ساغر صدیقی1928ءانبالہ بھارت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنا بچپن سہارنپور اور انبالہ میں گزرا ۔ساغر صدیقی کا اصل نام محمداختر شاہ تھا اور وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے ۔
ساغر صدیقی نے ایک مرتبہ کہا تھا:
"میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں"
اس قول میں صرف ایک معمولی غلطی کے سوا اور سب سچ ہے۔"
ساغر کو اپنے اکلوتے ہونے کا بھی بہت رنج تھا، وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
"میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں کہ خدا کو اِس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟ بہر حال شاید میری تسکینِ قلبی کے لئے کسی کا نام بھائی رکھ دیا گیا ہوجو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پہ نظر رکھنے والے صاحبِ فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہوا بازو کالی چادر میں چھپائے، احساس کے الٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔اگر کوئی بہن بھائی ہوتا تو یہ حال نہ ہوتا۔"
ساغر کا بچپن انتہائی نا مساعد حالات میں گزرا۔ ساغر نے حبیب حسن خاں سے گھر پہ ہی اردو زبان کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دور میں ساغر میں شاعری کا جذبہ پروان چڑھا جس نے محمد اختر شاہ کو ساغر صدیقی بنا دیا۔ ساغر نے ابتدا میں ناصر حجازی تخلص رکھا تھا مگر بعد میں ساغر صدیقی رکھ لیا۔ ساغر نے کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔ساغر نے امرتسر میں کنگھیاں بنانے کا کام بھی کیا۔
ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ "لڑکا" (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔
1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلا گیا۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ سینما فلم بنانے والوں نے اسے گیتوں کی فرمائش کی اور اسے حیرت ناک کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں اس کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغر سے لکھوائے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ساغر نے لکھا تھا کہ
"تقسیم کے بعدصرف شعر لکھتا ہوں، شعر پڑھتا ہوں، شعر کھاتا ہوں، شعر پیتا ہوں۔"
ساغر کی شاعری کے سلسلے میں ایک واقعہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ:
لائل پور کاٹن مل میں ملک گیر طرحی مشاعرہ ہوتا تھا۔ 1958ء میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ مصرع طرح تھا
سجدہ گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں
مختلف شعراء کے بعد ساغر صدیقی نے اپنی یہ غزل سنائی
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہگذارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
یہ غزل سن کر جگر جھوم اٹھے اور حاضرین محفل نے خوب داد دی ۔ جگر مرادآبادی نے اپنی باری آنے پر کہا کہ میری غزل کی ضرورت نہیں حاصل مشاعرہ غزل ہو چکی اور اپنی غزل کو اسیٹج پر ہی پھاڑ دیا۔
ساغر صدیقی نے ہفت روزہ "تصویر" کی ادارت بھی کی۔
ایک اور واقعہ جو وکیپیڈیا سے لیا گیا ہے، پڑھنے اور ساغر کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے قابل ہے۔
ایک اور واقعہ جو وکیپیڈیا سے لیا گیا ہے، پڑھنے اور ساغر کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے قابل ہے۔
اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں فوجی انقلاب میں محمد ایوب بر سر اقتدار آگئے اور تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں جن کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی سے عوام تنگ آ چکے تھے۔ حرف غلط کی طرح فراموش کر دیے گئے۔ لوگ اس تبدیلی پر واقعی خوش تھے۔ ساغر نے اسی جذبے کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے، اس میں ایک مصرع تھا:
