہل علم کو اپنا دوست بنایا ۔ وہ ہرسال دنیا بھر میں تقریباً دس ہزار افراد کو عیدین اورنئے سال کے کارڈ بھجوایا کرتے تھے۔ جواہر لعل نہرو، سرمحمد ظفراللہ خان،ایان اسٹیفن، شاہ حسین، جوزف نیدھم، ڈاکٹر اکبر ایس احمد، سید حسن نصر، فاطمہ جناح اور دیگر ہزاروں شخصیات ان کے مداحوں میں شامل تھے۔
ممتاز قلمکار ستار طاہر ، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔
میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے ہمدرد اسکول اور الفرقان میں پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ ہمدرد یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو۔ اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیار ی کیلئے کمر بستہ ہوں۔
حکیم محمد سعید کی خوش قسمتی کہ ان کی یہ خواہش ان کی زندگی میں پوری ہوئی لیکن ان کے قاتل آج بھی آزاد ہیں۔
بشکریہ:ڈان

عشق کلفت ہے نہ دریائے فسوں ہے یوں ہے۔۔۔اسد قریشی


احمد فراز صاحب کی اس مشہورِ زمانہ غزل (اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے) کی زمین میں کہی گئی جناب اسد قریشی صاحب کی یہ غزل، جو بیحد خوبصورت ہے، اسد صاحب کی اجازت سے آپ سب کے لئے بلاگ پہ پیش کر رہا ہوں۔

غزل

عشق کلفت ہے نہ دریائے فسوں ہے یوں ہے
ہجر وحشت نہ سکوں ہے، نہ جنوں ہے یوں ہے

آنکھ میں آکے لَہو اب تو ٹھہر جاتا ہے
ایک قطرہ ہے دَروں ہے نہ بَروں ہے یوں ہے

گر ضروری ہے محبت میں تڑپنا دل کا
کھینچنا آہ کا بھی کارِسکوں ہے یوں ہے

لفظ جی اُٹھتے ہیں قرطاس پہ آتے آتے
ہاتھ میرے بھی کوئی کُن فیَکوں ہے یوں ہے

خال و خَد حُسن کے تُجھ سے نہ بیاں ہونے کے
صرف لفاظی ہے کہتا ہے کہ یوں ہے یوں ہے

ہم اسد دل میں بسا رکھتے ہیں دنیا ساری
ورنہ کہنے کو یہ بس قطرہِ خُوں ہے یوں ہے

(اسد قریشی)

اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے


اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے

جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے

تم نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پہ اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے

تم محبت میں کہاں سو د و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے

اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کُن فیکوں ہے یوں ہے

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص32)

مرزا غالب


مرزا غالب

فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا

ہے پر مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا


تھا سراپا روح تُو ، بزمِ سخن پیکر ترا
زیبِ محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا

دید تیری آنکھ کو اُس حسن کی منظور ہے
بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار

تیرے فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزہ وار

زندگی مضمر ہے تیری شوخئ تحریر میں
تابِ گویائی سے جنبش ہے لبِ تصویر میں

نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر
محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر

شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلی گُل شیراز پر

آہ! تو اجڑی ہوئی دِلی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے

لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں

ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ! اے نظارہ آموزِ نِگاہِ نکتہ بیں

گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزئ  پروانہ ہے

اے جہان آباد! اے گہوارۂ عِلم و ہُنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در

ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر

دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آب دار ایسا بھی ہے؟

(علاّمہ محمّد اقبالؒ)
(بانگِ درا)

ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک


ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک
دکھ تو یہ ہے کہ ہے ملاح بھی سازش میں شریک

تا ہمیں ترکِ تعلق کا بہت رنج نہ ہو
آؤ تم کو بھی کریں ہم اِسی کوشش میں شریک

اک تو وہ جسم طلسمات کا گھر لگتا ہے
اس پہ ہے نیتِ خیاط بھی پوشش میں شریک

ساری خلقت چلی آتی ہے اُسے دیکھنے کو
کیا کرے دل بھی کہ دنیا ہے سفارش میں شریک

اتنا شرمندہ نہ کر اپنے گنہگاروں کو
اے خدا تُو بھی رہا ہے مری خواہش میں شریک

لفظ کو پھول بنانا تو کرشمہ ہے فرازؔ
ہو نہ ہو کوئی تو ہے تیری نگارش میں شریک

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص170)

