اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے


اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے

جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے

تم نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پہ اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے

تم محبت میں کہاں سو د و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے

اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کُن فیکوں ہے یوں ہے

(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص32)

2 Response to "اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے "

علی said... Best Blogger Tips[کمنٹ کا جواب دیں]Best Blogger Templates

عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے
بہت خوب

محمد بلال اعظم said... Best Blogger Tips[کمنٹ کا جواب دیں]Best Blogger Templates

@علی

غزل کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ علی صاحب

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px