کیا ہے صبر جو ہم نے، ہمیں ایوب ملا
یہ نظم جرنیل محمد ایوب کی نظر سے گزری یا گزاری گئی۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس شاعر سے ملنا چاہتا ہوں جس نے یہ نظم لکھی تھی۔ اب کیا تھا! پولیس اور خفیہ پولیس اور نوکر شاہی کا پورا عملہ حرکت میں آگیا اور ساغر کی تلاش ہونے لگی۔ لیکن صبح سے شام تک کی پوری کوشش کے باوجود وہ ہاتھ نہ لگا۔ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں، جہاں سے وہ اسے پکڑ لاتے۔ پوچھ گچھ کرتے کرتے سر شام پولیس نے اسے پان والے کی دوکان کے سامنے کھڑے دیکھ لیا۔ وہ پان والے سے کہہ رہا تھا کہ پان میں قوام ذرا ذیادہ ڈالنا۔ پولیس افسر کی باچھیں کھل گئیں کہ شکر ہے ظلّ سبحانی کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ انہوں نے قریب جا کر ساغر سے کہا کہ آپ کو حضور صدر مملکت نے یاد فرمایا ہے۔ ساغر نے کہا:
بابا ہم فقیروں کا صدر سے کیا کام! افسر نے اصرار کیا، ساغر نے انکار کی رٹ نہ چھوڑی۔ افسر بے چارا پریشان کرے تو کیا کیونکہ وہ ساغر کو گرفتار کرکے تو لے نہیں جا سکتا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اسے کوئی ایسی ہدایت بھی نہیں ملی تھی، جرنیل صاحب تو محض اس سے ملنے کے خواہشمند تھے اور ادھر یہ "پگلا شاعر" یہ عزت افزائی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب افسر نے جو مسلسل خوشامد سے کام لیا، تو ساغر نے زچ ہو کر اس سے کہا:
ارے صاحب، مجھے گورنر ہاؤس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے کیا دیں گے۔ دو سو چار سو، فقیروں کی قیمت اس سے ذیادہ ہے۔ جب وہ اس پر بھی نہ ٹلا تو ساغر نے گلوری کلے میں دبائی اور زمین پر پڑی سگرٹ کی خالی ڈبیہ اٹھا کر اسے کھولا۔ جس سے اس کا اندر کا حصہ نمایاں ہو گیا۔ اتنے میں یہ تماشا دیکھنے کو ارد گرد خاصی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ ساغر نے کسی سے قلم مانگا اور اس کاغذ کے ٹکڑے پر یہ شعر لکھا:
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
(ساغر صدیقی بقلم خود)
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
(ساغر صدیقی بقلم خود)
اور وہ پولیس افسر کی طرف بڑھا کر کہا:
یہ صدر صاحب کو دے دینا، وہ سمجھ جائیں گے اور اپنی راہ چلا گیا۔
ساغر صدیقی نے بہت سنہری دور دیکھا تھا مگر پھر وہ آہستہ آہستہ نشے کی دلدل میں ایسے پھنسا کہ پھر باہر نہ نکل سکا اور دنیا نے اُسے فراموش کر دیا۔ ساغر اس لت میں کیسے پڑا، یہ ہمیں وکیپیڈیا کچھ اس طرح بتاتا ہے کہ:
1952ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور اخلاص ہمدردی میں انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔ سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ بدقسمتی سے ایک اور واقعے نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔
اس زمانے میں وہ انارکلی لاہور میں ایک دوست کے والد (جو پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے) مطب کی اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ اسی کمرے میں ان کے ساتھ ایک دوست بھی مقیم تھے (اب نام کیا لکھوں) ان صاحب کو ہر طرح کے نشوں کی عادت تھی۔ ہوتی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ان کی صحبت میں ساغر بھی رفتہ رفتہ اولا بھنگ اور شراب اور ان سے گزر کر افیون اور چرس کے عادی ہوگئے۔ اگر کوئی راہ راست سے بھٹک جائے اور توفیق ایزدی اس کی دستگیری نہ کرے، تو پھر اس کا تحت الثری سے ادھر کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔
