ریاضی کے کمالات


Sequential Inputs of numbers with 8
1 x 8 + 1 = 9
12 x 8 + 2 = 98
123 x 8 + 3 = 987
1234 x 8 + 4 = 9876
12345 x 8 + 5 = 98765
123456 x 8 + 6 = 987654
1234567 x 8 + 7 = 9876543
12345678 x 8 + 8 = 98765432
123456789 x 8 + 9 = 987654321


Sequential 1's with 9
1 x 9 + 2 = 11
12 x 9 + 3 = 111
123 x 9 + 4 = 1111
1234 x 9 + 5 = 11111
12345 x 9 + 6 = 111111
123456 x 9 + 7 = 1111111
1234567 x 9 + 8 = 11111111
12345678 x 9 + 9 = 111111111
123456789 x 9 + 10 = 1111111111


Sequential 8's with 9
9 x 9 + 7 = 88
98 x 9 + 6 = 888
987 x 9 + 5 = 8888
9876 x 9 + 4 = 88888
98765 x 9 + 3 = 888888
987654 x 9 + 2 = 8888888
9876543 x 9 + 1 = 88888888
98765432 x 9 + 0 = 888888888


Numeric Palindrome with 1's
1 x 1 = 1
11 x 11 = 121
111 x 111 = 12321
1111 x 1111 = 1234321
11111 x 11111 = 123454321
111111 x 111111 = 12345654321
1111111 x 1111111 = 1234567654321
11111111 x 11111111 = 123456787654321
111111111 x 111111111 = 12345678987654321


Without 8
12345679 x 9 = 111111111
12345679 x 18 = 222222222
12345679 x 27 = 333333333
12345679 x 36 = 444444444
12345679 x 45 = 555555555
12345679 x 54 = 666666666
12345679 x 63 = 777777777
12345679 x 72 = 888888888
12345679 x 81 = 999999999


Sequential Inputs of 9
9 x 9 = 81
99 x 99 = 9801
999 x 999 = 998001
9999 x 9999 = 99980001
99999 x 99999 = 9999800001
999999 x 999999 = 999998000001
9999999 x 9999999 = 99999980000001
99999999 x 99999999 = 9999999800000001
999999999 x 999999999 = 999999998000000001
......................................


Sequential Inputs of 6
6 x 7 = 42
66 x 67 = 4422
666 x 667 = 444222
6666 x 6667 = 44442222
66666 x 66667 = 4444422222
666666 x 666667 = 444444222222
6666666 x 6666667 = 44444442222222
66666666 x 66666667 = 4444444422222222
666666666 x 666666667 = 444444444222222222
......................................

فرمانِ الٰہی


فرمانِ الٰہی
ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے(اس نبیﷺ کی دعوت) کو مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو!اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ پھر جن لوگوں نے دعوت حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لئے اچھا انجام ہے۔
(سورة الرعد)


