عابد کی سال گرہ کا احوال

یوں تو کالج میں کئی بار گرم لُو کے تھپیڑے کھائے اور بارہا بارش کی بوندوں کو کوریڈور میں، الیکٹرانکس لیب کی کھڑکی کے پاس، کبھی روز گارڈن میں، کبھی سنکنگ گارڈن میں کچھ حسین دوستوں کی پُر لطف قربت میں محسوس کیا مگر جو مزہ 27 جون کی بارش میں بھیگنے کا آیا، دل اُس سے پہلے نا آشنا تھا۔

بارش کی ایک ہی منزل ہے۔۔۔ دل کی لائبریری۔۔۔ کاغذ کی کشتی، بارش کا پانی۔۔۔من آنگن میں۔۔۔  وہ ہنستے ہنستے رونے لگتی تھی، دھوپ میں بارش ہونے لگتی تھی۔۔۔ ایسے میں کچھ دکھ بھی خودرو پودوں کی طرح باہر آ جاتے مگر یہ اداسی بھی تو دل مندر کی داسی ہے۔۔۔ لطیف اور حسین۔۔۔ بارش صرف یادوں میں ہی نہیں، کھانے پینے کی چیزوں اور خیالوں میں بھی برکت ڈال دیتی ہے۔۔۔ خیال، جن کی رفتار بارش کی بوندوں کو بھی مات دے دے۔ یہ بارش بھی تو سرما کی چاندنی جیسی ہے کہ خوابوں کو مزید اُجلا کر دیتی ہے۔ کتنے ہی آفاق دوستوں کے ساتھ گزری یادوں کے حیرت کدہ میں گم ہو جاتے ہیں! دل کے شہرِ پُر فن میں احبابِ دل نگار موجود ہوں تو بارش کی بوندیں خیال و فکر کی تجسیم و تخلیق کا لمحہ عطا کرتی ہیں اور اگر ان میں کسی ایک کے لئے کوئی لمحہ خاص ہو تو وہی بوندیں متاعِ یقین کے اسباب مہیا کرتی ہیں، رم جھم ایسا احساس مہیا کرتی ہے جیسے پانی میں محبت کا امرت گھلا ہوا اور تقدیس و محبت کے تمام "عابد" و "شاہد" فرشتے اس منظر کی گواہی دینے خود آئے ہوئے ہوں۔


بچپن سے سنتے آئے ہیں
اے ابرِ کرم آج اتنا برس۔۔۔۔ کہ وہ جا نہ سکیں
جبکہ ستائیس جون کی رات اس قدر اثر انگیز و حیرت ناک تھی کہ دل نے بے ساختہ صدا دی
اے ابرِ کرم آج اتنا برس۔۔۔ کہ "ہم" جا نہ سکیں


جہاں رونقِ محفل عابد و شاہد ہوں، محفلِ دوستاں کو منور کریں استادِ مَن مطیع الرحمان، یارِ دلآویز و مونسِ جاں عثمان بھائی، ارشد ، ضرغام اور عدنان ہوں وہاں مجھ تشنہ لباں سمیت سب ہی آسمانِ ہنر کے اُس پار "شفیق چہروں کی صبیح آنکھوں سے پھوٹتی دعاؤں کے کہر" محسوس کر رہے تھے۔ پہلے دماغ مصر رہا کہ سپورٹس آفس میں بیٹھا جائے مگر وہ دل ہی کیا جو بارش کی بوندوں اور تیز ہوا کو دیکھ کے مچل نہ جائے۔۔۔ یادگار سوئمنگ پول کے باہر کرسیاں لگائی گئیں تو سفیرانِ محبت کو دیکھ کر ہوا نے بھی اپنا رخ بدل لیا اور لگی لطیف روح کی کثیف سوچوں کو شفاف کرنے۔۔۔ بوندوں کی ہمرہی میں کیک کاٹا گیا اور روایتِ دوستاں کے منکر نہ ٹھہریں، اس لئے اسی کیک سے محفل کے دولہا کا چہرہ "کیک و کیک" کیا۔۔۔ اس کارِ خیر میں سب نے کارِ ثواب کی نیت سے حصہ لیا۔


کسی نے کہا تھا
کل ہلکی ہلکی بارش تھی
کل تیز ہوا کا رقص بھی تھا

ہوا رقص کرے، پتوں کی پازیب بجے تو کس کافر کا دل مانے گا خاموش رہنے کو۔۔۔ ہتھیلیوں کی تھاپ پہ شروع ہونے والا سفر دل کی لَے پر یادوں کے سُر سنگیت کے ساتھ لفظوں کی "انتاکشری" کا ہم رکاب ہوا۔جب ہر لہر کے پاؤں سے گھنگھرو لپٹے اور بارش کی ہنسی نے تال پہ پازیب چھنکائے تو بخدا درختوں پہ ستارے اتر آئے۔  المختصر یہ کہ رقص کیا اور کبھی شور مچایا۔۔۔ ہم تھے اور ہمارا "پاگل پن" تھا۔۔۔ خیر وقت کو گزرنا، وہ وقت بھی گزر گیا لیکن جاتے جاتے ہمیں کئی حسین یادیں دے گیا۔۔۔


مگر ان یادوں میں خلش رہی کہ سر عمران کا ساتھ میسر نہ آیا۔۔۔ عمران صاحب یاد آئے، دل ماضی کے سفر پر نکل گیا اور دور کہیں سے ذہن میں جھماکا اور ہاتھ جھلمل جھلمل کرتے برقی کی بورڈ پہ چلنے لگے۔۔۔ استادِ مہربان کے لئے خاکسار کا ایک شعر
کتنا یاد آتے ہیں
بارش، چائے اور تم


 اگلے برس بھی ستائیس جون آئے گی،  ہم نجانے کہاں ہوں گے مگر یہ یادیں اُس روز بھی یہ موسم، یہ محفل یاد دلائیں گی۔۔۔ جیسے پچھلی سترہ جون کو ہم کامسیٹس میں تھے، کالج میں سائیکل اسٹینڈ کے باہر کیک کاٹا اور اِس بار عثمان بھائی کے گھر۔۔۔ جیسے اس بار میں اور عثمان بھائی پچھلی سالگرہ کی یادوں کو تازہ کرتے رہے، اگلے سال یقیناً ہم سب کریں گے مگر اس امید کے ساتھ کہ یہ محفلیں کبھی ختم نہیں ہوں گی، محبتوں کو نہ کبھی زوال آیا نہ آئے گا۔۔۔ہسٹری سوسائٹی کی اس غیر رسمی ملاقات کے  اختتام پہ بشیر بدر یاد آ گئے

کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں
کوئی بارش ہو یہ کاغذ ذرا بھی نم نہیں ہوتا











 (محمد بلال اعظم)

شئیر کیجیے

Ads 468x60px