یہی ساغر کے ساتھ ہوا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ان کے دوستوں میں سے بیشتر ان کے ساتھ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اورمارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو آنا جانا چھوڑ دیا۔ اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت "بے خود" رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور بالکل آوارہ ہوگیا۔ نوبت بايں رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک ہی میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پاؤں۔۔۔۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹلیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دوکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا۔
اب اس کی یہ عادت ہو گئی کہ کہیں کوئی اچھے وقتوں کا دوست مل جاتا تو اس سے ایک چونی طلب کرتا۔ اس کی یہ چونی مانگنے کی عادت سب کو معلوم تھی چنانچہ بار بار ایسا ہوا کہ کسی دوست نے اسے سامنے سے آتے دیکھا اور فورا جیب سے چونّی نکال کر ہاتھ میں لے لی۔ پاس پہنچے اور علیک سلیک کے بعد مصافحہ کرتے وقت چونی ساغر کے ہاتھ میں چھوڑ دی۔ وہ باغ باغ ہو جاتا۔ یوں شام تک جو دس بیس روپے جمع ہو جاتے، وہ اس دن کے چرس اور مارفیا کے کام آتے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔ فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنے لگا۔ اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیں مانگے گا۔ساغر صدیقی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرے۔اور ان کی وفات بھی اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔
ساغر کی تاریخَ وفات کے متعلق میں نے کچھ کتابوں میں 18 جولائی پڑھا ہے جبکہ وکیپیڈیا پہ 19 جولائی لکھا ہوا ہے۔ اگر کسی علم میں درست تاریخ ہو تو مطلع فرمائیں۔ بہرحال جولائی 1974ءصبح کے وقت اس کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون!
ساغر کے شعری مجموعوں میں غمِ بہار، زہرِ آرزو، لوحِ جنوں، شبِ آگہی اور سبز گنبد شامل ہیں۔
ساغر صدیقی کہا کرتے تھے کہ "لاہور میں بہت قیمتی خزانے دفن ہیں مگر انہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا سکتا ۔" اور بے شک ساغر صدیقی بھی انہی خزانوں میں سے ایک ہیں۔
ساغر صدیقی کی کچھ تصاویر جو گوگل سے لی گئی ہیں۔
جناب شاہد دہلوہی صاحب کی طرف سے ساغر صدیقی کا خود نوشت شعری عکس بھی موصول ہوا۔ جس پہ میں اُن کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں۔
(نوٹ: یہ مضمون مختلف ویب سائٹس اور کتابوں سے لیکر ترتیب دیا گیا ہے)
31 Response to "ساغر صدیقی اردو شاعری کا ایک معتبر اور قدآور نام "
بالکل صحیح ۔۔ ساغر صدیقی کے یہ حالات زندگی مستند ترین ہیں ۔ ۔۔ اس میں آخر میں یہ اضافہ کر دیجئے کہ ساغر صدیقی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرے۔اور ان کی وفات بھی اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بھی آخری ایام میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا
شکریہ ناجی صاحب میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے۔
آپ کے مطابق میں نے اضافہ کر دیا ہے اور غزل کا مقطع جو میں لکھنے سے رہ گیا تھا وہ بھی لکھ دیا ہے۔
بہت خوشی ہوئی کہ آپ ساغر صدیقی سے مل چکے ہیں، پھر آپ کے پاس تو ان کی کوئی تصویر لازمی ہو گی۔
اگر ہے تو پلیز اسے انٹرنیٹ پہ شریک کریں کیونکہ میں کوشش کے باوجود ساغر کی یہ صرف چار تصاویر ہی گوگل سے ملی ہیں۔
