بہتی چاندنی کا بولتا سُکوت


محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں لیکن اس کے ساتھ ہی محسن کی نثر،  جو کہ ان کی کتابوں کے دیباچے کی شکل میں موجود ہے، اس میدان میں بھی محسن کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔
محسن نقوی کی کتاب"رختِ شب" کا دیباچہ انتساب کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔

بہتی چاندنی کا بولتا سُکوت
            میں خواب دیکھتا ہوں، تعبیروں کی جستجو میں جَلتے بَلتے اور چَکنا چُور ہوتے خواب! یہ ٹوٹتے پھوٹتے خواب میری خواہشوں کی اساس بھی ہیں اور میری آنکھوں کا اثاثہ بھی۔ اپنا اثاثہ کِسے عزیز نہیں ہوتا؟ مجھے بھی اپنے خواب بہت عزیز ہیں۔ زندگی کی طرح۔ زندگی کے چہرے پر دہکتے مہکتے رنگوں اور ان رنگوں میں رقص رچاتی خوشبو کی طرح۔



            مجھے یقین ہے جس دن خواب ختم ہو جائیں گے، انسان سونا چھوڑ دے گا۔ کہ رائیگاں اور خالی نیند کا دوسرا نام تو موت ہے۔ زندگی تو خواہشوں، خراشوں، خیالوں اور خوابوں سے عبارت ہے۔
            مجھے سرما کی چاندنی سے اسی لئے اُنس ہے کہ اِس میں دُھل کر خواب کچھ اور اجلے ہو جاتے ہیں۔ اور گرم رُتوں کی دھوپ سے یہ شکایت ہے کہ وہ میری دُکھتی آنکھوں پر سے خوابوں کی پَٹّی کو پگھلا کر رکھ دیتی ہے، اور پھر میری آنکھیں جاگتے دنوں کے الاؤ میں جھلسنے لگتی ہیں، جاگتے دن جو حقیقتوں کے چہرے سے استعاروں کی نقابیں نوچ کر اُن کے خد و خال کا کھُردرا پن اَفشا کر دیتے ہیں۔  خواب بہت میٹھے اور نرم ہوتے ہیں۔بہت ملائم، جبکہ حقیقتیں بہت تلخ ہوتی ہیں، بہت تُند، بہت تیز اور کبھی کبھی بہت عُریاں۔ !حقیقتوں کی تہ میں بکھری ہوئی کڑوی سچائیوں کے ذائقے سے مانوس ہونا میرا منصب سہی۔ مگر ان کی پَرتیں اتارنے کے لئے جتنی زندگیاں صَرف ہوتی ہیں وہ اپنے پاس کہاں؟ میری زندگی تو لمحہ لمحہ سمٹی جا رہی ہے۔ مجھے تو اپنی سانس کی ڈور کا دوسرا سِرا بھی صاف دکھائی دے رہا ہے، مَیں تو حیات تَیر چُکا۔ سامنے دوسرا کنارہ ہے۔ اور دوسرے کنارے سے اُدھر اسرار کا وہ بے کراں محیط ہے۔ جس کی وسعتیں سوچوں کے کئی پاتال پی کر بھی پیاسی ہیں جس کے سینے میں لا تعداد آفاق ہانپ رہے ہیں۔
            میرے حواس محدود ہیں۔اور میں "لا محدود" کی زَد میں ہوں! مجھ پر اسرار کا بے کراں کیا کھُل سکے گا۔؟ کہ میری بینائی تو جہاں تھک کر دم توڑ دیتی ہے، میں اُس سے آگے کی گرد کو آسمان سمجھ کر لَوٹ آتا ہوں! میری سماعت میں جہاں سنّاٹا گونجنے لگتا ہے، مَیں فنا کی چاپ وہیں سے تراشنے لگتا ہوں اور میری آواز جہاں گم ہونے لگتی ہے، مَیں اُس سے آگے "بے سمت خلا" کا پھیلاؤ سوچنے لگتا ہوں، میری عقل سے ماوراء سب کچھ میرے لئے "الجھاؤ" سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ پھر مَیں خواب ہی کیوں نہ دیکھوں؟ جن میں بکھری ہوئی تمام "کائناتیں" میری بینائی کی دسترس میں ہوتی ہیں اور جن کے دامن میں محدود سے لا محدود تک کے تمام فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ مَیں خوابوں سے تعلّق توڑ کر اپنی آنکھوں کو لا محدود کی تیز اور پُر اسرار روشنیوں میں دفن کرنا چاہتا ہوں۔ میرے خواب میری خود کلامی سے بہلتے ہیں اور میری خود کلامی ادھوری خواہشوں کی خود ساختہ تکمیل کا عمل ہے! میں بھولنے والے خوابوں کو بے وفا دوستوں کی یادوں کی طرح لا شعور کے تہ خانے میں "حنوط" کر دیتا ہوں مگر یاد رہ جانے والے خواب بہت "ضدّی" ہوتے ہیں۔ یہ آنکھوں میں چبھتے رہتے ہیں۔ کانچ کی کرچیوں کی طرح۔
