بے وارث لمحوں کے مقتل میں


محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں لیکن اس کے ساتھ ہی محسن کی نثر،  جو کہ ان کی کتابوں کے دیباچے کی شکل میں موجود ہے، اس میدان میں بھی محسن کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔
محسن نقوی کی کتاب"طلوعِ اشک" کا دیباچہ انتساب کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔

بے وارث لمحوں کے مقتل میں
            مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ مَیں نے پہلا شعر کب کہا تھا۔ (یہ بہت پہلے کی بات ہے)۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں پہلا "سچ" کب بولا تھا؟ (یہ بھی شاید بہت پرانا قصّہ ہے)۔ پہلا شعر اور پہلا سچ کون یاد رکھتا ہے؟۔ اور اتنی دُور پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ اُدھر کون سی روشنی ہے۔ گھُپ اندھیرے کی ریت پر ہانپتے ہوئے چند بے وارث لمحے۔ پچھتاوے کی زد میں جانے کب اور کہاں کھو گئے۔؟
            مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ کچھ بھی تو یاد نہیں
"ماضی" بھی تو کتنا بخیل ہے۔ کبھی کبھی تو حافظے کی غربت کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور پھر اندھے کنویں کی طرح کچھ بھی تو نہیں اگلتا۔ اپنے اندر جھانکنے والوں سے پوری بینائی وصول کرتا ہے۔ بِیتے دنوں کے اُس گھُپ اندھیرے میں بھی کیا کچھ تھا۔؟


