Showing posts with label مرزا غالب. Show all posts
Showing posts with label مرزا غالب. Show all posts

میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے

میرؔ کی عظمت کا اعتراف اساتذہ کی زبان سے:

سوداؔ:
مرزا سوداؔ جو میرؔ صاحب کے ہمعصر اور مدِّ مقابل تھے، کہتے ہیں
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرح

ناسخ:
شیخ ناسخؔ جو اپنی تنک مزاجی اور بد دماغی کے لئے مشہور ہیں، کہتے ہیں
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
اس کے لئے ناسخؔ نے میرؔ کی تاریخِ وفات کہی:
"واویلا مرد شۂِ شاعراں"
اس میں بھی انہوں نے میرؔ کی عظمت کا اعتراف "شہ شاعراں" کہہ کر کیا ہے۔

غالبؔ:
مرزا غالبؔ ناسخؔ کی اس رائے کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
مرزا غالبؔ دوسری جگہ میرؔ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں
میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں

ذوقؔ:
استاد ذوقؔ فرماتے ہیں
نہ ہوا، پر نہ ہوا، میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

مصحفیؔ:
اے مصحفیؔ تو اور کہاں شعر کا دعوےٰ
پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میرؔ کے منہ پر

شیفتہؔ:
نرالی سب سے ہے اپنی روش اے شیفتہؔ لیکن
کبھی دل میں ہو ائے شیوہ ہائے میرؔ پھرتی ہے

میر مہدی مجروحؔ:
یوں تو ہیں مجروحؔ شاعر سب فصیح
میرؔ کی پر خوش بیانی اور ہے

مولانا حالیؔ:
حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے
غالبؔ کا معتقد ہے، مقلد ہے میرؔ کا

مرزا داغؔ:
میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا

امیرؔ:
سوداؔ و میرؔ دونوں ہی استاد ہیں امیرؔ
لیکن ہے فرق آہ میں اور واہ واہ میں

جلال لکھنویؔ:
کہنے کو جلال آپ بھی کہتے ہیں وہی طرز
لیکن سخنِ میر تقی میرؔ کی کیا بات ہے

اسمٰعیل میرٹھی:
یہ سچ ہے کہ سوداؔ بھی تھا استاد زمانہ
مِیری تو مگر میرؔ ہی تھا شعر کے فن میں


اکبرؔ الہ آبادی:
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ

مولانا حسرتؔ موہانی:
گذرے ہیں بہت استاد، مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک

شعر میرے بھی ہیں پُر درد، ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں

احمد فرازؔ:
فرازؔ شہرِ غزل میں قدم سلوک سے رکھنا
کہ اِس میں میرؔ سا، غالبؔ سا خوش نوا بھی ہے


انتخاب: اردو شاعری پر ایک نظر از محمد جمیل احمد 
اور کچھ میرا ذاتی انتخاب بھی ہے۔ 

نوٹ: یہ مائیکرو سافٹ کا urdu typsetting فونٹ ہے۔

مرزا غالب


مرزا غالب

فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا

ہے پر مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا


تھا سراپا روح تُو ، بزمِ سخن پیکر ترا
زیبِ محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا

دید تیری آنکھ کو اُس حسن کی منظور ہے
بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوتِ کوہسار

تیرے فردوسِ تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزہ وار

زندگی مضمر ہے تیری شوخئ تحریر میں
تابِ گویائی سے جنبش ہے لبِ تصویر میں

نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر
محوِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر

شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلی گُل شیراز پر

آہ! تو اجڑی ہوئی دِلی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے

لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں

ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ! اے نظارہ آموزِ نِگاہِ نکتہ بیں

گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزئ  پروانہ ہے

اے جہان آباد! اے گہوارۂ عِلم و ہُنر
ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در

ذرے ذرے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر
یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر

دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے؟
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آب دار ایسا بھی ہے؟

(علاّمہ محمّد اقبالؒ)
(بانگِ درا)

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا


غزل
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈ بویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
(مرزا اسد اللہ خان غالب)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px