غزل
جان تیری، جہان تیرا ہے
دل کہاں ہے ،مکان تیرا ہے
فصل سود و زیاں کی میری ہے
فصلِ غم کا لگان تیرا ہے
کوئی بھی آسرا نہیں دیتا
کیا زمیں، آسمان تیرا ہے
تھے جو مشکل سوال، سب میرے
پیش اب امتحان تیرا ہے
ہم غریبوں کے آستانے کے
سامنے، آستان تیرا ہے
گھر ہو، مے خانہ ہو کہ محفل ہو
ہر جگہ ہم کو دھیان تیرا ہے
توڑ دی ہیں قیودِ جسم و جاں
دل کو پھر بھی گمان تیرا ہے
مے کدے کو بلال گھر ہی سمجھ
ایک یہ بھی مکان تیرا ہے
(محمد بلال اعظم)
(اصلاح کردہ: اعجاز عبید صاحب)
2 Response to "جان تیری، جہان تیرا ہے"
اچھا لکھا ہے چند ایک تو لا جواب ہیں
علی صاحب بہت بہت شکریہ۔ بہت ممنون ہوں آپ کا۔
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