دیری کی معافی چاہتا ہوں ۔۔ محترم اس وقت میں تصاویر وغیرہ کا اتنا شوق اور شعور کہاں ہوتا تھا۔۔۔ویسے یہ آخری تصویر ساغر صدیقی کے آخری ایام میں سے ہے ۔۔۔۔۔مجھے یاد ہے اس دور میں ہم ہیرا منڈی کنجریوں کے انٹرویو کے لئے جاتے وقت بھی کیمرہ ساتھ نہیں رکھتے تھے۔جس کا مجھے آج افسوس ہوتا ہے۔۔۔نہیں تو آج کے بہت سے معتبر نام ہمارے پاس رکھی تصویروں سے جڑے ہوتے۔
نوٹ ‘ کنجری لفظ پر برا نہ منایا جائے ۔۔۔ کیونکہ اس وقت ہیرا منڈی میں عورتوں کو اسی نام سے یاد کیا اور بلایا جاتا تھا جس کا کوئی بھی برا نہیں مناتا تھا۔کیونکہ بات اسی دور کی تھی تو میں نے اسی دور کے ہی الفاظوں کو استمال کیا ہے
جناب ایک دفعہ پھر جواب دینے کے لئے بلاگ پہ تشریف آوری کا شکریہ۔
چلیں اگر تصویر نہیں تو کچھ ساغر صدیقی کے متعلق کچھ واقعات ہوں جو آپ کی زندگی کا یاد گار لمحات میں سے ہوں گے، میری خواہش ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ انہیں منظرِعام پہ بھی لائیں۔
محترم واقعات تو بہت سے ہیں ۔۔ کیا کیا سنائیں ۔ کوئی فائدہ بھی تو نہیں کیونکہ بری یادوں میں سے کبھی کوئی خیر کا پہلو تو نہیں نکل سکتا۔اس لئے کچھ چیزوں پر مٹی کا پڑا رہنا اچھا ہوتا ہے اور ویسے بھی مٹی سارے عیبوں کو چھپا لیتی ہے
جیسا آپ بہتر سمجھیں۔
ویسے اگر آپ کا کوئی فیس بک ایڈریس وغیرہ ہو تو ضرور عنایت فرمائیں اور اب بلاگ پہ آتے جاتے رہے گا اور اپنے قیمتی مشوروں اور باتوں سے نوازتے رہیے گا۔
میں اس حوالے سے خوش قسمت ہوں کہ ساغر صاحب اپنی زندگی کے آخری دو برس ہمارے ہاں مقیم رہے سو اس دور کی بہت یادیں آج بھی کسی کل کی طرح دل میں ہیں
میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ تحریر کہیں سے کاپی کی ہے کیونکہ یہ اپ کے دور سے بہت پہلے کی باتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وعدہ ہے جو کسی کا وفا ہوتا نہیں
اس مصرع کو درست کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں ۔۔۔۔۔
آپ کے مضمون میں بہت سے حقائق بالک سچ ہیں لیکن کچھ باتیں لکھاری نے من گھڑت بھی شامل کیں ہیں
نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کے کار خاص اہلکاروں کو جو شعر حاجی نہاری شاپ کے سامنے پان سگریٹ کی دوکان کے تھڑے پر بیٹھے کے ٹو کی ڈبی پر لکھ کر ایوب خان کیلئے دیا گیا تھا وہ کچھ یوں تھا
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
@فاروق درویش
جناب پھر تو یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ اُس کی دور کچھ یادیں انٹرنیٹ پہ شئیر کرنا پسند کریں گے۔
یہ ساغر کے چاہنے والوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہو گا۔
@Farooq Darwaish
مصرع درست کر دیا ہے۔
اور ساغر صاحب تو میرے پیدا ہونے سے بھی 20 برس پہلے وفات پا گئے تھے۔
یہ مضمون مختلف ذرائع سے ہی لیا گیا ہے، میں نےآخر میں لکھا ہے۔
ميرے روحاني استاد ساغر صديقي هيں ايك كتاب ميں پڑھا تھا كه انوں نے صدر ايوب صاحب كو جو جواب لكھا وه ذيل تھا كيا يه درست هے
هم سمجھتے هيں ذوق سلطاني = يه كھلونوں سے بهل جاتا هے
7 November 2012 21:37
@usama jamshaid
کوئی کچھ کہہ رہا اور کوئی کچھ اور۔ آج میں اس مضمون کو اردو محفل پہ شئیر کروں گا، امید ہے کچھ حل نکل آءے گا۔
بهتر جناب
ساغر صدیقی نے کچھ عرصہ ملتان میں بھی گذارا، وہ میرے ماموں شمس
الدین مسلم (جو خود بھی شاعر تھے)کے دوست تھے.ماموں کی کتابوں سے
ساغر صدیقی مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ایک شعر ملاتھا جس کا عکس میں ارسال
کر سکتا ہوں،طریقہ بتا دیجئے.شاہد دہلوی،ملتان
@shahid
بہت خوشی ہوئی یہ جان کے۔
آپ مجھے میرے برقی پتہ وہ عکس ارسال کریں۔
مشکور و ممنون ہوں آپ کا۔
bilalazam31@gmail.com
Great Site you should carry on your stuff.. Very informative site....