علامہ اقبال اورمسئلہ فلسطین


علامہ اقبال اورمسئلہ فلسطین

علامہ اقبال کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے سوا'عالم اسلام کے تمام خطوں پرغاصب استعماری مسلط تھے۔سلطنت عثمانیہ داخلی خلفشار اورکمزوریوں میں گرفتار تھی'اس لئے اس کے مغربی دشمن اسے The Sick Man Of  Europe کہتے تھے'اوراس پردندان آزتیزکئے بیٹھے تھے۔20ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندوستان میں خلافت کی بقا اوربحالی کے لئے جو تحریک شروع ہوئی ،اقبال اس کے پوری طرح مدیّد تھے۔یہی زمانہ تھا جب یہودی سرزمین فلسطین میں اپنے قدم جمارہے تھے مگرمجموعی حیثیت سے 'مسئلہ فلسطین 'ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔یہود، فلسطین کے اصل باشندے (Son of the Soil) نہیں ہیں۔وہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں واردہوئے'یہاں کے قدیم فلسطینیوں کونکال باہر کیا اور خود ان کی سرزمین پرقبضہ کرکے بیٹھ گئے۔آئندہ صدیوںمیں یہود کئی بار فلسطین سے نکالے گئے ہیں اوران کے ہیکل سلیمانی کوبھی نیست ونابود کردیاگیا۔ان کی دربدری کے زمانے میں پورے یورپ میں کوئی انہیں منہ نہ لگاتاتھا۔یہ مسلمان تھے جنہوں نے ان کی دستگیری کی۔خاص طور پراندلس کے مسلم حکمرانوں کے حسن سلوک کی وجہ سے 'اندلس میں یہودطویل عرصے تک نہایت خوش وخرم رہے اورامن واطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔پھر سقوط غرناطہ کے بعدجب عیسائیوں نے انہیںکھدیڑکروہاں سے نکالاتو وہ :''نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ''کی سی کیفیت سے دوچار ہو ئے، ایک بارپھر پورے جہاں میں انہیں کہیں اماں ملی تو عثمانی ترکوں کے ہاں۔یہود مو رخ سلطان سلیم عثمانی (1524ءتاء1547)کے اس احسان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے دیوارگریہ کی جگہ دریافت کرکے اس جگہ کو صاف کراکے یہودکووہاں جانے اورگریہ کرنے کی اجازت دی۔احسان فراموشی یہود کی گھٹی میںپڑی ہے۔عثمانی سلطنت میں رہتے ہوئے وہ آسودہ خوش حال ہوئے توانہوں نے پرپرزے نکالے اور فلسطین اوربیت المقدس پرقبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔معروف واقعہ ہے کہ یہودی دانشور اور رہنما ڈاکٹر تھیوڈورہرزل نے سلطان عبدالحمید ثانی کومالی امداد کالالچ دے کر''یہودی وطن''کے لئے ارض فلسطین کا ایک حصہ خریدنے کی درخواست کی جسے سلطان نے حقارت سے ٹھکرادیا(فلسطین اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا)۔اس پر یہودی انتقام پراترآئے۔سلطنت عثمانیہ اور سلطان کے خلاف ان کی سازشیں رنگ لائیں۔ان کی پہلی کامیابی وہ تھی جب انجمن اتحاد وترقی کی وزارت کے ذریعے 1914ءمیں ایک ایسا قانون پاس کرایاگیا'جس کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں اورجائدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔1916ءمیں وہ برطانیہ سے صہیونیت کی پشت پناہی کے طلب گار ہوئے۔برطانیہ نے اس درخواست کواعلانِ بالفور(دسمبر1917) کی شکل میں پذیرائی بخشی۔انگریزوں کی 'بددیانتی کے شاہ کار'اعلان بالفور کوجنگ عظیم اول کے تمام اتحادیوں کی توثیق حاصل تھی۔جنگ عظیم اوّل (1914ءتا1918)کے خاتمے پربرطانیہ نے عربوں سے کئے گئے تمام تروعدوں سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین پرقبضہ کرلیا۔جس مجلس اقوام (نیشن آف لیگ)کے بارے میں اقبال نے کہاتھا
بہرِتقسیمِ قبور'انجمنے ساختہ اند
