زندگی

زندگی


بر تر از اندیشئہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تُو اُسے پیمانہِ افروز و فردا میں نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دَم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے، ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی
آشکارا ہے یہ اپنی قوتِ تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
قلزمِ ہستی سے تُو ابھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
خام ہے جب تک تُو ہے مٹی کا ہے اِک انبار تُو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تُو
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
زندگی کی قوتِ پنہاں کو کر دے آشکار
تا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے
خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب
تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے
سائے گردوں نالہءشب کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصہِ محشر میں ہے
!پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
(علامہ اقبال)
(بانگِ درا)

No Response to "زندگی"

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


شئیر کیجیے

Ads 468x60px