پڑه کے بہت اچہا لگا
جناب اداب.آج اتفافا يه سايٹ ديكهنے كو ملا ساغر صاحب كے بارے ميں آپ نے جو كوشش كى ،پڑه كر جو مسرت هوئى بيان نهيں كرسكتا.آور اينده باقاعدگى كيساته مستفيد هونے كى كوشش كروں گا.الله اپ كو همت اور لمبى عمر عطا كريں.امين. وقاراحمد ملاكنڈ
هم جانتے هیں ! ذوق سلطانی کیا هے == کهلونے دے کر! بِهلاَیا گیا هے
یه تحریر کر کے دیا تها...
هم جانتے هیں ! ذوق سلطانی کیا هے == کهلونے دے کر! بِهلاَیا گیا هے
یه تحریر کر کے دیا تها...
@mohammad javed
ساغر صا حب کی یادوں کو زندہ رکھنے والے تمام احباب کی خدمت میں محبت بھرا سلام
میرا سیدھا سادہ مزاج تھا مجھے عشق ہونے کی کیا خبر
تیرے اک تبسم ناز نے میرے سارے ذوق بدل دیے
دو بھائیوں کا بٹوارہ
شاعر: ممتاز ناز
چھوٹا بھرا وڈے کو آکھنائے
میں وی ہار گیاں توں وی ضد سٹ گَت پَراں من ونج ہار ونڈھاں چا
ہنڑ ناز گزارا نئیں ھوندا نہ کر تکرار ونڈھاں چا
نِت روز حساب دے رولیاں توں ھِے بہتر یار ونڈھاں چا
کَٹھے پئے ھوئے ہرگز کھڑکدے راہسُن پراں بھنڈے چار ونڈھاں چا
وَڈا بھِرا اسکو جواب ڈینائے
ناں رب دائی ونڈھ بھائیوال نہ کر سکھ بخت دا سایہ توں لَئے لے
گھاٹے لِکھ مجبور دے ظھاتے وچ نفع جتنائی آیائے توں لَئے لے
اساں اَپنڑے پیٹ نوں بُکھ ڈے کے جو یار بچایائے توں لَئے لے
کِڈھے کرنائے دَھن نوں ناّز اساں تیڈے کانڑ کمایائے توں لَئے لے
مزید آکھنائے
دُکھ تے سُکھ نوں کِنج ونڈھاں گے ،،،دُھپ تے چھاں نوں کنج ونڈھاں گے
کر لیواں گے وکھرے ویہڑے ،،،دل دی تھاں نوں کنج ونڈھاں گے
گھر تے باہر وی ونڈھ لیواں گے،،،کاروبار وی ونڈھ لیواں گے
ناّز اس گَل دی سمجھ نی آندیپیو تے ماء نوں کنج ونڈھاں گے
دو بھائیوں کا بٹوارہ
شاعر: ممتاز ناز
چھوٹا بھرا وڈے کو آکھنائے
میں وی ہار گیاں توں وی ضد سٹ گَت پَراں من ونج ہار ونڈھاں چا
ہنڑ ناز گزارا نئیں ھوندا نہ کر تکرار ونڈھاں چا
نِت روز حساب دے رولیاں توں ھِے بہتر یار ونڈھاں چا
کَٹھے پئے ھوئے ہرگز کھڑکدے راہسُن پراں بھنڈے چار ونڈھاں چا
وَڈا بھِرا اسکو جواب ڈینائے
ناں رب دائی ونڈھ بھائیوال نہ کر سکھ بخت دا سایہ توں لَئے لے