اس نے بھی 1922میں یہ خطہ برطانیہ کے انتداب (mandate) میں دے دیا۔یہ برطانوی اقتدار ایک یہودی حکومت ہی کے مترادف تھا'کیونکہ انگریزوں نے اپنی طرف سے فلسطین میں اپنا جو پہلا ہائی کمشنر مقرر کیا (سربرہٹ سیموئل) وہ بھی یہودی تھا۔اسی زمانے میں مقاماتِ مقدسہ کے متعلق تنازعات کے حل کے لئے ایک رائل کمیشن کے قیام کی تجویز انگریزوں کے زیر غور تھی۔ایک مسلمان ممبرکے طور پرعلامہ اقبال کوکمیشن کا ممبر بننے کی پیش کش کی گئی مگرانہوں نے بوجوہ معذرت کرلی۔مسلمانان لاہور نے 7ستمبر 1929 کوانگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف بطوراحتجاج ایک جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔اسی زمانے میں یروشلم میں فلسطینیوں کے قتل وغارت کے الم ناک واقعات رونما ہوئے تھے۔آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں یہودیوں کی ''ہولناک سفاکی ''کی مذمت کی۔علامہ نے یہودیوں کویاددلایا کہ ہیکل سلیمانی کے محل وقوع کی دریافت حضرت عمر نے کی تھی اور یہ ان پرحضرت عمر کا احسان ہے۔پھر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوںنے بقول اقبال:یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کونہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں اعلیٰ مناصب پرفائز کیا۔''یہ کیسی احسان فراموشی ہے کہ بالفاظ اقبال:''فلسطین میں مسلمان'ان کی عورتیں اوربچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے جارہے ہیں۔''دراصل اعلانِ بالفور ہی کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطینیوں کوان کے وطن سے بے دخل کرکے زورزبردستی کے ذریعے ان کی زمینوں پرقبضہ کرنا شروع کردیاتھا۔ان کے دیہات کے دیہات تباہ کردیے گئے۔اگرکسی نے مزاحمت کی تواسے قتل وغارت کانشانہ بنایاگیا۔سفرانگلستان(1931) کے دوران میں'جہا ںبھی موقع ملا،علامہ اقبال نے فلسطین کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے گریز نہیںکیا 'مثلاً:ایک موقع پرانگریزوں کواہل فلسطین کے ساتھ انصاف کی تلقین کی'اورفرمایا کہ اعلان بالفور بالکل منسوخ کردینا چاہیے۔علامہ اقبال پرمسئلہ فلسطین کی نزاکت اوراہمیت اس وقت اور زیادہ واضح ہوئی جب انہوں نے بذات خود فلسطین کاسفرکیا۔دسمبر1931ءمیں فلسطین کے نوروزہ سفرکااصل مقصد مو تمر عالم اسلامی (اسلامی کانفرنس) میں شرکت تھی۔کانفرنس کے داعی سیدامین الحسینی تھے۔اس میں تقریباً 27ملکوں اورعلاقوں کے مندوبین شامل تھے جن میں ارباب علم وفضل بھی تھے اورسیاسی اورملی راہنما بھی۔اسی طرح متعدد واجب الاحترام بزرگ شخصیات اورمجاہدین آزادی اور اپنے اپنے ملکوں کی سیاست میں سرگرم ممبران پارلیمنٹ بھی۔گویا قبلہ اول کے شہر میں عالم اسلام کی منتخب شخصیتیں جمع تھیں۔یوں تو اس کانفرنس کے کئی مقاصدتھے لیکن سب سے اہم مقصدیہ تھا کہ مسلمانوںکو فلسطین پریہودیوں کے ناجائز قبضے کے سنگین مسئلے کااحساس دلایا جائے اور صہیونی خطرے کے خلاف اتحاد عالم اسلام کی تدابیر پرغور کیا جائے۔کانفرنس کے دنوںمیں علامہ اقبال اوران کے ہمراہ غلام رسول مہر کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہے۔ایک نشست میں علامہ اقبال کونائب صدر بنا کر اسٹیج پربٹھایا گیا۔انہوں نے بعض کمیٹیوں کے اجلاس میں شریک ہو کر رپورٹیں مرتب کرنے میں بھی مددکی۔قیام فلسطین کے دوران میں علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کو جتنا بھی وقت اور موقع ملتا ' وہ مقامات مقدسہ اور آثار قدیمہ کی زیارت کو نکل جاتے۔ انہوں نے بیت اللحم میں کلیسا ئے مولد مسیح دیکھا اور الخلیل میںمتعدد پیغمبروں کے مدفنوںکی زیارت بھی کی۔ بیت المقدس شہر میں بھی انہوں نے بہت سے قابل دید مقامات 'عمارات اور آثاردیکھے۔ ایک دن موقع پاکر انہوں نے فلسطین کے اسلامی اوقاف کا بھی معائنہ کیا۔کانفرنس کے مندوبین کو فلسطین کے دوسرے شہروں کا دورہ کرنے کی دعوت ملی'مگر وہ سب جگہ نہیں جاسکے۔ قیام کے آخر ی دن شام کی نشست میں اقبال نے ایک موثرتقریرکی 'جس میں عالم اسلام کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو الحادمادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام کے دشمنوں سے اندیشہ نہیں ہے 'لیکن خود مسلمانوں سے مجھے اندیشہ ہے۔ اقبال نے نوجوانوں کاخاص طور پر ذکر کیا اور مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وطنوں کوواپس جاو تو روح اخوت کوہر جگہ پھیلا دو اوراپنے نوجوانوں پرخاص توجہ دو۔سفرفلسطین سے واپس آنے کے بعد بھی اقبال وائسرائے ہند اوربرطانوی اکابر کو برابر احساس دلاتے رہے کہ برطانیہ کی فلسطین پالیسی صریحاً مسلم مخالفانہ ہے۔اقبال نے اپنا یہ مطالبہ بھی برابر جاری رکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے او راعلان بالفور واپس لیا جائے۔اقبال نے یہ بھی کہا کہ برطانوی پالیسی کے سبب مسلمانان ہند میں زبردست ہیجان واضطراب پیدا ہو رہا ہے۔اسی کا نتیجہ تھا کہ 24،25ستمبر1937ءکوکلکتے میں فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی۔علامہ اقبال اپنی کمزور صحت اوربیماری کے سبب اس میں شریک نہ ہو سکے لیکن وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار اس طرح کر رہے تھے۔
جلتا ہے مگر شام وفلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
اسی زمانے میں انہوں نے کہا
خاک فلسطین پہ یہودی کا ہے اگر حق
ہسپانیہ پرحق نہیں کیوں اہل عرب کا
مقصدہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد ورطب کا
یہ ''مقصدہے… کچھ اور''اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اپنے استعماری عزائم کو جاری رکھنے کے لئے برطانیہ مشرقی وسطیٰ میں ایک مستقل اڈایا ٹھکانا بنانا چاہتا تھا مگرعلامہ اقبال اسے عالم اسلام کے لئے ازحد خطرناک سمجھتے تھے اوراس کے سدباب کے لئے وہ بڑے سے بڑا اقدام اٹھانے کے لئے بھی تیار تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے نام 7اکتوبر 1937ءکے خط میں لکھتے ہیں''ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیارہوں جس سے اسلام اورہندوستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پرمغرب کا ایک اڈابننا اسلام اورہندوستان دونوں کے لئے پر خطرہے۔''اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اقبال آزادی فلسطین کی خاطر انتہائی اقدام کے لئے بھی پر جوش اور پر عزم تھے۔فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت حماس،فلسطینیوں کی موجودہ تحریک آزادی میں مزاحمت کی ایک تابندہ علامت بن چکی ہے'اس نے علامہ اقبال کی نصیحت کو حرزجاں بنا لیا ہے اوروہ یہود کی غلامی سے نجات کے لئے اپنی سی تگ ودو میں مصروف ہے۔اس کے برعکس 50سے زائد مسلم ملکوں کے حکمران الاماشاءاللہ 'صہیونیوں اورامریکیوں کے سامنے جھلک چکے ہیں یاپھر کچھ بک چکے ہیں۔یہ حکمران خصوصاً مسلم بادشاہتیں پسپائی اختیار کر چکی ہیں۔کیوں؟اس لئے کہ ان کاایمان کمزور ہے۔علامہ اقبال کی
 چشم بصیرت نے پون صدی پہلے فلسطینیوں کوخبردارکیاتھاکہ عرب بادشاہتوں پرہرگز اعتماد نہ کریں'کیونکہ یہ بادشاہ لوگ مسئلہ فلسطین پرکوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔پون صدی'اقبال کی بصیرت پرگواہی دے رہی ہے۔
 (یو این این)
(بشکریہ: شکیل احمد چوہان)

