عید 'اپنوں' کے ساتھ

صبح سویرے شبنم کی روپہلی بوندوں کا لمس پا کر سرکاری ٹی وی کے کارٹون دیکھ کر ماں کی دعاؤں کے سائے میں  باپ کی انگلی پکڑے اسکول جانے والے بچے نجانے اتنے بڑے کب سے ہو گئے کہ ماں باپ کی آسائشوں کا خیال نہ رکھ پائیں! دوپہر کو سکول سے واپسی پر اگر ماں نظر نہ آتی یا رات کو کام کا بوجھ لئے باپ کبھی دیر سے گھر آتا تو اندیشوں میں گھِر جانے والے بچے شعور کی سیڑھی کو ایسے عبور کر گئے کہ پھر سالوں ماں باپ کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ سکول سے تھکے ہارے واپس آ کر ماں کے ہاتھ سے کھانا کھانے کی شرط لگاتے بچے شاید دنیا کے جھمیلوں میں اس قدر مصروف ہوئے کہ ماں باپ کے لئے دو وقت کی روٹی کا بند و بست بھی مشکل ہو گیا۔ کبھی صبح سویرے گھر کی چھت پہ دانا چگتے چوزے اچھے لگتے تھے کہ ان سے اپنائیت کا احساس ہوتا تھا مگر پھر نہ وہ چوزے رہتے ہیں نہ وہ اپنائیت۔

منظر بدلتا ہے اور چوزوں کو دانہ چگتے دیکھ کر خوش ہونے والے بچوں کو کہیں یتیمی کا داغ لگ جاتا ہے تو  کہیں فکرِ معاش کھلونے توڑ دیتی ہے۔ کبھی وہ  بوٹ پالش کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی برتن دھوتے ہوئے۔ رنگ تو رنگ ان آنکھوں سے تو خواب بھی مٹتے جاتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ نئے کپڑے پہن کر  عید منانے کی خواہش زندگی کی بے رحم ضروریات تلے کہیں دب جاتی ہے۔ یہاں شماریات کا محل نہیں کہ رزق کی تلاش میں نکلے ہوئے ایک بچے کی آہ بھی تمام قوم کی عشرت و آسائش پہ بھاری ہے۔

بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
کیا بھروسہ ہے سمندر کا، خدا خیر کرے
سیپیاں چننے گئے ہیں مرے سارے بچے

اب نہ سرخ پانی کا عذاب آئے گا، نہ ٹڈی دل چھوڑے جائیں گے کہ اب دلوں پہ مہر لگتی جا رہی ہے۔ بے حسی عذابِ الٰہی ہے۔۔۔ بے حسی عذابِ الٰہی ہے۔۔۔  اور اس سے بڑھ کر بے حسی کیا ہو گی کہ جنت اولڈ ہومز میں خود اپنے مکینوں کا، اپنے راج دلاروں کا رستہ تک رہی ہے۔ بے قیاس  و ناشناس لوگوں کے ہجوم میں بچوں کی اداس آنکھیں سراپا سوال ہیں۔۔۔

گھر تو کیا، گھر کی شباہت بھی نہیں ہے باقی
ایسے ویران ہوئے ہیں در و دیوار کہ بس

کتنی آنکھیں ایسی ہیں جو اولڈ ہومز میں اپنے پیاروں کے، اپنے بیٹوں، بیٹیوں کے آنے کی آس لگائے دھندلا جائیں گی مگر آنے والے نہیں آئیں گے! بابا ماضی کے سفر پہ نکل جائیں گے اور کس دل کے ساتھ تصور میں لائیں گے کہ کاش میرا بیٹا آئے، جیسے بچپن میں مَیں اس کی انگلی پکڑے سکول لے جاتا تھا، وہ مجھے گھر لے جائے! ماں اب بھی رات کو اولڈ ہوم کے دروازے پہ کھڑی دعاؤں کا ورد کرتی سوچ رہی ہو گی کہ اتنی رات ہو گئی، پتہ نہیں بیٹا گھر بھی پہنچا ہو گا یا نہیں، خدا خیر کرے!  پھولوں جیسے کتنے ہی معصوم سورج سے بھی پہلے تلاشِ رزق میں نکلیں گے اور رات کو تھکے ہارے ہاتھوں کا تکیہ بنائے خواب آنکھوں میں لئے سو جائیں گے!