            کبھی کبھی تو ان کی "چُبھن" آنکھوں میں گلاب کھِلا دیتی ہے، پھر دل میں اپنی "دُکھن" اُنڈیل کر روح تک میں اپنا اضطراب گھول دیتی ہے!
            یہ "خواب" جب تک آنکھوں میں رہیں محض خواب ہوتے ہیں، مگر جب روح میں اتری ہوئی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو جائیں تو پھر خواب نہیں رہتے، ریزہ ریزہ سچائیوں میں بٹ جاتے ہیں اور کبھی حرف حرف صداقتوں کے صورت گر بن کر سماعتوں اور بصارتوں کے آئینہ خانے میں کرن کرن کھِل اٹھتے ہیں۔ آنکھوں سے روح تک اترنے کا لمحہ۔ خواب و خیال کی تجسیم اور فکری نقش و نگار کی تخلیق کا "لمحہ" ہے، یہی لمحہ میری مسافتِ اِدراک کے لئے "متاعِ یقین" اور میری مشقّتِ آگہی کے لئے "رختِ شب" ہے۔
            "رختِ شب" میرے خیالوں کا اقرار نامہ اور میرے خوابوں کا نگار خانہ ہے، اِس کے لفظوں میں میرے چبھتے ہوئے آنسوؤں کی کسک بھی ہے، میرے جاگتے ہوئے زخموں سے پھوٹتی ہوئی شعاعیں بھی ہیں اور میری آنکھوں میں کھِلتے گلابوں کی باس۔ میں رائیگاں نیند نہیں سوتا۔ نہ بے صرفہ دھوپ جاگتا ہوں۔ میں اپنے سچ کو خواب پہناتا اور اپنے خوابوں پر سچ اوڑھتا سانسوں کی چبھتی کرچیوں کے بے نہایت سفر میں مصروف رہتا ہوں، اور اِس سفر میں بگولوں کے ساتھ رقص کرتے غبارِ خاک سے آنکھیں ڈھانپ ڈھانپ کر سورج کے سائے سائے شام کی شفق میں ڈوب جاتا ہوں۔!!
            جہاں تک میری شخصیت اور شاعری کا تعلق ہے، مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ مَیں اپنے بارے میں بہت کم جانتا ہوں، اِس سلسلے میں تو میرے احباب بھی مجھ سے کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ کہ میرے شب و روز کی تمام مسافتیں اور کٹھنائیاں، میری شہرتیں اور رسوائیاں، میرے ہنگامے اور تنہائیاں ورَق ورَق اور حرف حرف اُن کے سامنے کھُلتی اور کھِلتی رہیں۔ اِسے میرا عیب سمجھیں یا خوبی کہ مَیں جسے ایک بار "اپنا" سمجھ لوں، اُسے زندگی بھر کے لئے اپنی ذات کا حصّہ سمجھ لیتا ہوں، پھر اُسے لمحہ بھر کے لئے بھی خود سے الگ سمجھنا میرے نزدیک بہت مشکل اور تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے، یہ الگ بات ہے، اپنی مصروفیات کی بنا پر کچھ عرصہ کے لئے میں "اپنوں" سے بچھڑ جاؤں مگر روحانی اور ذہنی قُرب کی شدّت میں کبھی بھی کمی نہیں آ سکتی، میں اپنے دوستوں سے  بھی ملتا ہوں ٹوٹ کر ملتا ہوں اور جتنی دیر اُن کے ساتھ رہتا ہوں، ہمیشگی کی لذّت دل میں بسا کر ساتھ رہتا ہوں، میں تو اپنوں کے زخم بھی "سنبھال" کر رکھتا ہوں کہ یہ زخم بھی مجھے میرے اپنے مہربانوں کی طرح عزیز ہیں اور اُنہی کی طرح پیارے بھی لگتے ہیں، میں دوستی کی رسم عام کرنا چاہتا ہوں، دُشمنی کا لفظ میرے لئے بے حیثیت سا لفظ ہے۔ محبتیں بانٹتا ہوں اور نفرتوں سے نفرت کرتا ہوں۔ زندگی بہت مصروف اور تیز رَو ہے، بیسویں صدی اپنی بوسیدہ روایات سمیت آخری ہچکیاں لے رہی ہے اور اکیسویں صدی لمحہ لمحہ ماہ و سال کے سینے پر دستک دے رہی ہے، زمین اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے، نیا انسان۔ پُرانے آدمی کو پہچاننے سے انکاری ہے، رِشتے رَویّوں کے محتاج ہو رہے ہیں، گروہی تعصّبات، نسلی امتیاز، طبقاتی تضاد اور فرقہ پرستی نئی نسل کے لئے نا قابلِ برداشت جبر کی میراث ہیں، دنیا بھر کے مظلوم اپنے سینے میں ظلم کے خلاف بغاوتوں کو پال پوس کر جوان کر چکے ہیں، تاریخ کے افق پر نئی صدی نئے انقلابی عزائم کے ساتھ طلوع ہونے کے لئے مصروفِ آرائش ہے، میں اور میرے جیسے کروڑوں انسان اُس صدی کے منتظر ہیں جس کے عہد نامے میں انسانی امن اور معاشرتی حُسن کی ضمانت "حرفِ آغاز" کے طور پر رقم ہے۔ جس کا منشور ظلم، جبر، قتل و غارت، بھوک اور افلاس کے خلاف مشترکہ انسانی جہاد کی چکا چوند سے منور اور باہمی محبت و اخلاص سے مُستنیر ہے۔ میرے خواب تعبیر کے انتظار میں سانس لے رہے ہیں۔ میری شاعری بھی ایسے ہی اجلے خوابوں کا جزیرہ ہے۔ جس کے چاروں طرف وہم و تشکیک کا موجیں مارتا ہوا سمندر گونج رہا ہے، مگر میں اپنے اجلے خوابوں کے جزیرے میں خواہشوں کا خیمہ نصب کئے خود کلامی میں مصروف ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ میری آواز کہاں تک اپنے دائرے بُن رہی ہے؟ میرے لفظوں کے سینے میں پوشیدہ دعائیں بابِ قبول "وَا" ہونے کی منتظر ہیں۔ میرے دل میں لمحۂ یقین کی شعاعیں مسلسل تسکین و تسلّی کا جہان آباد کرنے میں مصروف ہیں۔ مَیں اپنے "ہونے" کا سراغ ڈھونڈ رہا ہوں۔ مَیں اور میری شاعری مسلسل اندھیروں سے نبرد آزما ہیں، اندھیروں سے نبرد آزما ہونا بھی ہر کسی کے مقدر میں کہاں؟ اور پھر رات بھر کا اندھیرا تو آنکھیں بند کر کے بسر کیا جا سکتا ہے، یہاں تو دوپہروں کے ماتمی لباس نے پہن لیا ہے اور صبحیں مُنہ چھپا چھپا کر طلوع ہو رہی ہیں۔ ایسے تاریک لمحوں سے چاندنی نچوڑنا کتنا جاں گداز عمل ہے؟ اِس کا اندازہ صرف اُنہی آنکھوں کو ہو گا جو کھُلے منظروں میں کھِلی دھوپ سے کھیلتے کھیلتے اچانک بجھ گئی ہوں، اور پھر پلکیں جھپکتے جھپکتے شل ہو چکی ہوں مگر دھوپ کی ایک آدھ کرن کا سراغ بھی نہ مل سکا ہو۔
            مَیں بھی "ہونے اور نہ ہونے" کے اِسی "برزخ" سے گزر رہا ہوں، مُنہ زور جذبوں کی زد میں ضبط کے چراغ کی لَو سنبھالنا اور وہم و تشکیک کے موسم میں "یقین" کے خد و خال اُجالنا۔ لمحوں کی نوکیلی کرچیوں میں صدیوں کا کرب ڈھالنا اور صدیوں کی لَب بستہ سیپیوں سے سانس لیتے لمحوں کے موتی نکالنا۔ شاید میری عمر بھر کی مشقت ہے۔ جس کے بغیر "اعتمادِ ذات" کا اعزاز حاصل نہیں ہوتا۔