تجھ سے مل کر بھی کچھ خفا ہیں ہم


احمد فراز کی ایک شاہکار غزل آپ سب کی نذر

تجھ سے مل کر بھی کچھ خفا ہیں ہم
بے مرّوت نہیں تو کیا ہیں ہم
ہم غمِ کارواں میں بیٹھے تھے
لوگ سمجھے شکستہ پا ہیں ہم
اس طرح سے ہمیں رقیب ملے
جیسے مدت کے آشنا ہیں ہم
راکھ ہیں ہم اگر یہ آگ بجھی
جز غمِ دوست اور کیا ہیں ہم
خود کو سنتے ہیں اس طرح جیسے
وقت کی آخری صدا ہیں ہم
کیوں زمانے کو دیں فراز الزام
وہ نہیں ہیں تو بے وفا ہیں ہم
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

تم کہ سنتے رہے اوروں کی زبانی لوگو


 بہ اندازِ مثنوی قدیم

تم کہ سنتے رہے اوروں کی زبانی لوگو
ہم سناتے ہیں تمہیں اپنی کہانی لوگو

کون تھا دشمنِ جاں وہ کوئی اپنا تھا کہ غیر
ہاں وہی دشمنِ جاں دلبرِ جانی لوگو

زلف زنجیر تھی ظالم کی تو شمشیر بدن
روپ سا روپ جوانی سی جوانی لوگو

سامنے اس کے دِکھے نرگسِ شہلا بیمار
رو برو اس کے بھرے سرو بھی پانی لوگو

اس کی گفتار میں خندہ تھا شگفتِ گل کا
اس کی رفتار میں چشمے کی روانی لوگو

اس کے ملبوس سے شرمندہ قبائے لالہ
اس کی خوشبو سے جلے رات کی رانی لوگو

ہم جو پاگل تھے تو بے وجہ نہیں تھے پاگل
ایک دنیا تھی مگر اس کی دوانی لوگو

عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے یوں بھی
کب رہا کوئی رازِ نہانی لوگو

ایک تو عشق کیا عشق بھی پھر میر سا عشق
اس پہ غالب کی سی آشفتہ بیانی لوگو

حیلہ جُو ویسے بھی ہوتے ہیں زمانے والے
اس پہ آئی نہ ہمیں بات چھپانی لوگو

داستاں کوئی بھی ہو ذکر کسی شخص کا ہو
ہم نے اس نام سے تمہید اٹھانی لوگو

ہاں وہی نام کہ جس نام سے وابستہ ہے
ہر محبت وہ نئی ہو کہ پرانی لوگو

ہم ہی سادہ تھے کیا اس پہ بھروسا کیا کیا
ہم ہی ناداں تھے کہ لوگوں کی نہ مانی لوگو

ہم تو اس کے لئے گھر بار بھی تج بیٹھے تھے
اس ستمگر نے مگر قدر نہ جانی لوگو

کس طرح بھول گیا قول و قسم وہ اپنے
کتنی بے صرفہ گئی یاد دہانی لوگو

جس طرح تتلیاں باغوں سے سفر کر جائیں
جیسے الفاظ میں مر جائیں معانی لوگو

اب غزل کوئی اترتی ہے تو نوحے کی طرح
شاعری ہو گئی اب مرثیہ خوانی لوگو

شمع رویوں کی محبت میں یہی ہوتا ہے
رہ گیا داغ فقط دل کی نشانی لوگو

(احمد فراز)
(خوابِ گل پریشاں ہے)

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا


نعت

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
سانس لیتا تُو اور میں جی اٹھتا
کاش مکہ کی میں فضا ہوتا
ہجرتوں میں پڑا ہوتا میں
اور تُو کچھ دیر کو رکا ہوتا
تیرے حجرے کے آس پاس کہیں
میں کوئی کچا راستہ ہوتا
بیچ طائف بوقتِ سنگ زنی
تیرے لب پہ سجی دعا ہوتا
کسی غزوہ میں زخمی ہو کر میں
تیرے قدموں میں جا گرا ہوتا
کاش احد میں شریک ہو سکتا
اور باقی نہ پھر بچا ہوتا
تری کملی کا سوت کیوں نہ ہوا
تیرے شانوں پہ جھولتا ہوتا
چوب ہوتا میں تری چوکھٹ کی
یا تیرے ہاتھ کا عصّا ہوتا
تیری پاکیزہ زندگی کا میں
کوئی گمنام واقعہ ہوتا
لفظ ہوتا کسی میں آیت کا
جو تیرے ہونٹ سے ادا ہوتا
میں کوئی جنگجو عرب ہوتا
اور تیرے سامنے جھکا ہوتا
میں بھی ہوتا تیرا غلام کوئی
لاکھ کہتا نہ میں رہا ہوتا
سوچتا ہوں تب جنم لیا ہوتا
جانے پھر کیا سے کیا ہوا ہوتا
چاند ہوتا تیرے زمانے کا
پھر تیرے حکم سے بٹا ہوتا
پانی ہوتا اداس چشموں کا
تیرے قدموں میں بہہ گیا ہوتا
پودا ہوتا میں جلتے صحرا میں
اور تیرے ہاتھ سے لگا ہوتا
تیری صحبت مجھے ملی ہوتی
میں بھی تب کتنا خوشنما ہوتا
مجھ پہ پڑتی جو تیری چشمِ کرم
آدمی کیا میں معجزہ ہوتا
ٹکڑا ہوتا میں ایک بادل کا
اور ترے ساتھ گھومتا ہوتا
آسمان ہوتا عہدِ نبویﷺ کا
تجھ کو حیرت سے دیکھتا ہوتا
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور تیرے پاﺅں چومتا ہوتا
پیڑ ہوتا کھجور کا میں کوئی
جس کا پھل تُو نے کھا لیا ہوتا
بچہ ہوتا غریب بیوہ کا
سر تیری گود میں چھپا ہوتا
رستہ ہوتا تیرے گزرنے کا
اور تیرا رستہ دیکھتا ہوتا
بت ہی ہوتا میں خانہ کعبہ میں
جو تیرے ہاتھ سے فنا ہوتا
مجھ کو خالق بناتا غار حَسن
اور میرا نام بھی حرا ہوتا
(حسن نثار)

