Showing posts with label ادبیات. Show all posts
Showing posts with label ادبیات. Show all posts

مشورہ

مشورہ

ایک مشاعرے کے اختتام پر جب ایک نامر شاعر کو طے شدہ معاوضے سے کم رقم دی گئی تو وہ منتظمین پر پھٹ پڑے۔
'' میں اس رسید پر دستخط نہیں کر سکتا۔"
مجاز بھی وہیں موجود تھے۔ وہ نہایت معصومیت سے منتظم سے بولے
"اگر یہ دستخط نہیں کر سکتے تو ان سے انگوٹھا ہی لگوا لو۔"

بائیسکل



بائیسکل

اکبر الہٰ آبادی کے ایک عزیز بائیسکل سے گر پڑے اور ہفتہ بھر بستر پر رہے۔ جب تندرست ہو کر اکبر الہٰ آبادی سے ملنے گئے تو وہ کہنے لگے۔
بُرا ہوا! اب مجھے کوئی کچھ کہے لیکن مجھے عہدِ حاضر کی اچھی سے اچھی ایجاد میں بھی نقصان کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نظر آتا ہے، خواہ موٹر ہو یا ہوائی جہاز۔۔۔ اب بائیسکل کو ہی دیکھ لو، مرض ”بائی“ سے شروع ہوتا ہے، پھر ”سک“ ہوتا ہے، پھر ”ال“ بنتا ہے، یوں بائیسکل بنتا ہے۔

قاتل سپاہی


قاتل سپاہی

دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں، جون کا مہینہ ہے، سمن آباد کی گلیوں میں ایک ڈاکیا پسینے میں شرابور بوکھلایا بوکھلایا پھر رہا ہے۔محلے کے لوگ بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اصل میں آج اس کی ڈیوٹی کا پہلا دن ہے۔ وہ کچھ دیر اِدھر اُدھر دیکھتا رہا پھر ایک پرچون والے کی دکان 
کے پاس سائیکل کھڑی کر کے دکاندار کی طرف بڑھتا ہے۔
قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہے؟
 اس نے آہستہ سے پوچھا اور'' دکاندار کے پیروں تلے زمین نکل گئی، اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔ ”قق.....قاتل.....سس.....سپاہی مجھے کیا پتا.....“ اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا۔ڈاکیا پھر پریشان ہو گیا۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ کسی طریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا چپکے سےکھسک جاتا، ڈاکیا نیا تھا، نہ جان نہ پہچان اور اوپر سے”قاتل سپاہی“ کے نام کی رجسٹری.....آخر وہ کرے تو کیا کرے.....کہاں سے ڈھونڈے قاتل سپاہی کو.....اس نے پھر سے نام پڑھا۔ نام اگر چہ انگلش میں لکھا ہوا تھا لیکن آخر کار وہ بھی مڈل پاس تھا، تھوڑی بہت انگلش تو سمجھ سکتا تھا۔ بڑے واضح الفاظ میں”قاتل سپاہی، غا لب اسٹریٹ، سمن آ باد“ لکھا ہوا تھا۔ دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگااور تھک ہار کر ایک مکان کے باہر بنے تھڑے پر بیٹھ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔ڈیوٹی کے پہلے ہی روز اسے ناکامی کا سامنا ہورہا تھا، اور اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائے گا۔ اس کا حلق خشک ہو گیا۔ اسے پانی کی طلب محسوس ہوئی۔ وہ بے اختیار اٹھا اور گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی۔اچانک اسے ایک زور کا جھٹکا لگا۔ جھٹکے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا، بلکہ بیل کے نیچے لگی نیم پلیٹ پر انگلش میں
  QATIL SHIPAHI قاتل سپاہی
 لکھا ہواتھا۔خوشی کی ایک لہر اس کے اندر دوڑ گئی۔ اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا۔ ڈاکئے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی
کیا یہ آپ ہی کا نام ہے؟ 
نوجوان نے نام پڑھا اور کہا ”نہیں.....یہ میرے دادا ہیں “۔

شئیر کیجیے

Ads 468x60px