نئے سال کی آمد ہے


سب حمد و ثنا تیرے لیے ہے مرے مولا
تو وہ ہے کہ جس نے مجھے توفیقِ ہنر دی
قرطاس پہ لفظوں کے دیے تُو نے جلائے
پھر تُو نے مجھے روشنئ فکر و نظر دی
میں ذرۂ کمتر تھا مگر تیرے کرم نے
اک وسعتِ صحرا مجھے تا حدِّ نظر دی

اپنی تمام تر رنگینیاں، خوشیاں اور پریشانیاں، اداسیاں اپنے دامن میں سمیٹے یہ سال بھی آج ہم سے رخصت ہو جائے گا۔
اپنی زندگی کے اٹھارہ سال گزارنے کے بعد جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ایک طرف اداسی کا خار زار ہے جبکہ دوسری طرف امید و یقین کا لہلہاتا ہوا سبزہ زار ہے۔ جہاں یہ سال بہت سے دکھ دے کر گیا وہیں بہت سی خوشیاں بھی اپنے دامن میں سمیٹ کر لایا۔
گو کہ اس سال بہت سے گہرے صدمات سے بھی گزرنا پڑا۔ جن میں پہلے بڑی ممانی اور پھر بڑے ماموں کی اچانک وفات ہے (اللہ پاک اُن کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اُن پہ اپنی رحمتیں نچھاور کرے ۔ آمین!) مگر پھر بھی شکر ہے اُس پاک رب کا کہ جس نے ہمیں صبرِ جمیل کی توفیق دی۔ لیکن پھر بھی اُن کی یاد تو مٹائے نہیں مٹتی دل سے۔ ان لمحات میں مجھے واصف علی واصف صاحب بہت یاد آئے، جو اکثر کہا کرتے تھے کہ "خوش نصیب وہ ہے، جو اپنے نصیب پہ خوش ہے"۔
لیکن اس سال میں نے بہت کچھ حاصل بھی کیا۔ جن میں کئی تعلیمی کامیابیاں بھی شامل ہے۔ سر علامہ اقبالؒ فورم کی بنیاد بھی اسی سال رکھی گئی۔ جو آہستہ آہستہ ایک تناور درخت بنتا جا رہا ہے اور پھل دے رہا ہے۔ سر علامہ اقبالؒ فورم پیج، سر علامہاقبالؒ فورم گروپ، علامہ اقبالؒ ڈاٹ پی کے، مجھے ہے حکمِ اذان میگزین کہ جس سے بے شمار لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مَیں جناب عاطف سعید بھائی، جناب شکیل احمدچوہان بھائی، جناب افتخار کھوکر صاحب، جناب دانش ضیا اقبالی بھائی اور جناب سہیل رضا ڈھوڈی صاحب کا بیحد مشکور ہوں کہ ان سب کے بغیر یہ مشن کبھی بھی شروع نہیں ہو سکتا تھا خاص طور پہ عاطف سعید بھائی کہ جن کی دن رات کی محنت و لگن کے باعث سر علامہ اقبالؒ فورم دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔
میرا بلاگ نقشِ فریادی جو کہ کسی دور میں نوائے پریشاں ہوا کرتا تھا، وہ بھی اسی سال وجود میں آیا۔اسی سال مجھے جناب محترم اعجاز عبید صاحب ، جناب یعقوب آسی صاحب، جناب سرور عالم راز صاحب اور جناب فاروق درویش صاحب، جناب محمد وارث صاحب کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔
اس کے علاوہ بہت سے نئے دوست بھی بنے۔ جن میں یاسر حنیف سرِ فہرست ہے۔ اور مغزل بھائی، اسد قریشی صاحب، اویس بھائی، نیرنگ خیال بھائی، انیس الرحمن بھائی، عاطف بٹ بھائی، بابا جی، حسیب بھائی، قیصرانی انکل کے ساتھ ساتھ جناب سید زبیر صاحب، جناب طارق شاہ صاحب، جناب الف نظامی صاحب، جناب یوسف صاحب، شمشاد بھائی، اور وہ بھی کہ جن کے نام اس وقت یاد نہیں آ رہے، ان سب سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور دیکھا جائے تو سیکھنے کے معاملے میں یہ سال میرے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر، جو چیز ہمیں زندگی میں سب سے پریشان کرتی ہے، وہ خود ہماری پریشانیاں ہی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل سے لگا لینا بڑی بڑی بیماریوں اور غموں کا سبب بنتا ہے اور پھر یہی غم انسان کو موت کی نیند سُلا دیتے ہیں۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے کہ
اداسیوں کا سبب کیا کہیں بجز اس کے
کہ زندگی ہے پریشانیاں تو ہوتی ہیں
ہمیں پریشانیوں کو اپنے مضبوط ارادوں سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے.
شاعرِ مشرق نے کیا خوب کہا ہے کہ
ارادے جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
اس چھوٹی سی نظم کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں کہ
نئے سال کی آمد ہے
زندگی پھر بھی جامد ہے
آؤ اس زندگی کو رواں کر دیں
ناکامیوں کو ناکام کر دیں
نئے سال کی آمد پر
 نئی زندگی کا آغاز کر دیں

ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے



ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے 
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے 

ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے 
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے 

میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ 
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے 

آخرش دربدری قیس کی اب ختم ہوئی
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے 

رسم کچھ ایسی چلی موسم گل میں کہ یہاں 
سب نے مانگے بھی تو بس خون کے پیالے مانگے 

جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال 
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے 

(محمد بلال اعظم)



بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن

اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
اس بحر میں پہلے رکن یعنی فاعلاتن ( 2212 ) کی جگہ فعلاتن ( 2211 ) اور آخری رکن فعلن (22) کی جگہ , فعلان ( 122)، فَعِلن (211 ) اور فَعِلان (1211) بھی آ سکتا ہے۔
یوں اس بحر کی ایک ہی غزل یا نظم میں درج کردہ یہ آٹھ اوزان ایک ساتھ استعمال کرنے کی عروضی گنجائش موجود ہے ۔


ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے 
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے 
22-2211-2211-2212

ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے 
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے 
22-2211-2211-2212

میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ 
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے 
22-2211-2211-2212

آخرش دربدری قیس کی اب ختم ہوئی
211-2211-2211-2212
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے 
22-2211-2211-2212

رسم کچھ ایسی چلی موسم گل میں کہ یہاں
211-2211-2211-2212
سب نے مانگے بھی تو بس خون کے پیالے مانگے 
22-2211-2211-2212

جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال
1211-2211-2211-2212
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے 
22-2211-2211-2212

تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے از شان الحق حقّی


شان الحق حقی کی غزل:
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے



دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب
زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے

ہم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق
کم نگاہی کے لیے عذر نا چاہے جاتے

کاش اے ابرِ بہاری! تیرے بہکے سے قدم
میری امید کے صحرا بھی گاہے جاتے

ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال
ہم بھی ہر لغزش مستی کو سراہے جاتے

لذت درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہے فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے

دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ
اور کچھ دن غم ہستی سے نبھائے جاتے

ایک زمین۔۔۔دو شاعر (احمد فراز، نصیر ترابی)۔۔۔ دو غزلیں


ایک زمین۔۔۔دو شاعر (احمد فراز، نصیر ترابی)۔۔۔ دو غزلیں 

احمد فراز کی غزل:
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے



شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں‌بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے

اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے


نصیر ترابی کی غزل:
دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے



دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقشِ پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے

تھی کبھی راہ جو ہمراہ گزرنے والی
اب حذر ہوتا ہے اس رات سے آتے جاتے

شہرِ بے مہر کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
ایک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے

پارۂ ابر گریزاں تھے کہ موسم اپنے
دُور بھی رہتے مگر پاس بھی آتے جاتے

ہر گھڑی اک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے

اُ س کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ

ماہرِ اقبالیات علامہ پروفیسر محمد مظفر مرزا اب ہم میں نہیں رہے





جناب محترم سہیل رضا ڈھوڈی صاحب کی جانب سے آج ایک نہایت افسوسناک خبر موصول ہوئی۔
ممتاز دانشور اور ماہر اقبالیات، بزم اقبالؒ حکومت پنجاب کے کنسلٹنٹ، معروف کالم نگار علامہ پروفیسر محمد مظفر مرزا کو گزشتہ روز سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی 
میں قبرستان میانی صاحب میں سپردخاک کردیا گیا۔ مرحوم کی نمازجنازہ دفتر بزم اقبال متصل ایوان کارکنان تحریک پاکستان، 100شاہراہ قائداعظمؒ لاہور مادر ملتؒ پارک میں صبح گیارہ بجے ادا کی گئی۔ سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف حضرت پیر سید محمد کبیر علی شاہ گیلانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔

ذرّہ ذرّہ میں اسی کو جلوہ گر سمجھا تھا میں از مولانا اصغر حسین اصغرؔ گونڈوی



ذرّہ ذرّہ میں اسی کو جلوہ گر سمجھا تھا میں
عکس کو حیرت میں آئینہ مگر سمجھا تھا میں

دید کیا، نظارہ کیا، اس کی تجلّی گاہ میں
وہ بھی موجِ حسن تھی جس کو نظر سمجھا تھا میں



