میرے کمرے میں کہیں رات پڑی ہو جیسے


میرے کمرے میں کہیں رات پڑی ہو جیسے
سرمئی شام اسے ڈھونڈ رہی ہو جیسے

خواب تو جل کے دھواں کب کا ہوا ہے لیکن
 ایک چنگاری کہیں اب بھی دبی ہو جیسے

ایک گزرے ہوئے لمحے میں پڑا ہوں کب سے
 زندگی رکھ کے مجھے بھول گئی ہو جیسے

ہاتھ میں ہاتھ مگر پھر بھی یہ لگتا ہے مجھے
 تُو بہت دور بہت دور کھڑی ہو جیسے

اشک پلکوں کے کناروں سے  اُمڈ آئے ہیں
 میری آنکھوں سے کوئی بھول ہوئی ہو جیسے

چلتے چلتے ہوئے اکثر میں ٹھٹھک جاتا ہوں
 میں نے پھر سے وہی آواز سُنی ہو جیسے

(اسد قریشی)

عشق کا نام تو آزار بھی ہو سکتا تھا


عشق کا نام تو آزار بھی ہو سکتا تھا
ہجر سہنا کبھی بیکار بھی ہو سکتا تھا

جرم کی آگ میں جھلسا ہے جو معصوم سا پل
 اگلے وقتوں کا یہ معمار بھی ہوسکتا تھا

 برف نے ڈھانپ رکھا ہے جسے اب تک سوچو
آتشِ قہر کا کوہسار بھی ہو سکتا تھا

ہے عجب رزق کی تقسیم، تو ترسیل عجب
جو ہے محدود و بسیار بھی ہو سکتا تھا

 یوں تو دنیا نے دیئے غم ہیں بہت سے مجھ کو
ورنہ غم تیرا گراں بار بھی ہوسکتا تھا

خیر ہو قیس کی صحرا کو بنایا مسکن
دلِ وحشی تھا یہ خونخوار بھی ہو سکتا تھا

شمع جل کر بھی نہ جل پائی، مگر پروانہ
عشق میں تھوڑا سمجھدار بھی ہوسکتا تھا

میں نے چاہا نہ کبھی خود کو نمایاں کرنا
میرے قدموں میں یہ سنسار بھی ہوسکتا تھا

 وہ تو اچھا ہے کہ سمجھا نہ زمانہ مجھ کو
 ورنہ منصور، سرِ دار بھی ہوسکتا تھا

تجھ پہ سایا ہے تری ماں کی دعاؤں کا اسدؔ
شکر کر راندہِ دربار بھی ہوسکتا تھا

(اسد قریشی)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px