محترم غلام سرور صاحب، جو سرور مجاز کے قلمی نام سے لکھتے تھے، کی
ایک بہت خوبصورت غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر
اُس سمت چلے ہو تو بس اتنا اُسے کہنا
اب کوئی نہیں حرفِ تمنّا، اُسے کہنا
اب کوئی نہیں حرفِ تمنّا، اُسے کہنا
اُس نے ہی کہا تھا تو یقیں میں نے کیا تھا
امّید پہ قائم ہے یہ دنیا، اُسے کہنا
دنیا تو کسی حال میں جینے نہیں دیتی
چاہت نہیں ہوتی کبھی رسوا، اُسے کہنا
زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
دریا ہی بدل لیتے ہیں رستا، اُسے کہنا
وہ میری رسائی میں نہیں ہے تو عجب کیا
حسرت بھی تو ہے عشق کا لہجہ، اُسے کہنا
کچھ لوگ سفر کے لئے موزوں نہیں ہوتے
کچھ راستے کٹتے نہیں تنہا، اُسے کہنا
(سرور مجاز)
4 Response to "اُس سمت چلے ہو تو بس اتنا اُسے کہنا"
بہت خوبصورت۔۔۔۔ یہ غزل کئی بار پڑھی ہے۔ لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ سرور مجاز صاحب کی ہے۔ شکریہ بلال۔ :)
@نیرنگ خیال
شکریہ نین بھیا
سرور صاحب کی اسی غزل نے انہیں ذہنوں سے محو نہیں ہونے دیا۔
وہ میری رسائی میں نہیں ہے تو عجب کیا
حسرت بھی تو ہے عشق کا لہجہ، اُسے کہنا
بہت خُوب
مختلف ناموں سے یہ غزل پڑھی ہے
آج اس کے اصل تخلیق کار کا نام معلوم ہوا
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