ایک
زمین۔۔۔دو شاعر (فیض احمد فیض، محسن نقوی)۔۔۔ دو غزلیں
اردو شاعری کے دو بڑے نام، فیض احمد فیض اور محسن نقوی
کی دو خوبصورت غزلیں، جو ایک ہی زمین میں ہیں۔
فیض احمد فیض کی غزل ان کی کتاب "شامِ شہر
یاراں" میں شامل ہے، جو مکتبۂ کارواں لاہور نے 1978ء میں شائع کی تھی جبکہ
محسن نقوی کی غزل اُن کی کتاب "طلوعِ
اشک" میں شامل ہے، جو 1992ء میں شائع ہوئی تھی۔
اس لیے زیادہ قرینِ قیاس بات یہی ہے کہ محسن نقوی نے
فیض احمد فیض کی زمین میں غزل لکھی ہے۔
دونوں غزلوں بیحد خوبصورت ہیں اور پیشِ خدمت ہیں۔
فیض احمد فیض کی غزل:
دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمّے ہے ترا قرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
"ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے"
حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمّے ہے ترا قرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
"ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے"
پُر کرو جام کہ شاید
ہو اِسی لحظہ رواں
روک رکھا ہے جو اک
تیر قضا نے کب سے
فیضؔ پھر کب کسی مقتل
میں کریں گے آباد
لب پہ ویراں ہیں
شہیدوں کے فسانے کب سے
محسن نقوی کی غزل:
جستجو میں تیری پھرتا
ہوں نجانے کب سے؟
آبلہ پا ہیں مرے ساتھ
زمانے- کب سے!
میں کہ قسمت کی
لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں
ہاتھ دکھانے کب سے
نعمتیں ہیں نہ عذابوں
کا تسلسل اب تو!
مجھ سے رُخ پھیر لیا
میرے خدا نے کب سے
جان چھٹرکتے تھے کبھی
خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری
وہ نشانے کب سے
وہ تو جنگل سے ہواؤں
کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دیے
گھر میں جلانے کب سے؟
شہر میں پرورشِ رسمِ جنوں کون کرے؟
یوں بھی جنگل میں
یاروں کے ٹھکانے کب سے؟
آنکھ رونے کو ترستی
ہے تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں
احسان جتانے کب سے
جن کے صدقے میں بسا
کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا
وہ گھرانے کب سے
لوگ بے خوف گریباں کو
کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں
دستِ قضا نے کب سے
جانے کب ٹوٹ کے برسے
گی ملامت کی گھٹا؟
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے
جن کو آتا تھا کبھی
حشر جگانا محسؔن
بختِ خفتہ کو نہ آئے
وہ جگانے کب سے!
دونوں غزلوں کی بحر:
بحر - بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
افاعیل - فاعِلاتُن فَعِلاتُن فَعِلاتُن فَعلُن
اشاری نظام - 2212 / 2211 / 2211 / 22
اس بحر میں پہلے رکن یعنی فاعلاتن ( 2212 ) کی جگہ فعلاتن ( 2211 ) اور آخری
رکن فعلن (22) کی جگہ , فعلان ( 122)، فَعِلن (211 ) اور فَعِلان (1211) بھی آ
سکتا ہے۔
یوں اس بحر کی ایک ہی غزل یا نظم میں درج کردہ یہ آٹھ اوزان ایک ساتھ
استعمال کرنے کی عروضی گنجائش موجود ہے ۔
No Response to "ایک زمین۔۔۔دو شاعر (فیض احمد فیض، محسن نقوی)۔۔۔ دو غزلیں"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