ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے(اس نبیﷺ کی دعوت) کو مان لیا ہے اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو!اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ پھر جن لوگوں نے دعوت حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لئے اچھا انجام ہے۔
علامہ اقبال کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے سوا'عالم اسلام کے تمام خطوں پرغاصب استعماری مسلط تھے۔سلطنت عثمانیہ داخلی خلفشار اورکمزوریوں میں گرفتار تھی'اس لئے اس کے مغربی دشمن اسے The Sick Man Of Europe کہتے تھے'اوراس پردندان آزتیزکئے بیٹھے تھے۔20ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندوستان میں خلافت کی بقا اوربحالی کے لئے جو تحریک شروع ہوئی ،اقبال اس کے پوری طرح مدیّد تھے۔یہی زمانہ تھا جب یہودی سرزمین فلسطین میں اپنے قدم جمارہے تھے مگرمجموعی حیثیت سے 'مسئلہ فلسطین 'ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔یہود، فلسطین کے اصل باشندے (Son of the Soil) نہیں ہیں۔وہ تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں واردہوئے'یہاں کے قدیم فلسطینیوں کونکال باہر کیا اور خود ان کی سرزمین پرقبضہ کرکے بیٹھ گئے۔آئندہ صدیوںمیں یہود کئی بار فلسطین سے نکالے گئے ہیں اوران کے ہیکل سلیمانی کوبھی نیست ونابود کردیاگیا۔ان کی دربدری کے زمانے میں پورے یورپ میں کوئی انہیں منہ نہ لگاتاتھا۔یہ مسلمان تھے جنہوں نے ان کی دستگیری کی۔خاص طور پراندلس کے مسلم حکمرانوں کے حسن سلوک کی وجہ سے 'اندلس میں یہودطویل عرصے تک نہایت خوش وخرم رہے اورامن واطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔پھر سقوط غرناطہ کے بعدجب عیسائیوں نے انہیںکھدیڑکروہاں سے نکالاتو وہ :''نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ''کی سی کیفیت سے دوچار ہو ئے، ایک بارپھر پورے جہاں میں انہیں کہیں اماں ملی تو عثمانی ترکوں کے ہاں۔یہود مو رخ سلطان سلیم عثمانی (1524ءتاء1547)کے اس احسان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے دیوارگریہ کی جگہ دریافت کرکے اس جگہ کو صاف کراکے یہودکووہاں جانے اورگریہ کرنے کی اجازت دی۔احسان فراموشی یہود کی گھٹی میںپڑی ہے۔عثمانی سلطنت میں رہتے ہوئے وہ آسودہ خوش حال ہوئے توانہوں نے پرپرزے نکالے اور فلسطین اوربیت المقدس پرقبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔معروف واقعہ ہے کہ یہودی دانشور اور رہنما ڈاکٹر تھیوڈورہرزل نے سلطان عبدالحمید ثانی کومالی امداد کالالچ دے کر''یہودی وطن''کے لئے ارض فلسطین کا ایک حصہ خریدنے کی درخواست کی جسے سلطان نے حقارت سے ٹھکرادیا(فلسطین اس وقت تک سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا)۔اس پر یہودی انتقام پراترآئے۔سلطنت عثمانیہ اور سلطان کے خلاف ان کی سازشیں رنگ لائیں۔ان کی پہلی کامیابی وہ تھی جب انجمن اتحاد وترقی کی وزارت کے ذریعے 1914ءمیں ایک ایسا قانون پاس کرایاگیا'جس کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں اورجائدادیں خریدنے کی اجازت مل گئی۔1916ءمیں وہ برطانیہ سے صہیونیت کی پشت پناہی کے طلب گار ہوئے۔برطانیہ نے اس درخواست کواعلانِ بالفور(دسمبر1917) کی شکل میں پذیرائی بخشی۔انگریزوں کی 'بددیانتی کے شاہ کار'اعلان بالفور کوجنگ عظیم اول کے تمام اتحادیوں کی توثیق حاصل تھی۔جنگ عظیم اوّل (1914ءتا1918)کے خاتمے پربرطانیہ نے عربوں سے کئے گئے تمام تروعدوں سے انحراف کرتے ہوئے فلسطین پرقبضہ کرلیا۔جس مجلس اقوام (نیشن آف لیگ)کے بارے میں اقبال نے کہاتھا
بہرِتقسیمِ قبور'انجمنے ساختہ اند
