ایک
زمین۔۔۔دو شاعر (ساغر صدیقی، بشیر بدر)۔۔۔ دو غزلیں
ساغر صدیقی کی غزل:
چراغِ طور جلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ ! بڑا اندھیرا ہے
فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری
مجھے یقین دلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
بنامِ زہرہ جبینانِ خطہء فردوس
کسی کرن کو جگاؤ ! بڑا اندھیرا ہے
بشیر بدر کی غزل:
ہمارے پاس تو آؤ، بڑا
ندھیرا ہے
کہیں نہ چھوڑ کے جاؤ، بڑا
اندھیرا ہے
اُداس کر گئے بے ساختہ لطیفے بھی
اب آنسوؤں سے رُلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
اب آنسوؤں سے رُلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
کوئی ستارہ نہیں پتھروں کی پلکوں پر
کوئی چراغ جلاؤ، بڑااندھیرا ہے
حقیقتوں میں زمانے بہت گزار چکے
کوئی کہانی سناؤ ، بڑا اندھیرا ہے
کتابیں کیسی اٹھا لائے میکدے والے
غزل کے جام اٹھاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
غزل میں جس کی ہمیشہ چراغ جلتے ہیں
اسے کہیں سے بلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
وہ چاندنی کی بشارت ہے حرفِ آخر تک
بشیر بدر کو لاؤ ، بڑا اندھیرا ہے
No Response to "ایک زمین۔۔۔دو شاعر (ساغر صدیقی، بشیر بدر)۔۔۔ دو غزلیں"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