کیا یہ انتظار، انتظارِ لاحاصل ہی رہے گا؟ آئیے! اس عید پر ہمارا ساتھ دیجیے کہ کہیں یہ عید بھی بوڑھی آنکھوں میں انتظار اور احساسِ محرومی کے مزید نئے کانٹے نہ چبھو جائے۔ اگر یہ آنکھیں بے نور ہو گئیں تو ہم کیسے دیکھیں گے! یہ لب خاموش ہو گئے تو ہمارے لئے دعائیں کون مانگے گا! یہ پھول مرجھا گئے تو کہیں باغبان ہم سے ناراض نہ ہو جائے! اگر یہ کلیاں تعلیم اور اپنائیت سے محروم رہیں تو کہیں کمھلا نہ جائیں! کہیں ہم منزل پہ پہنچ کے بھی بے آسرا، بے سر و سامان ہی نہ ٹھہریں!

عید سب کے لئے --- پازیٹیو پاکستان
آئیے! اولڈ ہومز میں اپنے پیاروں کے لئے متلاشی آنکھوں کے ساتھ عید منائیے۔ آئیے! کتابوں کی بجائے ہاتھوں میں اوزار تھامے پھولوں کے ساتھ عید منائیے۔ آئیے! موسم ہو یاکوئی تہوار، کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہماری خاطر اپنا وقت سڑکوں پہ گزارنے والے ٹریفک وارڈنز اور سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ عید منائیے  کہ رشتے صرف خون کے ہی تو نہیں ہوتے۔ بعض اوقات دل کے رشتے خون کے رشتوں سے کہیں زیادہ سَچے اور سُچے ہوتے ہیں۔

اولڈ ہومز میں بسے محبت کے ان فرشتوں کو آپ کے روپے پیسے کی خواہش نہیں، سکول کی بجائے دکانوں پہ جانے والے بچے آپ کی جائیداد میں حصہ نہیں مانگتے، سڑکوں پہ اپنے فرائض انجام دیتے اہلکاروں کو آپ سے کسی صلے کی تمنا نہیں کہ انہیں صرف آپ کے وقت کی ضرورت ہے اور ہم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔ وہ بناوٹ سے عاری ہیں، دستار کا بوسہ لینا نہیں جانتے، ان کی دعائیں آپ کی پیشانی کا بوسہ لیتی ہیں۔ آپ کے نام سے، آپ کے لئے ان کی آنکھیں وضو کرتی ہیں۔ ان کے شب و روز آپ کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ آئیے! ان کے ساتھ عید منائیں اور انہیں یقین دلائیں کہ "ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں"۔

تمام عمر سلامت رہیں، دعا ہے یہی
ہمارے سر پہ ہیں جو ہاتھ برکتوں والے
 (محمد بلال اعظم)




عابد کی سال گرہ کا احوال

یوں تو کالج میں کئی بار گرم لُو کے تھپیڑے کھائے اور بارہا بارش کی بوندوں کو کوریڈور میں، الیکٹرانکس لیب کی کھڑکی کے پاس، کبھی روز گارڈن میں، کبھی سنکنگ گارڈن میں کچھ حسین دوستوں کی پُر لطف قربت میں محسوس کیا مگر جو مزہ 27 جون کی بارش میں بھیگنے کا آیا، دل اُس سے پہلے نا آشنا تھا۔

بارش کی ایک ہی منزل ہے۔۔۔ دل کی لائبریری۔۔۔ کاغذ کی کشتی، بارش کا پانی۔۔۔من آنگن میں۔۔۔  وہ ہنستے ہنستے رونے لگتی تھی، دھوپ میں بارش ہونے لگتی تھی۔۔۔ ایسے میں کچھ دکھ بھی خودرو پودوں کی طرح باہر آ جاتے مگر یہ اداسی بھی تو دل مندر کی داسی ہے۔۔۔ لطیف اور حسین۔۔۔ بارش صرف یادوں میں ہی نہیں، کھانے پینے کی چیزوں اور خیالوں میں بھی برکت ڈال دیتی ہے۔۔۔ خیال، جن کی رفتار بارش کی بوندوں کو بھی مات دے دے۔ یہ بارش بھی تو سرما کی چاندنی جیسی ہے کہ خوابوں کو مزید اُجلا کر دیتی ہے۔ کتنے ہی آفاق دوستوں کے ساتھ گزری یادوں کے حیرت کدہ میں گم ہو جاتے ہیں! دل کے شہرِ پُر فن میں احبابِ دل نگار موجود ہوں تو بارش کی بوندیں خیال و فکر کی تجسیم و تخلیق کا لمحہ عطا کرتی ہیں اور اگر ان میں کسی ایک کے لئے کوئی لمحہ خاص ہو تو وہی بوندیں متاعِ یقین کے اسباب مہیا کرتی ہیں، رم جھم ایسا احساس مہیا کرتی ہے جیسے پانی میں محبت کا امرت گھلا ہوا اور تقدیس و محبت کے تمام "عابد" و "شاہد" فرشتے اس منظر کی گواہی دینے خود آئے ہوئے ہوں۔