میرا کچا مکان (جِس کی چھت کی کڑیوں سے میری سانسیں اَڑی ہوئی تھیں۔ اُس مکان میں جلتا ہوا مٹی کا "دیا"۔ جِس کی پھیکی روشنی نے مجھے لفظوں کے باطن میں اترنے کا حوصلہ بخشا۔ گُم صُم گلیوں میں کھیلتی ہوئی آوارہ دھوپ۔ جِس نے مجھے اداس راتوں کے پُرہَول سناٹے سے اُلجھنے کا سلیقہ سکھایا۔ مَیلی دیواروں سے پھسلتی ہوئی چاندنی۔ جو رائیگاں ہونے کی بجائے میرے خوابوں کی بے آواز بستی کا اثاثہ بن گئی۔ دھول میں لپٹی ہوئی بے خوف ہَوا جو میرے مسلسل سفر کی اکیلی گواہی بن کر مجھے دِلاسہ دیتی رہی۔ نا ہَموار آنگن میں ناچتی لُو سے جھلستے چہروں کی مشقّت، جس نے مجھے محرومیوں سے سمجھوتے کا انداز مستعار دیا۔ خشک ہونٹوں پر جمی ہوئی مسکراہٹ۔ جس نے مصائب و آلام کی بارش میں مجھے زندہ رہنے کا اعتماد عطا کیا۔ سہمی صبحیں، گونگی دوپہریں، بہری شامیں اور اندھی راتیں کِتنی کہانیوں کو بُنتے بُنتے راکھ ہو گئیں۔ اور ان کی کہانیوں کا کوئی ایک ریزہ بھی میرے پاس نہیں ہے۔ میرا سب کچھ میرے ماضی کے پاس گروی ہے۔
            اِس "سب کچھ" میں میرا ہنستا کھیلتا، پہیلیاں بوجھتا اور شرارتیں سوچتا بچپن بھی شامل ہے، جِسے اُس کے کھلونوں سمیت میرے ماضی نے میری دسترس سے دُور فنا کر اُس کے نقوش کھرچ ڈالے ہیں۔
            ماضی کو کون سمجھائے کہ بچپن تو ہوتا ہی یاد کرنے کے لئے ہے۔ مگر میرا بچپن؟ کِسی دیوار کی اوٹ جلتے دہکتے تندور سے باہر جھانکتے شعلوں سے اڑتی چنگاریوں کی طرح جیسے فضا میں بکھر کر کہیں بجھ گیا ہے۔ دُور بہت دُور فضا میں تحلیل ہوتے ہوئے دھویں کے اُس پار کتنی شفیق آنکھیں کتنے صبیح چہروں سے پھوٹتی ہوئی دعاؤں کی کُہر اور کِتنی نیک روحوں کے قُرب کی پاکیزہ خوشبو آج بھی میرے تپتے تپکتے دل کی لَو دیتی رگوں میں برفیلے لمس کی شبنم انڈیلتی محسوس ہوتی ہے۔
            اور اب کیا کیجیے۔ کہ اب تو آتے جاتے موسموں کا سَبھاؤ صرف سوچوں کے بہاؤ پر منحصر ہے۔ معصوم جذبوں کا بھولپن اب فقط شکستہ قلم کی شہ رگ سے ٹپکتے ہوئے لہو کے بے ترتیب قطروں میں کبھی کبھی اپنا دھندلا سا عکس دیکھ لیتا ہے۔ اور رائیگاں جاگتی آنکھیں صرف تنہائی کی لوریوں سے بہل کر سو جاتی ہیں یا کہیں کھو جاتی ہیں۔
            کُہرام مچاتی سانسوں کے اِس جاں گُداز اور آبلہ نواز سفر میں کیا کیا لوگ اپنا اپنا روگ دل میں لئے دھول اُڑاتے سنّاٹے کا رِزق ہوئے۔ کیسی کیسی رنگ رچاتی محفلیں اپنے توانا ہنگاموں سمیت پلک جھپکتے آنکھ سے اوجھل ہو گئیں۔ کیا کیا کُندن چہرے اب اپنی پہچان کا حوالہ مجھ سے طَلَب کرتے ہیں۔
            جیسے مَیں اِن دنوں بے وارث لمحوں کے مقتل سے گزر رہا ہوں۔ لمحوں کا مقتل جس میں شامِ غریباں آہستہ آہستہ اُتر رہی ہے۔
لمحوں کے اِس مقتل میں میری مسافت ختم ہوتی ہے نہ شامِ غریباں کا دھواں سرد پرتا ہے۔ میرے پاؤں میں آبلے بندھے ہوئے ہیں۔ جسم بارشِ سنگِ ملامت سے داغ داغ اور ہونٹ مسلسل مصروفِ گفتگو۔ مگر کِس سے؟ شاید رفتگاں کا راستہ بتاتی ہوئی دھول سے یا اپنے تعاقب میں آنے والے اُن رہروؤں کی آہٹوں سے؟ جو سفر کے اگلے موڑ پر مسلط سنّاٹے سے بے خبر ہیں۔ سنّاٹا۔ جو کبھی کبھی دل والوں کی بستی پر شبخوں مار کر ساری سوچیں، تمام جذبے اور کچّے خواب تک نگل لیتا ہے۔
