Showing posts with label اسد قریشی. Show all posts
Showing posts with label اسد قریشی. Show all posts

میرے کمرے میں کہیں رات پڑی ہو جیسے


میرے کمرے میں کہیں رات پڑی ہو جیسے
سرمئی شام اسے ڈھونڈ رہی ہو جیسے

خواب تو جل کے دھواں کب کا ہوا ہے لیکن
 ایک چنگاری کہیں اب بھی دبی ہو جیسے

ایک گزرے ہوئے لمحے میں پڑا ہوں کب سے
 زندگی رکھ کے مجھے بھول گئی ہو جیسے

ہاتھ میں ہاتھ مگر پھر بھی یہ لگتا ہے مجھے
 تُو بہت دور بہت دور کھڑی ہو جیسے

اشک پلکوں کے کناروں سے  اُمڈ آئے ہیں
 میری آنکھوں سے کوئی بھول ہوئی ہو جیسے

چلتے چلتے ہوئے اکثر میں ٹھٹھک جاتا ہوں
 میں نے پھر سے وہی آواز سُنی ہو جیسے

(اسد قریشی)

عشق کا نام تو آزار بھی ہو سکتا تھا


عشق کا نام تو آزار بھی ہو سکتا تھا
ہجر سہنا کبھی بیکار بھی ہو سکتا تھا

جرم کی آگ میں جھلسا ہے جو معصوم سا پل
 اگلے وقتوں کا یہ معمار بھی ہوسکتا تھا

 برف نے ڈھانپ رکھا ہے جسے اب تک سوچو
آتشِ قہر کا کوہسار بھی ہو سکتا تھا

ہے عجب رزق کی تقسیم، تو ترسیل عجب
جو ہے محدود و بسیار بھی ہو سکتا تھا

 یوں تو دنیا نے دیئے غم ہیں بہت سے مجھ کو
ورنہ غم تیرا گراں بار بھی ہوسکتا تھا

خیر ہو قیس کی صحرا کو بنایا مسکن
دلِ وحشی تھا یہ خونخوار بھی ہو سکتا تھا

شمع جل کر بھی نہ جل پائی، مگر پروانہ
عشق میں تھوڑا سمجھدار بھی ہوسکتا تھا

میں نے چاہا نہ کبھی خود کو نمایاں کرنا
میرے قدموں میں یہ سنسار بھی ہوسکتا تھا

 وہ تو اچھا ہے کہ سمجھا نہ زمانہ مجھ کو
 ورنہ منصور، سرِ دار بھی ہوسکتا تھا

تجھ پہ سایا ہے تری ماں کی دعاؤں کا اسدؔ
شکر کر راندہِ دربار بھی ہوسکتا تھا

(اسد قریشی)

مہرو انجم کو نشانِ لامکاں سمجھا تھا میں از اسد قریشی


علامہ محمد اقبالؒ کی زمین میں اسد قریشی صاحب کی غزل:
علامہ محمد اقبالؒ کی مشہورِ زمانہ غزل " اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں" کی زمین میں اسد قریشی صاحب کی خوبصورت غزل

مہرو انجم کو نشانِ لامکاں سمجھا تھا میں
”اس زمین وآسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں“



کتنے عالم ہیں نہاں جن کو کہاں سمجھا تھا میں
اب تک اس سارے جہاں کو کہکشاں سمجھا تھا میں

کس طرح سے میں سمجھتا زندگی کے پیچ وخَم
درحقیقت خوُد کو بھی اب تک کہاں سمجھا تھا میں

دوستوں سے بے خبر تھا دشمنوں کی کھُوج میں
قتل میں شامل تھے جن کو رازداں سمجھا تھا میں

بے اماں پھرتا رہا شام و سحر جس شہر میں
خونِ دل ہوتا رہا جائےِ اماں سمجھا تھا میں

بھُولنا تُجھ کو مری جاں ایسا مشکل بھی نہ تھا
ایک ہچکی تھی جسے کوہِ گَراں سمجھا تھا میں

عشق کلفت ہے نہ دریائے فسوں ہے یوں ہے۔۔۔اسد قریشی


احمد فراز صاحب کی اس مشہورِ زمانہ غزل (اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے) کی زمین میں کہی گئی جناب اسد قریشی صاحب کی یہ غزل، جو بیحد خوبصورت ہے، اسد صاحب کی اجازت سے آپ سب کے لئے بلاگ پہ پیش کر رہا ہوں۔

غزل

عشق کلفت ہے نہ دریائے فسوں ہے یوں ہے
ہجر وحشت نہ سکوں ہے، نہ جنوں ہے یوں ہے

آنکھ میں آکے لَہو اب تو ٹھہر جاتا ہے
ایک قطرہ ہے دَروں ہے نہ بَروں ہے یوں ہے

گر ضروری ہے محبت میں تڑپنا دل کا
کھینچنا آہ کا بھی کارِسکوں ہے یوں ہے

لفظ جی اُٹھتے ہیں قرطاس پہ آتے آتے
ہاتھ میرے بھی کوئی کُن فیَکوں ہے یوں ہے

خال و خَد حُسن کے تُجھ سے نہ بیاں ہونے کے
صرف لفاظی ہے کہتا ہے کہ یوں ہے یوں ہے

ہم اسد دل میں بسا رکھتے ہیں دنیا ساری
ورنہ کہنے کو یہ بس قطرہِ خُوں ہے یوں ہے

(اسد قریشی)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px