نذرِ قرۃ العین طاہرہ اور نوای طاہرہ


کل احمد فراز کی آخری کتاب اے عشق جنوں پیشہ میں ایک نظم "قرۃ العین طاہرہ" پڑھنے کو ملی۔


نذرِ قرۃ العین طاہرہ

تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو
دل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دو بدو


ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو


قوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکن
غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بو بہ بو


دامِ خیالِ یار کے ایسے اسیر ہم ہوئے
طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہر خو بہ خو

ہم نے لباس درد کا قالبِ جاں پہ سی لیا
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو


نقش کتابِ دل پہ تھا ثبت اُسی کا طاہرہؔ
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو


شیشۂ ریختہ میں دیکھ لعبتِ فارسی فرازؔ
خال بہ خال خد بہ خد نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو


(احمد فراز) 
(اے عشق جنوں پیشہ، ص106)


 اس نظم کے متعلق جناب محترم سید زبیر صاحب نے نے کچھ معلومات مہیا کی ہیں جو واقعی پڑھنے کے قابل ہیں۔
اُن کی جازت سے یہاں شئیر کر رہا ہوں۔

قراۃ العین طاہرہ فارسی کی مشہور شاعرہ رہ چکی ہیں ، بہائی مذہب سے ان کا تعلق تھا اسی وجہ سے نہائت بے دردی سے انہیں قتل کیا گیا تھا ۔ خاوند ایران کے ایک مجتہد تھے ان سے طلاق لے لی تھی ۔صاحب دیوان تھیں ۔جاویدنامہ میں ایک غزل نوائی طاہرہ کے عنوان سے موجود ہے۔ احمد فراز کی اس غزل کو کسی حد تک اس کا ترجمہ کہا جاسکتا ہے ، علامہ اقبالؒ کی غزل بمعہ سلیس نثری ترجمہ حسب ذیل ہے:

نوای طاہرہ
گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ ، روبرو
شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ ، موبمو
اگر تجھ پہ میری نظر کچھ اس طرح پڑےکہ تو میرے بالکل سامنے ہو اور تیرا چہرہ میرے چہرے کے سامنے ہوتو پھر میں تیرے غم عشق کی تفصیل ایک ایک گہری بات اور رمز سے بیان کروں

از پی دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام
خانہ بخانہ در بدر ، کوچہ بکوچہ کوبکو
تیرا چہرہ دیکھنے کے لیےمیں صبح کی نرم ولطیف ہوا کی مانند چلی پھری ہوں اور میں گھر گھر ،در در ،کوچہ کوچہ اور گلی گلی پھری ہوں

میرود از فراق تو خون دل از دو دیدہ ام
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم ، چشمہ بہ چشمہ جوبجو
تیرے فراق میں میرا خون دل میری آنکھوں سے رواں ہے اور وہ دریادریا،سمندر سمندر،چشمہ چشمہ اور ندی ندی بہہ رہا ہے

 مہر ترا دل حزین بافتہ بر قماش جان
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ ، تار بہ تار پو بہ پو
میرے غمزدہ دل نے تیری محبت کو جان کے قماش پر بن لیا ہے،دھاگہ دھاگہ ،باریک باریک، تار تار اور تانا بانا خوب ملا کر بن لیا

در دل خویش طاہرہ ، گشت و ندید جز ترا
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بتو
طاہرہ نے اپنے دل کے اندر نظر ڈالی مگر اسے دل کے صفحہ صفحہ،گوشہ گوشہ پردہ پردہ اور تہہ در تہہ تیرے سوا کوئی نظر نہ آیا

سوز و ساز عاشقان دردمند
شورہای تازہ در جانم فکند
اہل درد عاشقوں کے پر سوز ہنگاموں نے میری جاں میں نئے ہنگامے برہا کردیے

مشکلات کہنہ سر بیرون زدند
باز بر اندیشہ ام شبخون زدند
پرانی مشکلات نے اپنا سر اٹھا لیا اور ایک مرتبہ پھر میری فکر پر شب خون مارا