            میں ایک ایسے "مدفُون شہر" کا باسی ہوں جس کی خاک سے کبھی "ذہن" اُگتے تھے، جس کی گلیوں میں کبھی ہَوا، زندگی کی روشنیاں اور رعنائیاں بانٹتی تھی۔ شب و روز شعر و نغمہ کی پائلیں بجاتے اور مَدھر کافیوں کی جھانجھریں جھنجھناتے تھے، جس کے لوگ کبھی ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا عبادت سمجھتے تھے، جس کے پانی میں محبت کی چاندنی کا اَمرت گھُلتا اور جس کی راتوں میں صبحوں کا سیماب کھُلتا تھا۔ مگر یہ باتیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اب وہاں کے بسنے والوں کے خد و خال سے "اجنبیّت" جھانکتی اور گلیوں میں "رُلتی" ہَوا خاک پھانکتی ہے۔! میرا شہر اَب "شہرِ نا پُرساں" ہے کہ وہاں کی تمام رسمیں بدل چکی ہیں، میرے سارے لوگ اَب اپنی اپنی صلیبوں کی کِیلیں شمار کرنے میں مگن ہیں، اُنہیں کچھ نہیں معلوم کہ باہر کیا ہو رہا ہے؟ اُن سے الگ رہ کر کِس کِس نے اُن کی تاریخ کے لئے دَر بدَری شِعار کی، اُنہیں کیا کہ وہ تو ابھی رنگ و نسل کے قَفس سے ادھر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں رکھتے، میرے شہر کے سیدھے سادے لوگ! جو کبھی ایک دوسرے کے دکھ میں اپنی آنکھیں نَم رکھتے تھے، اب اپنے ہی شہر میں خالی آنکھیں لئے زندگی کرتے اور اپنی اپنی ذات کا دَم بھرتے ہیں  خیر۔ یوں ہی سہی، مجھے پھر بھی اس شہر کی خاک سے محبت ہے، کہ یہ شہر میری پہچان کا حوالہ تو ہے نا۔ اِس نے مجھے زندہ رہنے کا ہُنر سکھایا۔ یہی احسان غنیمت ہے۔ اب اگر میرے "اعزازِ جراحَت" پہ گُم صُم ہے تو کیا ہوا۔ کہ اِسی شہر کے سنّاٹے نے ہی مجھے اپنا ماتم کرنے کا سلیقہ بخشا۔
            اِس شہر کی "اجنبیّت" نے مجھے صحراؤں میں تنہا سفر کرنے کا حوصلہ عطا کیا۔ مَیں اپنے شہرِ نا پُرساں کے ہر دوست کی "بے نیاز" محبت کا مقروض ہوں، میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی ہم مزاج ہَوا کے ہاتھ اپنے شہر کے سارے پیارے لوگوں کے نام پیغام بھجواؤں کہ مَیں جہاں بھی ہوں "تمہارا ہوں" اور تمہارے لئے ہوں،۔ میرے شہر کے خاک اُڑاتے راستوں کو "میری آوارگی" کا سَلام پہنچے اور میرے احباب کی محفلوں کو میری تنہائی کی دعائیں راس آئیں۔۔۔
            اور اے خاک بَسر ہَوا! میرے شہر کے باسیوں سے کہنا۔ کہ مجھے اب تک صحرا میں بہتی چاندنی کا بولتا سکوت اچھا لگتا ہے!
            شفّاف نیلے آسمان کی وسعت میں آزاد پرندوں کی اُڑان اَب بھی مجھے اپنی طرف "بے ساختہ" دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اُجلے چہروں کے دہکتے رنگ اور سوتی جاگتی بوجھل آنکھوں میں تیرتے ہوئے سوالوں کے سُرخ ڈورے اب بھی میری بینائی میں انجانے کرب کی پرچھائیاں گھول دیتے ہیں۔
            مَیں اَب بھی کڑکتی دھوپ میں پگھلتی سڑک کے سنگلاخ کِناروں پر نوکِیلے پتھر کُوٹنے والے زخمی ہاتھوں کے لئے اُس عہد کا منتظر ہوں جب ان کے زخموں کو مُندمِل کر کے اُنہیں شیشے کے دستانے پہنائے جائیں گے اور اُن کی ہتھیلیوں پہ بکھری ہوئی شکستہ لکیروں میں خوش قسمتی کا سیماب رواں ہو گا، مجھے برف اوڑھے ہوئے پہاڑوں کی ہری بھری چھاتیوں سے پھوٹتے آبشار اب تک اندیشوں کے دشتِ خوف میں پَسپا نہیں ہونے دیتے۔
            مَیں آباد بستیوں کے ہنستے بستے گھروں میں جلتے ہوئے چولھوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں پر جان دیتا ہوں اور مجھے اَب بھی "بارود" کے دھوئیں سے شدید نفرت ہے کہ "بارود" اِنسانی بقا کے لئے مہلک ہے! مجھے ہریالیوں کی اوٹ میں تِتلیاں تلاش کرتے بچوں کی معصوم مسکراہٹ دنیا بھر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی لگتی ہے۔