پھر وہی واماندگی ہے، پھر وہی بیچارگی
ایک موجِ بوئے گُل کو بال و پر سمجھا تھا میں

یہ تو شب کو سر بسجدہ ساکت و مدہوش تھے
ماہ و انجم کو تو سر گرمِ سفر سمجھا تھا میں

دہر ہی نے مجھ پہ کھولی راہ بے پایانِ عشق
راہبر کو اک فریب رہ گذر سمجھا تھا میں

کتنی پیاری شکل اس پردے میں ہے جلوہ فروز
عشق کو ژولیدہ مو، آشفتہ سر سمجھا تھا میں

تا طلوعِ جلوۂ خورشید پھر آنکھیں ہیں بند
تجھ کو اے موجِ فنا، نورِ سحر سمجھا تھا میں

مست و بیخود ہیں مہ و انجم، زمین و  آسماں
یہ تری محفل تھی جس کو رہگذر سمجھا تھا میں

ذرّہ ذرّہ ہے یہاں کا رہرو راہِ فنا
سامنے کی بات تھی جس کو خبر سمجھا تھا میں

پتّے پتّے پر ہے چمن کی وہی چھائی ہوئی
عندلیبِ زار کو اک مشت پر سمجھا تھا میں

کائنات دہر ہے سرشارِ اسرارِ حیات
ایک مست آگہئ کو بے خبر سمجھا تھا میں

جان ہے محوِ تجلّی، چشم و گوش و لب ہیں بند
حسن کو حسنِ بیاں، حسنِ نظر سمجھا تھا میں

میں تو کچھ لایا نہیں اصغرؔ بجز بے مائیگی
سر کو بھی اس آستاں پر، درد سر سمجھا تھا میں

مہرو انجم کو نشانِ لامکاں سمجھا تھا میں از اسد قریشی


علامہ محمد اقبالؒ کی زمین میں اسد قریشی صاحب کی غزل:
علامہ محمد اقبالؒ کی مشہورِ زمانہ غزل " اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں" کی زمین میں اسد قریشی صاحب کی خوبصورت غزل

مہرو انجم کو نشانِ لامکاں سمجھا تھا میں
”اس زمین وآسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں“



کتنے عالم ہیں نہاں جن کو کہاں سمجھا تھا میں
اب تک اس سارے جہاں کو کہکشاں سمجھا تھا میں

کس طرح سے میں سمجھتا زندگی کے پیچ وخَم
درحقیقت خوُد کو بھی اب تک کہاں سمجھا تھا میں

دوستوں سے بے خبر تھا دشمنوں کی کھُوج میں
قتل میں شامل تھے جن کو رازداں سمجھا تھا میں

بے اماں پھرتا رہا شام و سحر جس شہر میں
خونِ دل ہوتا رہا جائےِ اماں سمجھا تھا میں

بھُولنا تُجھ کو مری جاں ایسا مشکل بھی نہ تھا
ایک ہچکی تھی جسے کوہِ گَراں سمجھا تھا میں

ایک زمین۔۔۔دو شاعر (علامہ اقبالؒ، عبد الحئ عارفی)۔۔۔دو غزلیں


ایک زمین۔۔۔دو شاعر (علامہ اقبالؒ، عبد الحئ عارفی)۔۔۔دو غزلیں


علامہ اقبالؒ کی غزل:
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں

بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں



کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

کہہ گئیں راز محبت پردہ داریہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں

تھی کسی درماندہ رہرو کی صداۓ درد ناک
جس کو آواز رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں



مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحئ عارفیؔ کی غزل:

عیشِ بزمِ دوست، عیشِ جاوداں سمجھا تھا میں
یہ بھی اک خوابِ سحر ہے یہ کہاں سمجھا تھا میں

مجھ کو اپنی بیخودی کا وہ بھی عالم یاد ہے
جب کسی کو اپنے دل میں مہماں سمجھا تھا میں




لذتِ درد نہاں بھی بارِ خاطر تھی مجھے
کچھ اسے بھی اک حجابِ درمیاں سمجھا تھا میں

یادِ عہدِ آرزو بھی رفتہ رفتہ مٹ گئی
اور اسی کو حاصلِ عمرِ رواں سمجھا تھا میں

کیا غلط تھا اے دلِ نا عاقبت اندیش اگر
ان سے امیدِ وفا کو رائیگاں سمجھا تھا میں

منزلِ ذوقِ طلب میں، جادۂ ہستی سے دور
تم وہیں آخر ملے مجھ کو جہاں سمجھا تھا میں

رفتہ رفتہ ہو گئی برہم زن صبر و قرار
یاد اُن کی باعث تسکیں جاں سمجھا تھا میں

اللہ اللہ تھی انہیں کے پائے نازک پر جبیں
بیخودی میں سجدہ گہ کو آستاں سمجھا تھا میں

دل کی باتیں ان سے کہہ دیں اس طرح دیوانہ وار
جیسے ان کو اپنے دل کا راز داں سمجھا تھا میں

عارفیؔ کیا مجھ پہ ہوتا رنج و راحت کا اثر
زندگی کو دھوپ چھاؤں کا سماں سمجھا تھا میں

شئیر کیجیے

Ads 468x60px