بچپن سے سنتے آئے ہیں
اے ابرِ کرم آج اتنا برس۔۔۔۔ کہ وہ جا نہ سکیں
جبکہ ستائیس جون کی رات اس قدر اثر انگیز و حیرت ناک تھی کہ دل نے بے ساختہ صدا دی
اے ابرِ کرم آج اتنا برس۔۔۔ کہ "ہم" جا نہ سکیں


جہاں رونقِ محفل عابد و شاہد ہوں، محفلِ دوستاں کو منور کریں استادِ مَن مطیع الرحمان، یارِ دلآویز و مونسِ جاں عثمان بھائی، ارشد ، ضرغام اور عدنان ہوں وہاں مجھ تشنہ لباں سمیت سب ہی آسمانِ ہنر کے اُس پار "شفیق چہروں کی صبیح آنکھوں سے پھوٹتی دعاؤں کے کہر" محسوس کر رہے تھے۔ پہلے دماغ مصر رہا کہ سپورٹس آفس میں بیٹھا جائے مگر وہ دل ہی کیا جو بارش کی بوندوں اور تیز ہوا کو دیکھ کے مچل نہ جائے۔۔۔ یادگار سوئمنگ پول کے باہر کرسیاں لگائی گئیں تو سفیرانِ محبت کو دیکھ کر ہوا نے بھی اپنا رخ بدل لیا اور لگی لطیف روح کی کثیف سوچوں کو شفاف کرنے۔۔۔ بوندوں کی ہمرہی میں کیک کاٹا گیا اور روایتِ دوستاں کے منکر نہ ٹھہریں، اس لئے اسی کیک سے محفل کے دولہا کا چہرہ "کیک و کیک" کیا۔۔۔ اس کارِ خیر میں سب نے کارِ ثواب کی نیت سے حصہ لیا۔


کسی نے کہا تھا
کل ہلکی ہلکی بارش تھی
کل تیز ہوا کا رقص بھی تھا

ہوا رقص کرے، پتوں کی پازیب بجے تو کس کافر کا دل مانے گا خاموش رہنے کو۔۔۔ ہتھیلیوں کی تھاپ پہ شروع ہونے والا سفر دل کی لَے پر یادوں کے سُر سنگیت کے ساتھ لفظوں کی "انتاکشری" کا ہم رکاب ہوا۔جب ہر لہر کے پاؤں سے گھنگھرو لپٹے اور بارش کی ہنسی نے تال پہ پازیب چھنکائے تو بخدا درختوں پہ ستارے اتر آئے۔  المختصر یہ کہ رقص کیا اور کبھی شور مچایا۔۔۔ ہم تھے اور ہمارا "پاگل پن" تھا۔۔۔ خیر وقت کو گزرنا، وہ وقت بھی گزر گیا لیکن جاتے جاتے ہمیں کئی حسین یادیں دے گیا۔۔۔


مگر ان یادوں میں خلش رہی کہ سر عمران کا ساتھ میسر نہ آیا۔۔۔ عمران صاحب یاد آئے، دل ماضی کے سفر پر نکل گیا اور دور کہیں سے ذہن میں جھماکا اور ہاتھ جھلمل جھلمل کرتے برقی کی بورڈ پہ چلنے لگے۔۔۔ استادِ مہربان کے لئے خاکسار کا ایک شعر
کتنا یاد آتے ہیں
بارش، چائے اور تم


 اگلے برس بھی ستائیس جون آئے گی،  ہم نجانے کہاں ہوں گے مگر یہ یادیں اُس روز بھی یہ موسم، یہ محفل یاد دلائیں گی۔۔۔ جیسے پچھلی سترہ جون کو ہم کامسیٹس میں تھے، کالج میں سائیکل اسٹینڈ کے باہر کیک کاٹا اور اِس بار عثمان بھائی کے گھر۔۔۔ جیسے اس بار میں اور عثمان بھائی پچھلی سالگرہ کی یادوں کو تازہ کرتے رہے، اگلے سال یقیناً ہم سب کریں گے مگر اس امید کے ساتھ کہ یہ محفلیں کبھی ختم نہیں ہوں گی، محبتوں کو نہ کبھی زوال آیا نہ آئے گا۔۔۔ہسٹری سوسائٹی کی اس غیر رسمی ملاقات کے  اختتام پہ بشیر بدر یاد آ گئے

کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں
کوئی بارش ہو یہ کاغذ ذرا بھی نم نہیں ہوتا











 (محمد بلال اعظم)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px