اے عشق ہمیں برباد نہ کراے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کرپہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم، تُو اور ہمیں ناشاد نہ کرقسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کریوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کرجس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیاچہروں سے بہارِ صبح گئی، آنکھوں سے فروغِ شام گیاہاتھوں سے خوشی کا جام چُھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیاغمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کرراتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیںآنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دُھنتے ہیں آہیں بھرتے ہیںاے عشق، یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیںیہ ظلم تو اے جلاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کریہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہہر وقت تپش، ہر وقت خلِش، بے خواب ہوں میں، بیدار ہے وہجینے سے ادھر بیزار ہوں میں، مرنے پہ اُدھر تیار ہے وہاور ضبط کہے فریاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کرجس دن سے بندھا ہے دھیان ترا، گھبرائے ہوئے سے رہتے ہیںہر وقت تصور کر کر کے شرمائے ہوئے سے رہتے ہیںکمہلائے ہوئے پھولوں کی طرح کمہلائے ہوئے سے رہتے ہیںپامال نہ کر، برباد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کربے درد، ذرا انصاف تو کر، اس عمر میں اور مغموم ہے وہپھولوں کی طرح نازک ہے ابھی، تاروں کی طرح معصوم ہے وہیہ حسن، ستم، یہ رنج، غضب، مجبور ہوں میں، مظلوم ہے وہمظلوم پہ یوں بیداد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کراے عشق خدارا دیکھ کہیں، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہووہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہوناموس کا اس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہواس پردہ نشیں کو یاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کرامید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دِکھلا خواب ہمیںآئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بے تاب ہمیںکہتا ہے زمانہ جس کو خوشی، آتی ہے نظر کمیاب ہمیںچھوڑ ایسی خوشی کو یاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کرکیا سمجھے تھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہمہے پہلے پہل کا تجربہ اور کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہماے عشق، خدارا رحم و کرم، معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہمنادان ہیں ہم، ناشاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کروہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا جائے کوئی تو خیر نہیںآنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آ جائے کوئی تو خیر نہیںظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو خیر نہیںہے ظلم مگر فریاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کردو دن ہی میں عہدِ طفلی کے، معصوم زمانے بُھول گئےآنکھوں سےوہ خوشیاں مِٹ سی گئیں، لب کو وہ ترانے بُھول گئےان پاک بہشتی خوابوں کے، دلچسپ فسانے بُھول گئےان خوابوں سے یوں آزاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کراس جانِ حیا کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے، بس میں ہےبے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو پیار یہاں آپس میں ہےہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہےکہتی ہے حیا فریاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کرآنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا، ہر جذبِ نہاں پر رو دیناآہنگِ طرب پر جُھک جانا، آواز فغاں پر رو دینابربط کی صدا پر رو دینا، مُطرب کے بیاں پر رو دینااحساس کو غم بنیاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کرہر دم ابدی راحت کا سماں دِکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کرللہ، حبابِ آبِ رواں پر نقش بقا تحریر نہ کرمایوسی کے رمتے بادل پر امید کے گھر تعمیر نہ کرتعمیر نہ کر، آباد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کرجی چاہتا ہے اِک دوسرے کو یوں آٹھ پہر ہم یاد کریںآنکھوں میں بسائیں خوابوں کو اور دل میں خیال آباد کریںخِلوت میں بھی ہوجلوت کا سماں، وحدت کو دوئی سےشاد کریںیہ آرزوئیں ایجاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کردنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے، بے تاب سی ہےامید یہاں اِک وہم سی ہے، تسکین یہاں اِک خواب سی ہےدنیا میں خوشی کا نام نہیں، دنیا میں خوشی نایاب سی ہےدنیا میں خوشی کو یاد نہ کراے عشق ہمیں برباد نہ کر(اختر شیرانی)
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
11/01/2012 06:00:00 pm
Unknown
Posted in
اختر شیرانی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
2 Response to "اے عشق ہمیں برباد نہ کر "
بہت عمدہ
ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ اختر شیرانی کی ہے شکریہ کہ آپ نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا
بہت بہترین انتخاب
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