            میرا بس چلے تو اپنی غربت کے تاریک غاروں میں سانس لینے والوں کو اپنا حکمران تسلیم کروں کہ اُن کی غربت کو احساسِ کمتری میں مُبتلا کر کے بہت سے لوگ اُن سے اُن کی خواہشوں کا خراج لیتے ہیں۔
            اور ہاں اے ہر سَمت بھٹکتی ہوئی ہَوا، گر بن پرے تو میرےلوگوں سے کہنا کہ میں نے ابھی تک اپنی "انا" کو کِسی قسم کی مَصلحت کے "سرد خانے" میں ٹھِٹھرنے نہیں دیا۔ نہ رائیگاں شہرت کے حصول کے لئے اپنے فِکر کا "کشکول" اٹھایا ہے۔
            میں آج بھی سرخرو ہوں کہ میرے فن نے اپنا قد بڑھانے کے لئے نہ تو کِسی "اُدھار" کی شاخ سے جھُولنے کی اجازت طَلب کی ہے اور نہ ہی اپنے خدّ و خال نکھارنے کے لئے کوئی مانگے کا آئینہ کِسی آنکھ میں چسپاں کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میری شاعری کو پڑھنے والے مجھے محبت سے پڑھتے ہیں اور اس سے زیادہ باعثِ مسرّت بات یہ ہے کہ میرا قاری میری شاعری کے بارے میں کِسی "نقّاد" کی رائے کا محتاج نہیں۔ میں اپنے تجربے کی وُسعت پر اعتماد کرتا ہوں، میرا مشاہدہ اپنے اظہار کے لئے خود سے دائرے بُنتا ہے اور میرے جذبے کی حِدّت اور شِدّت خود سے لفطوں کے انبار میں سے اپنی قبا پر کاڑھنے کے لئے لفظ چُنتی ہے۔
            مَیں دائمی اَمن کی بقا کے لئے سوچتا ہوں، اِنسانی محبتوں کے ذائقے میری رگوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ ظُلم سے شدید نفرت مجھے میرے شجرے سے ورثے میں مِلی ہے، میں دنیا بھر میں انسان کی عزّت و توقیر پر ایمان رکھتا ہوں، صحرا کی وسعت، آسمان کی بلندی اور نِیل کی گہرائی یں نے اپنی روح میں بسا لی ہیں، اور حُریّتِ فکر میرا منشور ہے۔
            "رَختِ شب" میرے مُسلسل فِکری سَفر کی تازہ رُوداد ہے، اِس رُوداد میں اپنی خواہشوں کے اُدھورے دائرے، میری خراشوں کی نا مکمّل لکیریں اور جاگتی راتوں کی کروٹیں آپ کی آنکھوں کے نام کر رہا ہوں، یہ رختِ شب میرے اجلے خوابوں کی متاع ہے۔ میرے جلتے سُلگتے خیالوں کا سرمایہ ہے، مَیں نے جذبوں کی آنچ میں پگھل پگھل کر اور اندھیروں کے سینے میں اُتر اُتر کر اشعار کے یہ جُگنو سنبھالے ہیں۔ آئیے یہ جُگنو میں آپ کی پلکوں پر ٹانک دوں، آپ حقیقتوں کی جھیل میں یہ جُگنو بھگو کر اپنی رُوح کے پاتال میں اُتار سکیں تو میری تنہائی میں بکھری ہوئی دھوپ لمحہ لمحہ تقسیم ہو جائے گی۔ ورنہ آپ کو نیندیں مبارک اور مجھے "خواب" سلامت کہ
            "میں خواب بہت دیکھتا ہوں"
مُحسنؔ نقوی
3 اگست 1994ء لاہور
کتاب: رختِ شب


"رختِ شب" کا انتساب!

یہ ٹوٹتی ہوئی سانسیں، یہ حرف حرف خیال
مَیں سوچتا ہوں کہ اِس بار کِس کے نام کروں؟

تراشتے ہیں سبھی زخم اپنے اپنے سُخن
کِسے سکوت پہ کاڑھوں، کِسے کلام کروں؟

ہزار شکل ابھرتی ہے تیری یاد کے ساتھ
کِسے متاعِ سفر، کِس کو حُسنِ شام کروں؟

بغاوتوں پہ اُتر آئیں خواہشیں میری
کِسے رِہائی دو، کِس کو اسیرِ دام کروں؟

تجھے تو خَیر سنورنے کو آئینے ہیں بہت
مگر مَیں اپنی غزل کِس طرح تمام کروں؟

No Response to "بہتی چاندنی کا بولتا سُکوت "

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px