!میں نے اِس طور سے چاہا تجھے


!میں نے اِس طور سے چاہا تجھے 

!میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
!!جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کو ہِوا رنگ سے ہٹ کر چاہے

جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ پا مانگتے ہیں

میرا ہر خواب میرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تیری خواہش کی ہے
!میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے

خواہشِ دید کا موسم کبھی دھندلا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے

!میں نے چاہا کہ تیرے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ میرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے

طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں میں تکلم تیرا
رقص کرتا رہے بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا

!تُو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ َکرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تُو بھی
!چارئہ زخمِ غمِ دیدئہ تر کر نہ سکی

تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے؟
تو کہ سیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے؟

تُو نے اُس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
!دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں

اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گی تیری دید کا منظر جاناں

مجھ سے مانگے گا تِرے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں

یُوں مِرے دل کے برابر تیرا غم آیا ہے
!جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں

جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
!میں نے اِس طَور سے چاہا تجھے اکثر جاناں

(محسن نقوی)
(عذابِ دید)

اب کہ تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں


غزل

اب کہ تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
ےاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں
یونہی موسم کی ادا دیکھ کے ےاد آےا ہے 
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی تو ترے نام کی ہے
ہم نے جیسی بھی بسر کی ترا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے شاید ہو فسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اوّل اوّل کی محبت کے نشّے ےاد تو کر
بے پئے بھی ترا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
مدّتوں سے یہی عالم نہ توقّع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
اب کے کچھ ایسی سجی محفلِ یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بگریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اُٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہی زنجیر بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخلِ زنداں جاناں
اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہم کہ روٹھی ہوئی رُت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسمِ ہجراں جاناں
ہوش آےا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اوراقِ پریشاں جاناں

(احمد فراز)
(جاناں جاناں)

بیادِ فیض


بیادِ فیض

قلم بدست ہوں حیران ہوں کہ کیا لکھوں
میں تیری بات کہ دنیا کا تذکرہ لکھوں
لکھوں کہ تُو نے محبت کی روشنی لکھی
ترے سخن کو ستاروں کا قافلہ لکھوں
جہاں یزید بہت ہوں، حسینؓ اکیلا ہو
تو کیوں نہ اپنی زمیں کو بھی کربلا لکھوں
ترے بغیر ہے ہر نقش ”نقشِ فریادی“
تو پھول ”دستِ صبا“ پر ہے آبلہ لکھوں
مثالِ ”دستِ تہہِ سنگ“ تھی وفا ان کی
سو کس طرح انہیں یارانِ با صفا لکھوں
حدیثِ کوچہِ قاتل ہے نامہءزنداں
سو اس کو قصہءتعزیرِ ناروا لکھوں
جگہ جگہ ہیں ”صلیبیں مرے دریچے میں
سو اسمِ عیسیٰ و منصور جا بجا لکھوں
گرفتہ دل ہے بہت ”شامِ شہریاراں“ آج
کہاں ہے تُو کہ تجھے حالِ دلبرا لکھوں
کہاں گیا ہے ”مرے دل مرے مسافر“ تُو
کہ میں تجھے رہ و منزل کا ماجرا لکھوں
تُو مجھ کو چھوڑ گیا لکھ کے ”نسخہ ہائے وفا
میں کس طرح تجھے اے دوست بے وفا لکھوں
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیںّْ
خدا نکردہ کہ میں تیرا مرثیہ لکھوں
(احمد فراز)
( پسِ انداز موسم)

