غزل
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غمِ دنیا بھی غمِ ےار میں شامل کر لو
نشّہ بڑھتا ہے شرابیں جب شرابوں میں ملیں
تُو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا!
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ ہم کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فراز
جیسے دو شخّص تمنا کے سرابوں میں ملیں
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)
No Response to "اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