گھاٹے لِکھ مجبور دے کھاتے وچ نفع جتنائی آیائے توں لَئے لے
اساں اَپنڑے پیٹ نوں بُکھ ڈے کے جو یار بچایائے توں لَئے لے
کِڈھے کرنائے دَھن نوں ناّز اساں تیڈے کانڑ کمایائے توں لَئے لے
مزید آکھنائے
دُکھ تے سُکھ نوں کِنج ونڈھاں گے ،،،دُھپ تے چھاں نوں کنج ونڈھاں گے
کر لیواں گے وکھرے ویہڑے ،،،دل دی تھاں نوں کنج ونڈھاں گے
گھر تے باہر وی ونڈھ لیواں گے،،،کاروبار وی ونڈھ لیواں گے
ناّز اس گَل دی سمجھ نی آندیپیو تے ماء نوں کنج ونڈھاں گے
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺪﮬﮯ ﮨﻮﮰ ﮨﺘﮭﺎﮞ ﺩﺍ ﮐﯽ ﺳﻮﭼﯿﻮئی ﻣﯿﺮﯼ
ﺍﺱ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﺩﺍ ﮐﯽ ﮐﯿﺘﺎئی
ﮐﺪﮮ ﮔﮭﺘﯿﺎئیﻣﯿﺮﯾﺎﮞ ﺗﺮﻟﯿﺎﮞ ﻧﻮﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﯿﭧ
ﻣﺰﯾﺪ ﺩﺍ ﮐﯽ ﮐﯿﺘﺎئی
ﮐﯽ ﮐﯿﺘﺎئی ﺟﮕﺮ ﺩﮮ ﺯﺧﻤﺎﮞ ﺩﺍ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﯿﮍ ﺷﺪﯾﺪ ﺩﺍ
ﮐﯽ ﮐﯿﺘﺎئی
ﭼﻠﻮ ﻋﯿﺪﺍﻟﻔﻄﺮ ﺗﺎﮞ ﺭﻭﻧﺪﯾﺎﮞ ﻧﺒﮫ گئ ﮨن ﺩﺱ ﺑﻘﺮ عید
ﺩﺍ ﮐﯽ ﮐﯿﺘﺎئی
جام پر جام پینے سے کیا فائدہ صبح تک تو یہ ساری اتر جائے گی
تیری نظروں سے پی ہے خدا کی قسم عمر ساری نشے میں گزر جائے گی
نجے چھڈ گیؤں ویکھ کے پاٹیاں لیراں اصلی رنگ ویکھ تاں لئیں ھا.
ساڈے صدق دی صادق وینہڑی وچ سچ دی ونگ ویکھ تاں لئیں ھا.
بندے دشمنڑاں تے وی وس پوندن کر کے سنگ ویکھ تاں لئیں ھا.
کیڈے مخلص "درد" غریب ھوندن بھلا کئی ڈنگ ویکھ تاں لئیں ھا.
انجے چھڈ گیؤں ویکھ کے پاٹیاں لیراں اصلی رنگ ویکھ تاں لئیں ھا.
ساڈے صدق دی صادق وینہڑی وچ سچ دی ونگ ویکھ تاں لئیں ھا.
بندے دشمنڑاں تے وی وس پوندن کر کے سنگویکھ تاں لئیں ھا.
کیڈے مخلص "درد" غریب ھوندن بھلا کئی ڈنگ ویکھ تاں لئیں ھا.
ہم سمجھتے ہیں زوق سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتاہے
اگر حیات ساغر کی ورق گردانی اور مطالعے کی بابت اپنی ید پہ تکیہ کر کے کہوں تو بہت سی کتب میں صدر ایوب کی دعوت کے جواب میں ساغر صدیقی کا یہ شعر مکتوب ہے
۔ واللہ اعلم
اپنی یاد
nice and pray for saghar sab May Allah bless him
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