میرے کمرے میں کہیں رات پڑی ہو جیسے
سرمئی شام اسے ڈھونڈ رہی ہو جیسے
سرمئی شام اسے ڈھونڈ رہی ہو جیسے
خواب تو جل کے دھواں کب کا ہوا ہے
لیکن
ایک چنگاری کہیں اب بھی دبی ہو جیسے
ایک چنگاری کہیں اب بھی دبی ہو جیسے
ایک گزرے ہوئے لمحے میں پڑا ہوں کب
سے
زندگی رکھ کے مجھے بھول گئی ہو جیسے
زندگی رکھ کے مجھے بھول گئی ہو جیسے
ہاتھ میں ہاتھ مگر پھر بھی یہ لگتا
ہے مجھے
تُو بہت دور بہت دور کھڑی ہو جیسے
تُو بہت دور بہت دور کھڑی ہو جیسے
اشک پلکوں کے کناروں سے اُمڈ آئے ہیں
میری آنکھوں سے کوئی بھول ہوئی ہو جیسے
میری آنکھوں سے کوئی بھول ہوئی ہو جیسے
چلتے چلتے ہوئے اکثر میں ٹھٹھک جاتا
ہوں
میں نے پھر سے وہی آواز سُنی ہو جیسے
میں نے پھر سے وہی آواز سُنی ہو جیسے
(اسد قریشی)