زندگی

زندگی


بر تر از اندیشئہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تُو اُسے پیمانہِ افروز و فردا میں نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دَم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے، ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی
آشکارا ہے یہ اپنی قوتِ تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
قلزمِ ہستی سے تُو ابھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
خام ہے جب تک تُو ہے مٹی کا ہے اِک انبار تُو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تُو
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
زندگی کی قوتِ پنہاں کو کر دے آشکار
تا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے
خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب
تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے
سائے گردوں نالہءشب کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصہِ محشر میں ہے
!پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
(علامہ اقبال)
(بانگِ درا)

خوش نصیب

خوش نصیب

”خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے“
(واصف علی واصف)
واصف علی واصف کا کہا گیا یہ ایک فقرہ پوری انسانی زندگی کا خلاصہ ہے۔ ہم ایک مطمئن زندگی اِس اصول پہ عمل کر کے گزار سکتے ہیں۔ ہمارا دامن شیشے کی طرح صاف اور پانی کی طرح شفاف ہو سکتا ہے۔ ہمارا ایمان کامل ہو سکتا ہے۔ ہمارا اللہ پر یقین اور مضبوط ہو سکتا ہے۔ صرف یہ سوچ کر کہ مالکِ کائنات نے جو ہمارے لئے لکھ دیا ہے وہی سب سے بہتر ہے۔ ہم اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ہمارا پروردگار ہے، اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور پھر ایک بنانے والا اپنی چیز کے بارے زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اُس کے لئے کیا اچھا ہے اور کیابرا ہے۔ مگر ہم انسان شاید ہم نے اِس سوچ کو اپنی سرشت کا حصہ بنا چکے ہیں اگر یہ ہوتا تو زیادہ اچھا تھا، اگر وہ ہوتا تو زیادہ اچھا تھا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو ہو گیا وہی سب سے بہتر تھا۔
میں اس زمن میں ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا کہ ایک شخص ہر قسم کی دنیاوی دولت سے مالا مال ہے، عزت، شہرت، روپیہ، پیسہ ہر نعمت اُس کو میسر ہے، مگر پھر بھی وہ پریشان رہتا ہے، کسی تذبذب کا شکار ہے، کوئی انجانا غم اُس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے، اس کو کسی صورت اطمینان نصیب نہیں ہو رہا۔ اسی کیفیت کی وجہ سے گھر میں ہر وقت بے سکونی فضا چھائی رہتی ہے، لڑائی جھگڑا معمول بن گیا ہے، المختصر کہ ہر چیز ہوتے ہوئے بھی کچھ میسر نہیں ہے۔ جبکہ اس کے برعکس وہ شخص جو فقر و فاقہ کی زندگی بسر کر رہا ہے، تنگ دست بھی ہے، تہی دست بھی، مگر اس کا دل ایمان و یقین کی دولت سے مالامال ہے، کچھ نہ بھی ہوتے ہوئے سب کچھ میسر ہے۔ اس کا قلب نور کی دولت سے مالا مال ہے۔ وہ اپنے نصیب پر خوش ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھتا ہے اور بقول کسے ”یہ خود انفرادیت بہت بڑا اعزاز ہے“۔“
خوش نصیبی کا تعلق ہم علامہ اقبال کے فلسفہءخودی کے ساتھ بھی جوڑ سکتے ہیں  کہ جس انسان کو اللہ پر جتنا کامل یقین ہو، وہ اتنا زیادہ خودی کے قریب ہو جاتا ہے اور سکونِ قلب کی دولت انسان کے قدموں میں بچھتی چلی جاتی ہے۔ بے شک اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کوسکون ملتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آ رہا ہے، آپ سے شئیر کر دیتا ہوں، کہا جاتا ہے کہ کسی گاﺅں میں دو بھائی رہتے تھے، ایک دفعہ ایک چڑیا اُن کے پاس آئی اور کہا کہ میں دور دیس جا رہی ہوں، میں وہاں سے تمہیں ہر سال دو پتے لا کر دیا کروں گی، ایک اطمینان کا پتہ اور ایک دولت کا پتہ، تمہیں کون کونسا پتہ چاہئے، بڑے بھائی نے اطمینان کا پتہ اور چھوٹے بھائی نے لالچ کی وجہ سے دولت کا پتہ منگوایا۔چڑیا اُن کو پتے لا کر دیتی رہی۔ بڑا بھائی غریب رہا مگر مطمئن زندگی بسر کرتا رہا جبکہ چھوٹا بھائی امیر ہوتا گیا مگر لڑائی جھگڑے بڑھتے رہے۔ یہاں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ پیسہ دنیاوی سکون تو بے شک مہیا کر دے مگر روحانی سکون صرف اطمینانِ قلب سے ہی میسر آتا ہے اور یہ اسی انسان کے حصے میں آ سکتا ہے، جو اپنے نصیب پر خوش ہے نہ کہ اس انسان کے حصے میں جو ہر وقت محرومئی آرزو کا شکوہ کرتا پھرے۔
محرومئی آرزو کا شکوہ کرنا
ہے رنج میں اور رنج پیدا کرنا
(محمد بلال اعظم)


