باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے


عبید اللہ علیم کی ایک خوبصورت غزل، جس کے متعلق وہ کچھ یوں کہتے ہیں:

"اس غزل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے بھی تعلق رکھتی ہے اور صنفِ نازک سے بھی تعلق رکھتی ہے مگر اُس کا تعلق ذرا اور طرح کا ہے۔"

غزل

باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہے

پاتال کے دکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ہیں ملنے والے
ہیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ہے

مری عمر کے اک اک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں
جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہے

تو ننھا منا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیارا
تو جلتے جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہے

کیا سوانگ بھرے روٹی کے لیے عزت کے لیے شہرت کے لیے
سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ہے

اک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاری
اے شاعر کس دنیا میں ہے تو تری تنہا دنیا گھر میں ہے

دنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہی
وہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے
(عبید اللہ علیم)

لیکن اس غزل کا زیادہ مزہ تو تب آئے گا جب آپ اسے خود بہ زبانِ شاعر (جناب عبید اللہ علیم) سے سنیں گے، یقین نہ آئے تو سن کے دیکھ لیجیے۔ لیجیے جناب مشاعرہ کی ویڈیو حاضر ہے۔

No Response to "باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے "

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px