فیض احمد فیض کی ایک نایاب نظم


فیض احمد فیض کی ایک نظم جو انکے کسی بھی مجموعۂ کلام میں نہیں ہے

اکتوبر انقلابِ روس کی سالگرہ

مرغِ بسمل کی مانند شب تلملائی
افق تا افق
صبح کی پہلی کرن جگمگائی
تو تاریک آنکھوں سے بوسیدہ پردے ہٹائے گئے
دل جلائے گئے
طبق در طبق
آسمانوں کے در
یوں کھلے ہفت افلاک آئینہ سا ہو گئے
شرق تا غرب سب قید خانوں کے در
آج وا ہو گئے
قصرِ جمہور کی طرحِ نَو کے لئے آج نقشِ کہن
سب مٹائے گئے
سینۂِ وقت سے سارے خونیں کفن
آج کے دن سلامت اٹھائے گئے
آج پائے غلاماں میں زنجیرِ پا
ایسے چھنکی کہ بانگِ درا بن گئی
دستِ مظلوم ہتھکڑی کی کڑی
ایسے چمکی کہ تیغِ فضا بن گئی
(ماسکو۔ 5 نومبر 1967)

1 Response to "فیض احمد فیض کی ایک نایاب نظم"

Anonymous said... Best Blogger Tips[کمنٹ کا جواب دیں]Best Blogger Templates

احمر
بہت شکریہ

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px