Showing posts with label پروین شاکر. Show all posts
Showing posts with label پروین شاکر. Show all posts

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے


غزل

اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے
شام کے وقت سفر کیا کرتے

تیری مصروفیتیں جانتے ہیں
اپنے آنے کی خبر کیا کرتے

جب ستارے ہی نہیں مل پائے
لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے

وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا
سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے

خاک ہی اوّل و آخر ٹھہری
کر کے ذرّے کو گہر کیا کرتے

رائے پہلے سے بنا لی تو نے
دل میں اب ہم تیرے گھر کیا کرتے

عشق نے سارے سلیقے بخشے
حسن سے کسبِ ہنر کیا کرتے
(پروین شاکر)

کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی


غزل
کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی

سپرد کر کے اسے روشنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں میں لوٹ آؤں گی

بدن کے قرب کو وہ بھی نہ سمجھ پائے گا
میں دل میں رو ¿ں گی آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی کسے مناؤں گی

وہ ایک رشتہ بے نام بھی نہیں لیکن
میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی

سماعتوں میں گھنے جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں اب بھی تیری آواز سن نہ پاؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اس کو بھول جاؤں گی
(خوشبو)
(پروین شاکر)

جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے


غزل
جستجو کھوئے ہُوو ں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے

راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر
شِہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے

ہم نے خود سے بھی چھپایا اور سارے شہر کو
تیرے جانے کی خبر دیوار و دَر کرتے رہے

وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا،اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر،کرتے رہے

آج آیا ہے ہمیں بھی اُن اُڑانوں کا خیال
جن کو تیرے زعم میں ' بے بال و پر کرتے رہے 
(پروین شاکر)

وہ عکسِ موج گل تھا، چمن چمن میں رہا


غزل
وہ عکسِ موج گل تھا، چمن چمن میں رہا
وہ رنگ رنگ میں اُترا، کرن کرن میں رہا

وہ نام حاصلِ فن ہوکے میرے فن میں رہا
کہ روح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا

سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل، کہ سدا اُس کی انجمن میں رہا

وہ شہر والوں کے آگے کہیں مہذب تھا
وہ ایک شخص جو شہروں سے دُور بَن میں رہا

چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا
(پروین شاکر)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px