!اے میرے سارے لوگو

!اے میرے سارے لوگو

اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جو
اس سے پہلے مری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی

پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بارود کی بُو پھیلی ہے
پھر سے ”تُو کون ہے میں کون ہوں“ آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے

مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے
میرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا

پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر ہوئیں عام وہی اہلِ ریا کی باتیں
نعرئہ حُبِّ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں

اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبحِ وحشت کی طرح شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشہءدل کی طرح آئینہءجاں کی طرح

پھر کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاﺅں کے دیے
پھر کہاں شبنمیں چہروں پہ رفاقت کی ردا
صندلیں پاﺅں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگارِ حنا

دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بال رویا
مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دو نیم
نوکِ دشنہ سے کھچی تھی مری دھرتی پہ لکیر

آج ایسا نہیں، ایسا نہیں ہونے دینا
اے مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہو گی
میرے دل گیر مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لئے
خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو

(احمد فراز)
(پس انداز موسم)

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

غزل

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غمِ دنیا بھی غمِ ےار میں شامل کر لو
نشّہ بڑھتا ہے شرابیں جب شرابوں میں ملیں
تُو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا!
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ ہم کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو شخّص تمنا کے سرابوں میں ملیں
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)

محاصرہ

محاصرہ

مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اُس کے
فصیلِ شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے

وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود اُس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سپردِ دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے

تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پہ ایوانِ کجکلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت بھی حلف اٹھانے کو
مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں

تم اہلِ حرف کے پندار کے ثناگر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اِک مصاحبِ دربار کے اشارے پر
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں

قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے پاس ہے کون آس پاس تو دیکھو

سو یہ شرط ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو

یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اُسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کِسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اِک نیا سورج تراش لاتی ہے


سو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لئے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اُسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت
اُسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ

مرا قلم نہیں کردار اُس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کِسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

مرا قلم نہیں اس نقب زن کا دستِ ہوس
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دُزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اُچھالتا ہے

مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلّغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کا
جو اپنے چہرے پہ دُہرا نقاب رکھتا ہے

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لئے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تِیر کی ہے

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عُمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

سرشتِ عشق نے افتادگی نہیں پائی
!تو قدِ سرو نہ بینی و سایہ پیمائی

(احمد فراز)  
(بے آواز گلی کوچوں میں)


یہ شاہکار نظم اب احمد فراز کی زبان میں بھی ملاحظہ فرمائیں۔
کلام بہ زبانِ شاعر


شئیر کیجیے

Ads 468x60px