ایک زمین۔۔۔دو شاعر (علامہ اقبالؒ، عبد الحئ عارفی)۔۔۔دو غزلیں
علامہ اقبالؒ کی غزل:
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں
سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں
سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں
کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں
سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و
خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں
سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا
قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں
سمجھا تھا میں
کہہ گئیں راز محبت پردہ
داریہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں
سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہرو کی صداۓ
درد ناک
جس کو آواز رحیلِ کارواں
سمجھا تھا میں
مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحئ عارفیؔ کی غزل:
عیشِ بزمِ دوست، عیشِ جاوداں
سمجھا تھا میں
یہ بھی اک خوابِ سحر ہے یہ کہاں
سمجھا تھا میں
مجھ کو اپنی بیخودی کا وہ بھی
عالم یاد ہے
لذتِ درد نہاں بھی بارِ خاطر
تھی مجھے
کچھ اسے بھی اک حجابِ درمیاں
سمجھا تھا میں
یادِ عہدِ آرزو بھی رفتہ رفتہ
مٹ گئی
اور اسی کو حاصلِ عمرِ رواں
سمجھا تھا میں
کیا غلط تھا اے دلِ نا عاقبت
اندیش اگر
ان سے امیدِ وفا کو رائیگاں
سمجھا تھا میں
منزلِ ذوقِ طلب میں، جادۂ
ہستی سے دور
تم وہیں آخر ملے مجھ کو جہاں
سمجھا تھا میں
رفتہ رفتہ ہو گئی برہم زن صبر
و قرار
یاد اُن کی باعث تسکیں جاں
سمجھا تھا میں
اللہ اللہ تھی انہیں کے پائے
نازک پر جبیں
بیخودی میں سجدہ گہ کو آستاں
سمجھا تھا میں
دل کی باتیں ان سے کہہ دیں اس
طرح دیوانہ وار
جیسے ان کو اپنے دل کا راز
داں سمجھا تھا میں
عارفیؔ کیا مجھ پہ ہوتا رنج و
راحت کا اثر
زندگی کو دھوپ چھاؤں کا سماں
سمجھا تھا میں