            میرا قبیلہ میرے کَرب سے نا آشنا ہے۔ میرے ساتھ جِن ہجر والوں نے سفر آغاز کیا تھا وہ یا تو راستے کی گرد اوڑھ کر سو چکے ہیں، یا مجھ سے اوجھل اپنی اپنی خندقیں کھودنے میں مصروف ہیں۔ اور مَیں کل کی طرح آج بھی "اکیلا" ہوں۔
میرے اِرد گِرد خراشوں سے اَٹے ہوئے کچھ اجنبی چہروں کے کٹے پھٹے خدوخال ہیں۔ بھوک سے نڈھال بے نطق و لب ادھوری سوچوں کے پنجر۔ ریزہ ریزہ خوابوں کی چبھتی ہوئی کِرچیاں۔ محرومیوں کے بوجھ تلے رینگتی خواہشوں کی ٹیڑھی میڑھی قطاریں۔ دَم توڑتی محبّتوں کی بے ترتیب ہچکیاں۔ پا بُریدہ حسرتیں۔ سَر بہ زانو واہمے۔
            اور بدن دَریدہ اندیشے۔ ایسے اُجاڑ سَفر میں کون میرے دکھ بانٹنے کو میرے ساتھ چلے۔؟ یہاں تو ہَوا کے سہمے ہوئے جھونکے بھی دَبے پاؤں اترتے اور چُپ چاپ گزرتے ہیں۔ یہاں کون میرے مجروح جذبوں پر دلاسوں کے "پھاہے" رکھے؟ کِس میں اتنا حوصلہ ہے کہ میری روداد سُنے؟ کوئی نہیں۔ سوائے میری سخت جان تنہائی کے۔ جو میری خالی ہتھیلیوں پر قسمت کی لکیر کی طرح ثبت ہے۔ میرے رتجگوں کی غمگسار اور میری تھکن سے چُور آنکھوں میں نیند کی طرح بھر گئی ہے۔
            سنگلاخ تنہائی کے اِس بنجر پن میں دہکتے مہکتے جذبوں کے گلاب اُگانا اور اُنہیں بے ربط آنسوؤں سے شاداب رکھنا میرا مقصد بھی ہے اور میرا فن بھی۔ بس اِسی دُھن میں سکوت کے ہولناک صحرا میں لمحہ لمحہ سوچوں کی بستیاں بسا کر اُن میں لفظوں کے رنگ رنگ چراغ روشن کرتا ہوں۔ جانے کب سے جانے کب تک؟
            ہَوا مجھ سے برہم، سنّاٹا میرے تعاقب میں، حوادث مجھ سے دست و گریباں، صبحیں مجھ سے گریزاں اور شامیں، میری آنکھوں پر اندھیرا "باندھنے" کے لئے مضطرب۔ مگر مَیں (مسافت نصیب، سفر مزاج)۔ "گُزشتہ" کی راکھ پر "آئیندہ" کی دیوار اٹھا اُس کی منڈیر پر اپنی آنکھیں جلا رہا ہوں تاکہ میرے بعد آنے والوں کی تھکن لمحہ بھر کو سستا سکے۔
مَیں۔ تلخیاں بانٹتی اور تنہائیاں چھڑکتی ہوئی زندگی سے قطرہ قطرہ "سچ" کشید کرتا اور پھر اِس روشن "سچ" کی دمکتی ہوئی پیشانی سے پھوٹتی شعاعوں کے ریشم سے بُنے ہوئے خیالوں کی رِدا پر "شاعری" کاڑھتا ہوں۔
            شعر کہنا میرے لئے نہ تو فارغ وقت کا مشغلہ ہےاور نہ ہی "خود نمائی" کے شوق کی تکمیل کا ذریعہ۔ بلکہ اپنے جذبات و محسوسات کے اظہار کے لئے مجھے "شاعری" سے بہتر اور موثر پیرایہ ملتا ہی نہیں۔ میرے لا شعور کی تہہ میں بکھرے ہوئے تجربے اور مشاہدے حرف حرف اور نقطہ نقطہ شعور کی پلکوں سے حواس کے آئینہ خانے میں اترتے اور "شعر" کی صورت میں بکھرتےچلے جاتے ہیں۔ اور پھر کبھی میرا قلم اور کبھی موجِ صدا کا "زیر و بَم" انہیں امانت کے طور پر بصارتوں، بسیرتوں اور سماعتوں تک پہنچاتا ہے۔ کیا جانے کب سے میری فگار انگلیاں کائنات کے خد و خال کو ذات کے شیشے میں سمیٹنے کا قرض ادا کر رہی ہیں۔ اور میرا "خونچکاں خامہ" اپنے عہد کے انسان کا کرب کرید کر اُس میں پوشیدہ خواہشوں اور حسرتوں کو کاغذی پیرہن پر سجانے میں مصروف ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ فن کے صحرا میں اَب تک مَیں نے کتنا سفر طے کیا ہے؟ مَیں پیچھے مُڑ کر دیکھنے کا عادی نہیں ہوں۔ (جیسے پلٹ کر دیکھنے سے مَیں "پتھر" ہو جاؤں گا)۔
