حکیم سید ضامن علی جلالؔ
جلالؔ 1834ء میں پیدا ہوئے اور 1907ء میں وفات پائی۔
جلال کا کلام بہت مستند اور قابلِ قدر ہے۔ غزلیں بہت لطیف
اور دلآویز ہوتی ہیں۔ عاشقانہ رنگ غالب ہے اور کلام میں جذبات کی آمیزش ہے۔ ان کی
اکثر غزلیں لطافتِ بیان، نزاکتِ خیال، درد و اثر اور سوز و گداز کا اعلیٰ نمونہ
کہی جا سکتی ہیں۔
چنانچہ خود کہتے ہیں:ـ
بے ساختہ کی تھام کے دل اس نے
جلالؔ آہ
جس نے مرے دیوان کے اشعار کو
دیکھا
اور اس کا اظہار ان کے کلام سے بھی ہوتا ہے
اسیرِ قفس اب تو ہیں ہم صفیرو
کبھی لوگ کہتے تھے مرغِ چمن
بھی
آنسو رُکے تو کیا، نہیں چھپنے
کا رازِ عشق
حسرت ٹپک پڑے کی ہماری نگاہ
سے
کیا تھی کسی کی ترچھی نظر،
کچھ نہ پوچھیے
اک تیر تھا، کلیجہ کے جو پار
ہو گیا
نہ دل بنتا یار اپنا، نہ تم
پر اختیار اپنا
کسی پر ہائے قابو بے بسی سے
ہو نہیں سکتا
چاہتا ہوں کہیں گر پڑ کے رسا
ہو جانا
تو ہی رہبر مری اے لغزشِ پا
ہو جانا
کیا بتاؤں تجھے قاصد وہ کہاں
رہتا ہے
دل سے دور اور قریبِ رگِ جاں
رہتا ہے
اجل نے شب کو مرا قصہ مختصر
نہ کیا
چراغِ زیست کو رخصت دمِ سحر
نہ کیا
اک قدم جانا جدھر دشوار تھا
شوق لے کر سینکڑوں منزل گیا
لاکھ دل میں لے کے آیا تھا
جلالؔ
پھر بھی بزمِ یار سے بے دل
گیا
جفا کرتے ہیں کب تک با وفاؤں
پر وہ، دیکھیں
ہمیں جو آزماتے تھے، اب ان کا
امتحاں ہو گا
نگہ مست سے تیری وہ ٹپکتی ہے
شراب
جو سبو میں نہیں، خم میں
نہیں، ساغر میں نہیں
گناہِ عاشقی خواہانِ تعزیر آپ
ہوتا ہے
بتا دیتا ہے شوقِ دار خود
منصور ہو جانا
بڑے سامان سے دل جستجو کو اُس
کی نکلا ہے
چلا ہے لے کہ اک مجمع نظر
ہائے پریشاں کا
کاش مر جائے کسی کوچہ میں ہم
فرقت نصیب
یاد تو کرتا کوئی کہہ کر کبھی
بنتِ نصیب
جب آپ سرِ نہاں ہوئے ہیں تو
رازِ الفت عیاں ہوئے
جو مٹ کے خود لامکاں ہوئے
ہیں، سراغ پایا ہے لا مکاں کا
غرق دریائے محبت ہی کا بیڑا
پار ہوا
ڈوبنے والے سے بہتر کوئی
پیراک نہیں
کیا پھوٹ کے روئے ہیں مرے
پاؤں کے چھالے
پوچھی تھی ذرا چھیڑ کے تکلیفِ
سفر آج
کیا جان پہ کھیلے گا اس انداز
سے کوئی
اس کھیل کو سیکھے ترے جانباز
سے کوئی
(انتخاب: اردو شاعری پر ایک نظر از محمد جمیل
احمد)
No Response to "حکیم سید ضامن علی جلالؔ "
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