اس نے بھی 1922میں یہ خطہ برطانیہ کے انتداب (mandate) میں دے دیا۔یہ برطانوی اقتدار ایک یہودی حکومت ہی کے مترادف تھا'کیونکہ انگریزوں نے اپنی طرف سے فلسطین میں اپنا جو پہلا ہائی کمشنر مقرر کیا (سربرہٹ سیموئل) وہ بھی یہودی تھا۔اسی زمانے میں مقاماتِ مقدسہ کے متعلق تنازعات کے حل کے لئے ایک رائل کمیشن کے قیام کی تجویز انگریزوں کے زیر غور تھی۔ایک مسلمان ممبرکے طور پرعلامہ اقبال کوکمیشن کا ممبر بننے کی پیش کش کی گئی مگرانہوں نے بوجوہ معذرت کرلی۔مسلمانان لاہور نے 7ستمبر 1929 کوانگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف بطوراحتجاج ایک جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔اسی زمانے میں یروشلم میں فلسطینیوں کے قتل وغارت کے الم ناک واقعات رونما ہوئے تھے۔آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں یہودیوں کی ''ہولناک سفاکی ''کی مذمت کی۔علامہ نے یہودیوں کویاددلایا کہ ہیکل سلیمانی کے محل وقوع کی دریافت حضرت عمر نے کی تھی اور یہ ان پرحضرت عمر کا احسان ہے۔پھر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوںنے بقول اقبال:یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کونہ صرف پناہ دی بلکہ انہیں اعلیٰ مناصب پرفائز کیا۔''یہ کیسی احسان فراموشی ہے کہ بالفاظ اقبال:''فلسطین میں مسلمان'ان کی عورتیں اوربچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے جارہے ہیں۔''دراصل اعلانِ بالفور ہی کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطینیوں کوان کے وطن سے بے دخل کرکے زورزبردستی کے ذریعے ان کی زمینوں پرقبضہ کرنا شروع کردیاتھا۔ان کے دیہات کے دیہات تباہ کردیے گئے۔اگرکسی نے مزاحمت کی تواسے قتل وغارت کانشانہ بنایاگیا۔سفرانگلستان(1931) کے دوران میں'جہا ںبھی موقع ملا،علامہ اقبال نے فلسطین کے بارے میں کلمہ خیر کہنے سے گریز نہیںکیا 'مثلاً:ایک موقع پرانگریزوں کواہل فلسطین کے ساتھ انصاف کی تلقین کی'اورفرمایا کہ اعلان بالفور بالکل منسوخ کردینا چاہیے۔علامہ اقبال پرمسئلہ فلسطین کی نزاکت اوراہمیت اس وقت اور زیادہ واضح ہوئی جب انہوں نے بذات خود فلسطین کاسفرکیا۔دسمبر1931ءمیں فلسطین کے نوروزہ سفرکااصل مقصد مو تمر عالم اسلامی (اسلامی کانفرنس) میں شرکت تھی۔کانفرنس کے داعی سیدامین الحسینی تھے۔اس میں تقریباً 27ملکوں اورعلاقوں کے مندوبین شامل تھے جن میں ارباب علم وفضل بھی تھے اورسیاسی اورملی راہنما بھی۔اسی طرح متعدد واجب الاحترام بزرگ شخصیات اورمجاہدین آزادی اور اپنے اپنے ملکوں کی سیاست میں سرگرم ممبران پارلیمنٹ بھی۔گویا قبلہ اول کے شہر میں عالم اسلام کی منتخب شخصیتیں جمع تھیں۔یوں تو اس کانفرنس کے کئی مقاصدتھے لیکن سب سے اہم مقصدیہ تھا کہ مسلمانوںکو فلسطین پریہودیوں کے ناجائز قبضے کے سنگین مسئلے کااحساس دلایا جائے اور صہیونی خطرے کے خلاف اتحاد عالم اسلام کی تدابیر پرغور کیا جائے۔کانفرنس کے دنوںمیں علامہ اقبال اوران کے ہمراہ غلام رسول مہر کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک رہے۔ایک نشست میں علامہ اقبال کونائب صدر بنا کر اسٹیج پربٹھایا گیا۔انہوں نے بعض کمیٹیوں کے اجلاس میں شریک ہو کر رپورٹیں مرتب کرنے میں بھی مددکی۔قیام فلسطین کے دوران میں علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کو جتنا بھی وقت اور موقع ملتا ' وہ مقامات مقدسہ اور آثار قدیمہ کی زیارت کو نکل جاتے۔ انہوں نے بیت اللحم میں کلیسا ئے مولد مسیح دیکھا اور الخلیل میںمتعدد پیغمبروں کے مدفنوںکی زیارت بھی کی۔ بیت المقدس شہر میں بھی انہوں نے بہت سے قابل دید مقامات 'عمارات اور آثاردیکھے۔ ایک دن موقع پاکر انہوں نے فلسطین کے اسلامی اوقاف کا بھی معائنہ کیا۔کانفرنس کے مندوبین کو فلسطین کے دوسرے شہروں کا دورہ کرنے کی دعوت ملی'مگر وہ سب جگہ نہیں جاسکے۔ قیام کے آخر ی دن شام کی نشست میں اقبال نے ایک موثرتقریرکی 'جس میں عالم اسلام کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو الحادمادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے۔ میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ دل سے مسلمان بنیں۔ مجھے اسلام کے دشمنوں سے اندیشہ نہیں ہے 'لیکن خود مسلمانوں سے مجھے اندیشہ ہے۔ اقبال نے نوجوانوں کاخاص طور پر ذکر کیا اور مندوبین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وطنوں کوواپس جاو تو روح اخوت کوہر جگہ پھیلا دو اوراپنے نوجوانوں پرخاص توجہ دو۔سفرفلسطین سے واپس آنے کے بعد بھی اقبال وائسرائے ہند اوربرطانوی اکابر کو برابر احساس دلاتے رہے کہ برطانیہ کی فلسطین پالیسی صریحاً مسلم مخالفانہ ہے۔اقبال نے اپنا یہ مطالبہ بھی برابر جاری رکھا کہ فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکا جائے او راعلان بالفور واپس لیا جائے۔اقبال نے یہ بھی کہا کہ برطانوی پالیسی کے سبب مسلمانان ہند میں زبردست ہیجان واضطراب پیدا ہو رہا ہے۔اسی کا نتیجہ تھا کہ 24،25ستمبر1937ءکوکلکتے میں فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی۔علامہ اقبال اپنی کمزور صحت اوربیماری کے سبب اس میں شریک نہ ہو سکے لیکن وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار اس طرح کر رہے تھے۔
جلتا ہے مگر شام وفلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
اسی زمانے میں انہوں نے کہا
خاک فلسطین پہ یہودی کا ہے اگر حق
ہسپانیہ پرحق نہیں کیوں اہل عرب کا
مقصدہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد ورطب کا
یہ ''مقصدہے… کچھ اور''اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اپنے استعماری عزائم کو جاری رکھنے کے لئے برطانیہ مشرقی وسطیٰ میں ایک مستقل اڈایا ٹھکانا بنانا چاہتا تھا مگرعلامہ اقبال اسے عالم اسلام کے لئے ازحد خطرناک سمجھتے تھے اوراس کے سدباب کے لئے وہ بڑے سے بڑا اقدام اٹھانے کے لئے بھی تیار تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے نام 7اکتوبر 1937ءکے خط میں لکھتے ہیں''ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیارہوں جس سے اسلام اورہندوستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پرمغرب کا ایک اڈابننا اسلام اورہندوستان دونوں کے لئے پر خطرہے۔''اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اقبال آزادی فلسطین کی خاطر انتہائی اقدام کے لئے بھی پر جوش اور پر عزم تھے۔فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت حماس،فلسطینیوں کی موجودہ تحریک آزادی میں مزاحمت کی ایک تابندہ علامت بن چکی ہے'اس نے علامہ اقبال کی نصیحت کو حرزجاں بنا لیا ہے اوروہ یہود کی غلامی سے نجات کے لئے اپنی سی تگ ودو میں مصروف ہے۔اس کے برعکس 50سے زائد مسلم ملکوں کے حکمران الاماشاءاللہ 'صہیونیوں اورامریکیوں کے سامنے جھلک چکے ہیں یاپھر کچھ بک چکے ہیں۔یہ حکمران خصوصاً مسلم بادشاہتیں پسپائی اختیار کر چکی ہیں۔کیوں؟اس لئے کہ ان کاایمان کمزور ہے۔علامہ اقبال کی
چشم بصیرت نے پون صدی پہلے فلسطینیوں کوخبردارکیاتھاکہ عرب بادشاہتوں پرہرگز اعتماد نہ کریں'کیونکہ یہ بادشاہ لوگ مسئلہ فلسطین پرکوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔پون صدی'اقبال کی بصیرت پرگواہی دے رہی ہے۔