            مَیں قدم قدم نئی جہت کی تلاش میں سر گرداں ہوں، (ورنہ کی بجائے) کہ ایک ہی سمت میں ایک ہی انداز سے چلتے رہنے کی یکسانیت اور ایک جیسی رفتار نہ صرف سفر کی کشش کو چاٹ لیتی ہے بلکہ حصولِ منزل کا اعتماد بھی چکنا چُور ہو کر رہ جاتا ہے۔
            میرے سفر کی ڈور کا دوسرا سِرا میری سانس سے بندھا ہوا ہے۔ میں لمحہ بھر کو رُک گیا تو یہ ڈور ٹوٹ جائے گی۔
کِسی بھی حسّاس اور سنجیدہ فنکار کے لئے مشکل ترین مرحلہ اُس کے اپنے عہد کے تقاضوں کا اِدراک اور ا ن تقاضوں کے مطابق موضوع کا انتخاب ہوا کرتا ہے۔ جو فنکار اپنے عہد سے بے خبر رہ کر تخلیق کی مشقت کرتا ہے، وہ خود کلامی کی بھول بھلّیوں میں بھٹک کر یا تو رجعت پسندی کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے یا تشکیک کی زد میں ابہام کا شکار ہو کر فکری انتشار کے برزخ کی "بے سمتی" میں اپنا آپ گنوا بیٹھتا ہے۔ میرے نزدیک یہ باتیں کرنا اِس لئے بھی ضروری ہیں کہ
            ۔۔۔ عصری جبر، سماجی گھٹن، سیاسی حبس اور طبقاتی تضاد کی دَلدَل میں دھنسے ہوئے جس معاشرے میں مجھے جذبوں کے اظہار کا اِذن مِلا ہے، وہ بذاتِ خود تشکیک و ابہام اور سکوت و تحیّر کی سیاہ چادر اوڑھ کر سانس روکے ہوئے زندگی کی ساعتیں گِن رہا ہے۔ عدل و انصاف کے مقابلے میں ظلم اپنے پَر پھیلائے دَم توڑتے انسان کی ہچکیاں نِگل رہا ہے۔ رستے مقتل بن گئے ہیں، چوراہوں سے بارود اُگ رہا ہے، بازاروں میں درندگی برہنہ رقص رَچا رہی ہے، "سچ" سرِ عام مصلوب اور جھوٹ بَرملا مسند آراء ہے۔ جرم رواج بن گیا ہے۔ غارت گری روایت میں شامل ہو رہی ہے، دہشت گردی سے شہر سہمے ہوئے، وحشت صحراؤں پر مسلط، لہو کے رشتے کچّے دھاگوں کی طرح ٹوٹ رہے ہیں۔
            یوں لگتا ہے جیسے ظلم و ستم کی سیاہ رات نے سورج کو چَبا ڈالا ہے۔ دکھ، درد اور کرب کی اِس مسلسل رات، بے یقینی اور مایوسی کی دھول سے اَٹی ہوئی رات میں میری شاعری "طلوعِ اشک" سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
"طلوعِ اشک" کی شاعری اپنے عہد میں بڑھتی ہوئی نفرتوں کے خلاف انسانی سانسوں کے ریشم سے بُنے ہوئے اُن نازک جذبوں اور دائمی رشتوں کا ایک دھیما سا احتجاج ہے، جن کی پہچان کا واحد حوالہ محبت ہے۔
                        "محبت" جو کدورتوں کی آگ میں جلتے جھلستے جنگلوں کے اُس پار زیتون کی وہ شاخ ہے، جِس کی خوشبو کا دوسرا نام "امن" ہے۔
            "طلوعِ اشک" میں نہ تو آپ کو عملی جدوجہد سے محروم کوئی "دعویٰ" نظر آئے گا۔ اور نہ ہی بے مقصد "ہنگامہ آرائی"۔
            کیونکہ اپنے چاروں طرف بکھرے ہوئے ظلم، پھیلی ہوئی نفرت اور افراتفری کے با وجود مَیں ابھی تک انسانی رشتوں کی اہمیت، روح کی گہرائی میں پھیلتے پھولتے جذبوں کی توانائی، دائمی اَمن کی عالمگیر کشش، "سچ" کی فتح مندی اور اِدراک و آگہی پر "محبت" کے تسلط سے نہ تو مایوس ہوا ہوں اور نہ ہی منحرف۔
