عشق کلفت ہے نہ دریائے فسوں ہے یوں ہے۔۔۔اسد قریشی


احمد فراز صاحب کی اس مشہورِ زمانہ غزل (اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے) کی زمین میں کہی گئی جناب اسد قریشی صاحب کی یہ غزل، جو بیحد خوبصورت ہے، اسد صاحب کی اجازت سے آپ سب کے لئے بلاگ پہ پیش کر رہا ہوں۔

غزل

عشق کلفت ہے نہ دریائے فسوں ہے یوں ہے
ہجر وحشت نہ سکوں ہے، نہ جنوں ہے یوں ہے

آنکھ میں آکے لَہو اب تو ٹھہر جاتا ہے
ایک قطرہ ہے دَروں ہے نہ بَروں ہے یوں ہے

گر ضروری ہے محبت میں تڑپنا دل کا
کھینچنا آہ کا بھی کارِسکوں ہے یوں ہے

لفظ جی اُٹھتے ہیں قرطاس پہ آتے آتے
ہاتھ میرے بھی کوئی کُن فیَکوں ہے یوں ہے

خال و خَد حُسن کے تُجھ سے نہ بیاں ہونے کے
صرف لفاظی ہے کہتا ہے کہ یوں ہے یوں ہے

ہم اسد دل میں بسا رکھتے ہیں دنیا ساری
ورنہ کہنے کو یہ بس قطرہِ خُوں ہے یوں ہے

(اسد قریشی)

No Response to "عشق کلفت ہے نہ دریائے فسوں ہے یوں ہے۔۔۔اسد قریشی"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px