قلزم فکرم سراپا اضطراب
ساحلش از زور طوفانی خراب
میری فکر کا سمندر پوری طرح طوفان خیز بن گیا اور طوفان کی شدت سے اس کا ساحل خراب ہو گیا

گفت رومی "وقت را از کف مدہ
اے کہ می خواہی کشود ہر گرہ
رومی نے کہا جو اپنی ہر مشک کا خواہاں ہے ، تو وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دے

چند در افکار خود باشی اسیر
"این قیامت را برون ریز از ضمیر
تو کب تک اپنے افکار میں اسیر رہے گا۔ضمیر کا یہ بوجھ باہر گرا دے

جون ایلیا کے قطعات


جون ایلیا کے قطعات

جون ایلیا اردو شاعری کا ایک بہت بڑا نام اور ان کے قطعات اردو اپنی مثال آپ ہیں۔
ان کے قطعات سے میرا انتخاب آپ سب کی سماعتوں کی نذر:

اپنی انگڑائیوں پہ جبر نہ کر
مجھ پہ یہ قہر ٹوٹ جانے دے
ہوش میری خوشی کا دشمن ہے
تو مجھے ہوش میں نہ آنے دے

-------------------------
                                           
نشہ ناز نے بے حال کیا ہے تم کو
اپنے ہے زور میں کم زور ہوئی جاتی ہو
میں کوئی آگ نہیں، آنچ نہیں، دھوپ نہیں
کیوں پسینہ میں شرابور ہوئی جاتی ہو

-------------------------


بات ہی کب کسی کی مانی ہے
اپنی ہٹ پوری کر کے چھوڑو گی
یہ کلائی یہ جسم اور یہ کمر
تم صراحی ضرور توڑو گی

-------------------------


تم ہو جاناں شباب و حسن کی آگ
آگ کی طرح اپنی آنچ میں گم
پھر مرے بازوؤں پہ جھک آئیں
لو اب مجھے جلا ہی ڈالو تم

-------------------------

آپ کی تلخ نوائی کی ضرورت ہی نہیں
میں تو ہر وقت ہی مایوسِ کرم رہتا ہوں
آپ سے مجھ کو ہے اک نسبتِ احساسِ لطیف
لوگ کہتے ہیں ، مگر میں تو نہیں کہتا ہوں


-------------------------

چڑھ گیا سانس جھک گئیں نطریں
رنگ رخسار میں سمٹ آیا 
زکر سن کر مری محبت کا
اتنے بیٹھے تھے ، کون شرمایا ؟


-------------------------

تم زمانے سے لڑ نہیں سکتیں
خیر یہ راز آج کھول دیا 
وہ اجازت کہ جا رہو ہوں میں
تم نے باتوں میں زہر کھول دیا


-------------------------

دور نظروں سے خلوتِ دل میں
اس طرح آج اُن کی یاد آئی 
ایک بستی کے پار شام کا وقت 
جیسے بجتی ہو شہنائی 


-------------------------

ہیں بے طور یہ لوگ تمام 
ان کے سانچہ میں نہ ڈھلو
میں بھی یہاں سے بھاگ چلوں
تم بھی یہاں سے بھاگ چلو


-------------------------


عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اُس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ

-------------------------


ہے یہ بازار جھوٹ کا بازار
پھر یہی جنس کیوں نہ تولیں ہم
کر کے اک دوسرے سے عہدِ وفا
آؤ کچھ دیر جھوٹ بولیں ہم

-------------------------


کون سود و زیاں کی دنیا میں
دردِ غربت کا ساتھ دیتا ہے
جب مقابل ہوں عشق اور دولت
حُسن دولت کا ساتھ دیتا ہے

 -------------------------

یہ تیرے خط تیری خوشبو یہ تیری خواب و خیال
متاعِ جاں ہیں ترے قول و قسم کی طرح
گزشتہ سال انہیں میں نے گِن کے رکھا تھا
کسی غریب کی جوڑی ہوئی رقم کی طرح

-------------------------


ہر بار تجھ سے ملتے وقت
تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے
تیرے جانے کے بعد بھی میں نے
تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے

-------------------------


سال ہا سال اور اِک لمحہ
کوئی بھی تو نہ اِن میں بل آیا
خود ہی اِک در پہ میں نے دستک دی
خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا

-------------------------


میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
تم نے سانچے میں جنوں کے ڈھال دیں
کر لیا تھا میں نے عہدِ ترکِ عشق
تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں

-------------------------


تم جب آؤ گی کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

-------------------------

جو رعنائی نگاہوں کے لئے فردوسِ جلوہ ہے
لباس مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی

-------------------------


شرم ، دہشت ، جھجک ، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ،وہ،جی،مگر ’’یہ سب کیا ہے‘‘
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں

-------------------------


عجب تھا اس کی دلداری کا انداز
وہ برسوں بعد جب مجھ سے مِلا ہے
بَھلا میں پوچھتا اس سے تو کیسے
متاعِ جاں! تمہارا نام کیا ہے

-------------------------


تیری یادوں کے راستے کی طرف
اک قدم بھی نہیں بڑھوں گا میں
دل تڑپتا ہے تیرے خط پڑھ کر
اب ترے خط نہیں پڑھوں گا میں

-------------------------


لہو روتے نہ اگر ہم دمِ رخصت یاراں
کیا عجب تھا کہ کوئی اور تماشہ کرتے
چلو اچھا ہے کہ وہ بھی نہیں نزدیک اپنے
وہ جو ہوتا تو اُسے بھی نہ گوارا کرتے

-------------------------


نشۂ ناز نے بے حال کیا ہے تم کو
اپنے ہی زور میں کمزور ہوئی جاتی ہو
میں کوئی آگ نہیں، آنچ نہیں، دھوپ نہیں
کیوں پسینہ میں شرابور ہوئی جاتی ہو


میں محبت میں روایات سے باہر نہ گیا

دل بھٹکتا ہی رہا خوابوں میں کیا جانے کہاں
میں مگر آج بھی اوقات سے باہر نہ گیا

قوم تو پہنچی ستاروں پہ، ترقی کر کے
اور تو پچھلی خرافات سے باہر نہ گیا

دودھ کی نہر وہی، میر کے اشعار وہی
میں محبت میں روایات سے باہر نہ گیا

میکدے کی سبھی اقدار بھی پامال ہوئیں
رند آئینِ خرابات سے باہر نہ گیا

(اصلاح کردہ: استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب)
(شاعر: محمد بلال اعظم)

ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے


ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے
                       
ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے

جب ہے یہ خانہ ء دل آپکی خلوت کے لئے
پھر کوئی آئے یہاں ، کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے

ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے 

(عبید اللہ علیم)

قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ


قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ

میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ

ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ

بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگزار
پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم اللہ

ہم کو گلچیں سے گِلا ہے گل و گلشن سے نہیں
تجھ کو آنا ہے تو اے بادِ صبا بسم اللہ

گرتے گرتے جو سنبھالا لیا قاتل نے فراز
دل سے آئی کسی بسمل کی صدا، بسم اللہ

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص30)

اک ذرا سُن تو مہکتے ہوئے گیسو والی


اک ذرا سُن تو مہکتے ہوئے گیسو والی
راہ میں کون دُکاں پڑتی ہے خوشبو والی

پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی

دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدوخال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی

گفتگو ایسی کہ بس دل میں اُترتی جائے
نہ تو پُرپیچ نہ تہہ دار نہ پہلو والی

ایک منظر کی طرح دل پہ منقش ہے ابھی
اک مُلاقات سرِ شام لبِ جُو والی

درد ایسا ہے کہ بجھتا ہے چمک جاتا ہے
دل میں اک آگ سی ہے آگ بھی جُگنو والی

جیسے اک خواب سرائے سے گزر ہو تیرا
کوئی پازیب چھنک جاتی ہے گھنگرو والی

زعم چاہت کا تھا دونوں کو مگر آخرِ کار
آگئی بیچ میں دیوار من و توُ والی

ایسا لگتا ہے کہ اب کے جو غزل میں نے کہی
آخری چیخ ہے دم توڑتے آہو والی

اک نگاہِ غلط انداز ہی اے جانِ فراز
شوق مانگے ہے خلش تیرِ ترازو والی

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص43)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px