            مجھے یقین ہے کہ جب تک کائنات میں انسان کا وجود باقی ہے۔ محبت اپنے توانا جذبوں کی صداقت سمیت باقی رہے گی۔ میں نے محبت کو اپنے احساس، ادراک اور آگہی کی اساس بنایا ہے۔ اِسے دھوپ دھوپ سمیٹا ہے اور پھر اپنے "اشعار" میں رنگ رنگ بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی سب کچھ میرا فن بھی ہے اور متاعِ فن بھی۔
جہاں تک اپنے فن کے قد و قامت کی "بے محل" نمود و نمائش کا تعلق ہے، مَیں ہمیشہ اِس سے اجتناب کرتا ہوں، نہ ہی "خود ستائی" کی بوسیدہ قَبا اوڑھ کر "دوسروں" کو اپنی طرف متوجہ کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔
            آخر "سَستی شہرت" کے لئے اپنی قیمتی "اَنا" کو چھلنی کرنے کی ضرورت کیا اور شوق کیوں؟ کہ دنیا میں جو ہے، اُسے اپنے "اثبات" کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں اور جو "نہیں" ہے، اُس کے "ہونے" پر اصرار بے معنی۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔
            مجھے اپنے تخلیقی سفر کے آغاز سے اب تک کیسے کیسے صبر آزما مراحل سے گذرنا پڑا؟ کِس جان لیوا کرب کی شدّت میں سانس لینا پڑا؟ کیسی کیسی چوٹ کھا کر مسکرانا پڑا؟ یہ کہانی دہرانے کا وقت ہے نہ فرصت۔ (پھر سہی)
            ابھی آپ جلدی میں ہیں۔ اور مجھے بھی اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ میری آنکھیں اندھیروں کا تسلط قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ میں اندھی رات کے جَبر کے خلاف کِسی ایک کِرن، کِسی ایک چنگاری، کِسی ایک آنسو کی طلب میں لمحوں کا مقتل جھیل رہا ہوں۔ اور اپنے گِرد بکھری ہوئی دست و پا بُریدہ خواہشوں کی پُرسش میں مصروف بھی۔ اندھی رات کے مسلسل جَبر کے خلاف کوئی جگنو، کرن، چنگاری یا کوئی ایک آنسو مجھے کچھ دیر اور جینے کا حوصلہ دے سکتا ہے۔ مَیں کچھ اور جاگ سکتا ہوں کہ مسلسل جاگتے رہنے کا اعزاز یہ کِسی زندہ، روشن اور دہکتے ہوئے سورج کی صورت نہ سہی، ہلکی روشنی کی علامت کے طور پر ہی میری آنکھوں کو صدیوں تک کے لئے اُجلے خوابوں کی دھنک میں مَست اور مگن رکھ سکتا ہے۔ اگر آپ اندھی رات کے جَبر کے خلاف میرے ساتھ محبت اور امن کی روشنی بُن سکتے ہیں تو اپنی آنکھیں میرے لفظوں میں انڈیل دیں کہ یہی میرے لئے روشنی کا استعارہ بن جائیں۔ ورنہ میری تنہائی میرے بغیر اداس ہو گی۔
مُحسنؔ نقوی
                                                                                                            جمعرات 28 مئی 1992ء لاہور
کتاب: طلوعِ اشک

"طلوعِ اشک" کا انتساب!

تُو غزل اوڑھ کے نکلے کہ دھنک اوٹ چھُپے؟
لوگ جس روپ میں دیکھیں، تجھے پہچانتے ہیں

یار تو یار ہیں، اغیار بھی اب محفل میں
مَیں ترا ذکر نہ چھیڑوں تو بُرا مانتے ہیں

کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو؟
شہر والے مرا "موضوعِ سخن" جانتے ہیں

No Response to "بے وارث لمحوں کے مقتل میں "

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px