واصف علی واصف کا کہا گیا یہ ایک فقرہ پوری انسانی زندگی کا خلاصہ ہے۔ ہم ایک مطمئن زندگی اِس اصول پہ عمل کر کے گزار سکتے ہیں۔ ہمارا دامن شیشے کی طرح صاف اور پانی کی طرح شفاف ہو سکتا ہے۔ ہمارا ایمان کامل ہو سکتا ہے۔ ہمارا اللہ پر یقین اور مضبوط ہو سکتا ہے۔ صرف یہ سوچ کر کہ مالکِ کائنات نے جو ہمارے لئے لکھ دیا ہے وہی سب سے بہتر ہے۔ ہم اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ہمارا پروردگار ہے، اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور پھر ایک بنانے والا اپنی چیز کے بارے زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اُس کے لئے کیا اچھا ہے اور کیابرا ہے۔ مگر ہم انسان شاید ہم نے اِس سوچ کو اپنی سرشت کا حصہ بنا چکے ہیں اگر یہ ہوتا تو زیادہ اچھا تھا، اگر وہ ہوتا تو زیادہ اچھا تھا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو ہو گیا وہی سب سے بہتر تھا۔
میں اس زمن میں ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا کہ ایک شخص ہر قسم کی دنیاوی دولت سے مالا مال ہے، عزت، شہرت، روپیہ، پیسہ ہر نعمت اُس کو میسر ہے، مگر پھر بھی وہ پریشان رہتا ہے، کسی تذبذب کا شکار ہے، کوئی انجانا غم اُس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے، اس کو کسی صورت اطمینان نصیب نہیں ہو رہا۔ اسی کیفیت کی وجہ سے گھر میں ہر وقت بے سکونی فضا چھائی رہتی ہے، لڑائی جھگڑا معمول بن گیا ہے، المختصر کہ ہر چیز ہوتے ہوئے بھی کچھ میسر نہیں ہے۔ جبکہ اس کے برعکس وہ شخص جو فقر و فاقہ کی زندگی بسر کر رہا ہے، تنگ دست بھی ہے، تہی دست بھی، مگر اس کا دل ایمان و یقین کی دولت سے مالامال ہے، کچھ نہ بھی ہوتے ہوئے سب کچھ میسر ہے۔ اس کا قلب نور کی دولت سے مالا مال ہے۔ وہ اپنے نصیب پر خوش ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھتا ہے اور بقول کسے ”یہ خود انفرادیت بہت بڑا اعزاز ہے“۔“
خوش نصیبی کا تعلق ہم علامہ اقبال کے فلسفہءخودی کے ساتھ بھی جوڑ سکتے ہیں کہ جس انسان کو اللہ پر جتنا کامل یقین ہو، وہ اتنا زیادہ خودی کے قریب ہو جاتا ہے اور سکونِ قلب کی دولت انسان کے قدموں میں بچھتی چلی جاتی ہے۔ بے شک اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کوسکون ملتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آ رہا ہے، آپ سے شئیر کر دیتا ہوں، کہا جاتا ہے کہ کسی گاﺅں میں دو بھائی رہتے تھے، ایک دفعہ ایک چڑیا اُن کے پاس آئی اور کہا کہ میں دور دیس جا رہی ہوں، میں وہاں سے تمہیں ہر سال دو پتے لا کر دیا کروں گی، ایک اطمینان کا پتہ اور ایک دولت کا پتہ، تمہیں کون کونسا پتہ چاہئے، بڑے بھائی نے اطمینان کا پتہ اور چھوٹے بھائی نے لالچ کی وجہ سے دولت کا پتہ منگوایا۔چڑیا اُن کو پتے لا کر دیتی رہی۔ بڑا بھائی غریب رہا مگر مطمئن زندگی بسر کرتا رہا جبکہ چھوٹا بھائی امیر ہوتا گیا مگر لڑائی جھگڑے بڑھتے رہے۔ یہاں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ پیسہ دنیاوی سکون تو بے شک مہیا کر دے مگر روحانی سکون صرف اطمینانِ قلب سے ہی میسر آتا ہے اور یہ اسی انسان کے حصے میں آ سکتا ہے، جو اپنے نصیب پر خوش ہے نہ کہ اس انسان کے حصے میں جو ہر وقت محرومئی آرزو کا شکوہ کرتا پھرے۔
یہ بلاگ بنیادی طور پہ اردو شعر و ادب کے متعلق ہے، علامہ اقبالؒ کے متعلق مضامین بھی آپ کو یہاں ملیں گے۔
اس بلاگ کی تزئین و آرائش میں مختلف اردو فونٹس استعمال کیے گئے ہیں۔ اگر آپ بلاگ سے مکمل طور پہ محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو اس ربط سے ضروری اردو فانٹس کا پیک ڈاؤنلوڈ کر کے اپنے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ میں انسٹال کر لیجیے۔