جناب محترم سہیل رضا ڈھوڈی صاحب کی جانب سے آج ایک نہایت افسوسناک خبر موصول ہوئی۔
ممتاز دانشور اور ماہر اقبالیات، بزم اقبالؒ حکومت پنجاب کے کنسلٹنٹ، معروف کالم نگار علامہ پروفیسر محمد مظفر مرزا کو گزشتہ روز سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی
میں قبرستان میانی صاحب میں سپردخاک کردیا گیا۔ مرحوم کی نمازجنازہ دفتر بزم اقبال متصل ایوان کارکنان تحریک پاکستان، 100شاہراہ قائداعظمؒ لاہور مادر ملتؒ پارک میں صبح گیارہ بجے ادا کی گئی۔ سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف حضرت پیر سید محمد کبیر علی شاہ گیلانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔
4 Response to "ماہرِ اقبالیات علامہ پروفیسر محمد مظفر مرزا اب ہم میں نہیں رہے"
علامہ اقبالؒ نظریہ پاکستان اور ملت اسلامیہ
کالم نگار | پروفیسر محمد مظفر مرزا
ملت اسلامیہ ازروئے امت و ملت دوسروں سے یکسر اور بالکل مختلف ہے، ہر ملت و امت میں قبائل اور شعوب پائے جاتے ہیں۔ قومیتیں پائی جاتی ہیں لیکن ملت اسلامیہ کی حیثیت ہمیشہ فوق الاقوام ہوتی ہے اور پھر اسی حوالے سے ملت اسلامیہ وطنوں، رنگوں، نسلوں اور زبانوں سے اعلیٰ ترین حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی قوم بھی اپنے وطن پاکستان کی وجہ سے پاکستانی کہلائی۔ اس کی برتر حیثیت ملت کہلائی اور ملت اسلام کی وجہ سے کہلائی، ملت کا مصدر اور اساس،اشتراکِ عقیدہ بن گیا۔ جب اشتراک عقیدہ مستحکم ہوا تو وطنی نسلی اور لسانی حیثیت ایک طرف رہ گئی۔ لہذا یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مسلم ملت کی بنیاد اساس، مصدر، منبع، سرچشمہ دیگر اقوام سے مختلف ٹھہرا۔ سید نذیر نیازی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے”اسلام قیدِ وطن سے آزاد ہے۔ اس کا مقصد ہے ایک ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل جو مختلف نسلوں اور قوموں کو باہم جمع کرتے ہوئے ایک ایسی امت تیار کرے جس کا اپنا ایک مخصوص شعورِ ذات ہو“۔(اقبال کے حضور، صفحہ نمبر15)اسی ایک مخصوص شعورِ سات نے اسلامی نقطہ نظر سے ایک ایسا نظریہ عطا کیا، جس نے خون کی نفی کر دی، اگر باپ مسلمان ہے اور بیٹا کافر تو دونوں ایک دوسرے کے کچھ نہیں لگتے، چنانچہ ہمارے سامنے جنگِ بدر اور جنگِ احد کے واقعات کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ حضور اکرم ایک طرف تھے تو دوسری طرف ان کے چچا عباس بن عبدالمطلب، حضرت زینبؓ کے خاوند، حضور اکرم کے داماد بھی مخالف کیمپ میں تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ساتھ تھے اور ان کے فرزند عبدالرحمن مخالف کیمپ میں تھے۔ حضرت عمرؓ ایک طرف تھے اور ان کے سگے ماموں دوسری طرف تھے۔ حضرت علی حضور اکرم کے ساتھ تھے تو دوسری طرف ان کے چچا اور بھائی عقیل تھے، حضرت ابو حذیفہؓ حضور اکرم کے ساتھ تھے تو ان کے والد عتبہ بن ربیعہ مخالف کیمپ میں تھے۔ بہر حال حضرت صہیب رومی تھے، حضرت سلمان فارسی، ایرانی تھے۔ حضرت بلالؓ حبشی تھے، یہ سبھی قریش میں سے نہ تھے لیکن ایک امت مسلمہ کے افراد تھے۔ اس نظریے نے یہ ثابت کیا کہ ملت اسلامیہ ایک اصولی، روحانی، نظریاتی، دینی، اسلامی اور قرآنی اساس کی مالک ہے۔ جس میں حسب ونسب، رنگ و خون، مال و دولت، ثروت و حشمت کا کوئی دخل نہیں، یہی وہ نظریہ تھا جس نے برصغیر کے جغرافیائی زمان و مکان کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور تخلیق پاکستان کا نعرہ بن گیا، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔
بقیہ تحریر کے لیے :
https://www.facebook.com/groups/apnamuqaampaidaker/doc/508167759216207/
سہیل رضا ڈوڈھی
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ سبحانہ و تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق نصیب کرے۔ آمین
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ سبحانہ و تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے
انا للہ و انا الیہ راجعون ,اللہ درجات بلند فرمائے
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