شور ہے ہر طرف سحاب سحابساقیا! ساقیا! شراب! شرابآبِ حیواں کو مَے سے کیا نسبت!پانی پانی ہے اور شراب شراب!رند بخشے گئے قیامت میںشیخ کہتا رہا حساب حساباک وہی مستِ با خبر نکلاجس کو کہتے تھے سب خراب خرابمجھ سے وجہِ گناہ جب پوچھیسر جھکا کے کہا شباب شبابجام گرنے لگا، تو بہکا شیختھامنا ! تھامنا! کتاب! کتاب!کب وہ آتا ہے سامنے کشفیجس کی ہر اک ادا حجاب حجاب(کشفی ملتانی)
ساغر صدیقی اردو شاعری کا ایک معتبر اور قدآور نام
9/18/2012 10:00:00 am
Unknown
ساغر صدیقی1928ءانبالہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنا بچپن سہارنپور اور انبالہ میں گزرا ۔ساغر صدیقی کا اصل نام محمداختر شاہ تھا اور وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے ۔
ساغر صدیقی نے ایک مرتبہ کہا تھا:
"میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں"
اس قول میں صرف ایک معمولی غلطی کے سوا اور سب سچ ہے۔"
ساغر کو اپنے اکلوتے ہونے کا بھی بہت رنج تھا، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
"میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں کہ خدا کو اِس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟ بہر حال شاید میری تسکینِ قلبی کے لئے کسی کا نام بھائی رکھ دیا گیا ہوجو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پہ نظر رکھنے والے صاحبِ فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہوا بازو کالی چادر میں چھپائے، احساس کے الٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔اگر کوئی بہن بھائی ہوتا تو یہ حال نہ ہوتا۔"
ساغر کا بچپن انتہائی نا مساعد حالات میں گزرا۔ ساغر نے حبیب حسن خاں سے گھر پہ ہی اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دور میں ساغر میں شاعری کا جذبہ پروان چڑھا جس نے محمد اختر شاہ کو ساغر صدیقی بنا دیا۔ ساغر نے ابتدا میں ناصر حجازی تخلص رکھا تھا مگر بعد میں ساغر صدیقی رکھ لیا۔ ساغر نے کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔ساغر نے امرتسر میں کنگھیاں بنانے کا کام بھی کیا۔
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ "لڑکا" (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلا گیا۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے اسے گیتوں کی فرمائش کی اور اسے حیرت ناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ساغر نے لکھا تھا کہ
"تقسیم کے بعدصرف شعر لکھتا ہوں، شعر پڑھتا ہوں، شعر کھاتا ہوں، شعر پیتا ہوں۔"
ساغر کی شاعری کے سلسلے میں ایک واقعہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ:
لائل پور کاٹن مل میں ملک گیر طرحی مشاعرہ ہوتا تھا۔ 1958ء میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ مصرع طرح تھا
سجدہ گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں
مختلف شعراء کے بعد ساغر صدیقی نے اپنی یہ غزل سنائی
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
یہ غزل سن کر جگر جھوم اٹھے اور حاضرین محفل نے خوب داد دی ۔ جگر مرادآبادی نے اپنی باری آنے پر کہا کہ میری غزل کی ضرورت نہیں حاصل مشاعرہ غزل ہو چکی اور اپنی غزل کو اسیٹج پر ہی پھاڑ دیا۔
ساغر صدیقی نے ہفت روزہ "تصویر" کی ادارت بھی کی۔
ایک اور واقعہ جو وکیپیڈیا سے لیا گیا ہے، پڑھنے اور ساغر کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے قابل ہے۔
ایک اور واقعہ جو وکیپیڈیا سے لیا گیا ہے، پڑھنے اور ساغر کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے قابل ہے۔
اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں محمد ایوب بر سر اقتدار آگئے اور تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں جن کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ حرف غلط کی طرح فراموش کر دیے گئے۔ لوگ اس تبدیلی پر واقعی خوش تھے۔ ساغر نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے، اس میں ایک مصرع تھا:
کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا! پولیس اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آگیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ نہ لگا۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے۔ پوچھ گچھ کرتے کرتے سر شام پولیس نے اسے پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے دیکھ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہ پان میں قوام ذرا ذیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔ ساغر نے کہا:
بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر" یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:
ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے ذیادہ ہے۔ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
(ساغر صدیقی بقلم خود)
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
(ساغر صدیقی بقلم خود)
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:
یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے اور اپنی راہ چلا گیا۔
ساغر صدیقی نے بہت سنہری دور دیکھا تھا مگر پھر وہ آہستہ آہستہ نشے کی دلدل میں ایسے پھنسا کہ پھر باہر نہ نکل سکا اور دنیا نے اُسے فراموش کر دیا۔ ساغر اس لت میں کیسے پڑا، یہ ہمیں وکیپیڈیا کچھ اس طرح بتاتا ہے کہ:
1952ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔
اس زمانے میں وہ انارکلی لاہور میں ایک دوست کے والد (جو پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے) مطب کی اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ اسی کمرے میں ان کے ساتھ ایک دوست بھی مقیم تھے (اب نام کیا لکھوں) ان صاحب کو ہر طرح کے نشوں کی عادت تھی۔ ہوتی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ان کی صحبت میں ساغر بھی رفتہ رفتہ اولا بھنگ اور شراب اور ان سے گزر کر افیون اور چرس کے عادی ہوگئے۔ اگر کوئی راہ راست سے بھٹک جائے اور توفیق ایزدی اس کی دستگیری نہ کرے، تو پھر اس کا تحت الثری سے ادھر کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔
یہی ساغر کے ساتھ ہوا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر ان کے ساتھ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اورمارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو آنا جانا چھوڑ دیا۔ اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت "بے خود" رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور بالکل آوارہ ہوگیا۔ نوبت بايں رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک ہی میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پاؤں۔۔۔۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹلیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دوکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا۔
اب اس کی یہ عادت ہو گئی کہ کہیں کوئی اچھے وقتوں کا دوست مل جاتا تو اس سے ایک چونی طلب کرتا۔ اس کی یہ چونی مانگنے کی عادت سب کو معلوم تھی چنانچہ بار بار ایسا ہوا کہ کسی دوست نے اسے سامنے سے آتے دیکھا اور فورا جیب سے چونّی نکال کر ہاتھ میں لے لی۔ پاس پہنچے اور علیک سلیک کے بعد مصافحہ کرتے وقت چونی ساغر کے ہاتھ میں چھوڑ دی۔ وہ باغ باغ ہو جاتا۔ یوں شام تک جو دس بیس روپے جمع ہو جاتے، وہ اس دن کے چرس اور مارفیا کے کام آتے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔ فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنے لگا۔ اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیں مانگے گا۔ساغر صدیقی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرے۔اور ان کی وفات بھی اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔
ساغر کی تاریخَ وفات کے متعلق میں نے کچھ کتابوں میں 18 جولائی پڑھا ہے جبکہ وکیپیڈیا پہ 19 جولائی لکھا ہوا ہے۔ اگر کسی علم میں درست تاریخ ہو تو مطلع فرمائیں۔ بہرحال جولائی 1974ءصبح کے وقت اس کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون!
ساغر کے شعری مجموعوں میں غمِ بہار، زہرِ آرزو، لوحِ جنوں، شبِ آگہی اور سبز گنبد شامل ہیں۔
ساغر صدیقی کہا کرتے تھے کہ "لاہور میں بہت قیمتی خزانے دفن ہیں مگر انہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا سکتا ۔" اور بے شک ساغر صدیقی بھی انہی خزانوں میں سے ایک ہیں۔
ساغر صدیقی کی کچھ تصاویر جو گوگل سے لی گئی ہیں۔
جناب شاہد دہلوہی صاحب کی طرف سے ساغر صدیقی کا خود نوشت شعری عکس بھی موصول ہوا۔ جس پہ میں اُن کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں۔
(نوٹ: یہ مضمون مختلف ویب سائٹس اور کتابوں سے لیکر ترتیب دیا گیا ہے)
Posted in
اردو شعراء,
ساغر صدیقی
مرے لئے.....!
9/17/2012 10:01:00 am
Unknown
مرے لئے.....!
جب عکس عکس گنوا دیا
کبھی رُو بُرو تھی مرے لئے
جب نقش نقش بجھا دیا
کبھی چار سُو تھی مری لئے
جو حدِ ہَوا سے بھی دُور ہے
کبھی کُو بکُو تھی مری لئے
جو تَپش ہے مَوجِ سراب کی
کبھی آبجُو تھی مری لئے
جِسے "آپ" لکھتا ہُوں خط میں اَب
کبھی صرف "تُو" تھی مری لئے
(محسن نقوی)
(رختِ شب)
(رختِ شب)
Posted in
محسن نقوی
نہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر
9/17/2012 09:45:00 am
Unknown
غزل
نہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر
جو سنائی دے اُسے چپ سِکھا جو دکھائی دے اُسے خواب کر
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا!
جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تِھل کا مزاج دے کبھی چشمِ تِر کو چناب کر
یہ ہُجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی،
مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر
یہ جُلوسِ فصلِ بہار ہے تہی دست، یار، سجا اِسے
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر
(محسن نقوی)
(رختِ شب)
(رختِ شب)
Posted in
محسن نقوی
خوشبو ہے، دھنک ہے چاندنی ہے
9/17/2012 09:18:00 am
Unknown
غزل
خوشبو ہے، دھنک ہے چاندنی ہے
وہ اچھے دِنوں کی شاعری ہے
وہ اچھے دِنوں کی شاعری ہے
بھیگے ہوئے پھُول حرف اُس کے
رِم جِھم کی زباں میں بولتی ہے
ہاتوں میں تھکن ہے شام جیسی
لہجے میں سَحر کی تازگی ہے
یہ اُس کی صدا کا بھولپن ہے!
یا شمعِ سخن پگھل رہی ہے؟
یا شمعِ سخن پگھل رہی ہے؟
چہرے یہ حیا کا روپ، جیسے
دریا میں شفق سی گھُل گئی ہے
آنکھوں میں گلاب کھِل رہے ہیں
کیا جانے وہ کب سے جاگتی ہے؟
برسا ہے خمار چاندنی کا!
یا اُس کی جبیں دَمک اُٹھی ہے؟
کیا جانے وہ کیسے مُسکرائی؟
ہیرے سے کرن سی چھَن پڑی ہے!
چہرے پہ بکھر کے زُلف اُس کی
سوُرج سے خراج مانگتی ہے
وہ محوِ خرام یوں ہے۔۔ جیسے
اِک شاخ ہوا سے کھیلتی ہے
پَل بھر کو سَرک گیا جو آنچل
کلیوں کی طرح سمٹ گئی ہے
پروا ہی نہیں ا ُسے کسی کی
اپنے سے وہ کتنی اجنبی ہے!
آئینہ ہی دیکھتا ہے اُس کو
آئینہ کہاں وہ دیکھتی ہے؟
وہ غنچہ دَہن "سکوت زادی"
کھلنے پہ بھی کم ہی بولتی ہے
میں اُس کے بغیر کچھ نہ سوچوں
شاید وہ یہ بات سوچتی ہے
میں اُس کی انا کا بانکپن ہوں
وہ میری غزل کی دلکشی ہے
میں گرم رتوں کی لَو کا موسم
وہ سَرد رتوں کی سادگی ہے
اے خَلوتَیانِ مہ جبیناں!
وہ آپ ہی اپنی آگہی ہے!
اے مُشتریانِ حُسنِ عالَم
وہ دونوں جہاں سے قیمتی ہے
میں اُس کی رفاقتوں پہ نازاں
محسنؔ وہ غرورِ دوستی ہے
سو بار میں اُس سے کھو گیا ہوں
ہنستی ہوئی پھر سے مل گئی ہے
محسنؔ یہ نہ کُھل سکے گا مجھ پہ
وہ فن ہے کہ فن کی زندگی ہے!
(محسن نقوی)
(طلوعِ اشک)
Posted in
محسن نقوی
باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
9/04/2012 09:12:00 am
Unknown
عبید اللہ علیم کی ایک خوبصورت غزل، جس کے متعلق وہ کچھ یوں کہتے ہیں:
"اس غزل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے بھی تعلق رکھتی ہے اور صنفِ نازک سے بھی تعلق رکھتی ہے مگر اُس کا تعلق ذرا اور طرح کا ہے۔"
غزل
باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہے
پاتال کے دکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ہیں ملنے والے
ہیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ہے
مری عمر کے اک اک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں
جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہے
تو ننھا منا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیارا
تو جلتے جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہے
کیا سوانگ بھرے روٹی کے لیے عزت کے لیے شہرت کے لیے
سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ہے
اک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاری
اے شاعر کس دنیا میں ہے تو تری تنہا دنیا گھر میں ہے
دنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہی
وہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے
(عبید اللہ علیم)
لیکن اس غزل کا زیادہ مزہ تو تب آئے گا جب آپ اسے خود بہ زبانِ شاعر (جناب عبید اللہ علیم) سے سنیں گے، یقین نہ آئے تو سن کے دیکھ لیجیے۔ لیجیے جناب مشاعرہ کی ویڈیو حاضر ہے۔
Posted in
عبید اللہ علیم
Subscribe to:
Posts (Atom)