دو شاعر۔۔۔احمد فراز اور محسن نقوی۔۔۔ایک
زمین۔۔۔دو غزلیں
محسن
نقوی کی غزل:
سایۂ گُل سے بہر طَور جُدا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا
اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا
موسمِ گُل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا
قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رِہا ہو جانا
قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رِہا ہو جانا
قصرِ آواز میں اک حشر جگا دیتا ہے
اُس حسیں شخص کا تصویر نما ہو جانا
اُس حسیں شخص کا تصویر نما ہو جانا
راہ کی گرد سہی ، مائلِ پرواز تو ہُوں
مجھ کو آتا نہیں نقشِ کفِ پا ہو جانا
مجھ کو آتا نہیں نقشِ کفِ پا ہو جانا
زندگی تیرے تبسّم کی وضاحت تو نہیں؟
موجِ طوفاں کا اُبھرتے ہی فنا ہو جانا
موجِ طوفاں کا اُبھرتے ہی فنا ہو جانا
کیوں نہ اُس زخم کو میں پھول سے تعبیر
کروں
جس کو آتا ہو ترا "بندِ قبا" ہو جانا
جس کو آتا ہو ترا "بندِ قبا" ہو جانا
اشکِ کم گو! تجھے لفظوں کی قبا گر نہ
مِلے
میری پلکوں کی زباں سے ہی ادا ہو جانا
میری پلکوں کی زباں سے ہی ادا ہو جانا
قتل گاہوں کی طرح سُرخ ہے رستوں کی
جبیں
اک قیامت تھا مِرا آبلہ پا ہو جانا
اک قیامت تھا مِرا آبلہ پا ہو جانا
پہلے دیکھو تو سہی اپنے کرم کی وسعت
پھر بڑے شوق سے تُم میرے خدا ہو جانا
پھر بڑے شوق سے تُم میرے خدا ہو جانا
بے طلب دَرد کی دولت سے نوازو مجھ کو
دل کی توہین ہے مرہونِ دُعا ہو جانا
دل کی توہین ہے مرہونِ دُعا ہو جانا
میری آنکھوں کے سمندر میں اُترنے والے
کون جانے تِری قسمت میں ہے کیا ہو جانا!
کتنے خوابیدہ مناظر کو جگائے محسن!
جاگتی آنکھ کا پتھرایا ہُوا ہو جانا!
کون جانے تِری قسمت میں ہے کیا ہو جانا!
کتنے خوابیدہ مناظر کو جگائے محسن!
جاگتی آنکھ کا پتھرایا ہُوا ہو جانا!
(بندِ قبا: 1969)
احمد فراز کی غزل:
بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
تم بھی اوروں کی طرح مجھ سے جدا ہو
جانا
میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی
بوندیں
تم بھی پا بستۂ زنجیرِ حنا ہو جانا
گرچہ اب قرب کا امکاں ہے بہت کم پھر
بھی
کہیں مل جائیں تو تصویر نما ہو جانا
صرف منزل کی طلب ہو تو کہاں ممکن ہے
دوسروں کے لیے خود آبلہ پا ہو جانا
خلق کی سنگ زنی میری خطاؤں کا صلہ
تم تو معصوم ہو تم دُور ذرا ہو جانا
اب مرے واسطے تریاق ہے الحاد کا زہر
تم کسی اور پجاری کے خدا ہو جانا
(دردِ آشوب: 1966)
14 Response to "دو شاعر۔۔۔احمد فراز اور محسن نقوی۔۔۔ایک زمین۔۔۔دو غزلیں "
واہ واہ۔ سبحان اللہ۔ دل کو لطف اور دماغ کو راحت ملی غزلوں کی قرات سے۔
زبردست
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام
مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا
ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا
ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھُلنا
روتے روتے غمِ فُرقت میں فنا ہو جانا
گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہوس
کیوں ہے گردِ رہِ جَولانِ صبا ہو جانا
تاکہ تجھ پر کھُلے اعجازِ ہوائے صَیقل
دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا
بخشے ہے جلوۂ گُل، ذوقِ تماشا غالبؔ
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
مرزا اسد اللہ خان غالب
اتنا آساں کہاں سامانِ بقا ہو جانا
دل میں احساسِ فنا کا بھی فنا ہو جانا
عشق دراصل ہے بے لوث وفا ہو جانا
عشق کی راہ میں خود سے بھی جدا ہو جانا
انکے ماتھے پہ لکیریں نہیں آنے پائیں
انکے ہاتھوں کی لکیروں کی حنا ہو جانا
ہونٹ ناراض تھے، آنکھیں تھیں مجسم الفت
انکے بس میں ہی نہیں مجھ سے خفا ہو جانا
لاکھ کرتی ہو کسی بت کی پرستش دنیا
کیسے ممکن ہے بھلا بت کا خدا ہو جانا
بنتا ہے ایک مرض موت کا باعث ورنہ
ہر مرض کے لئے ممکن ہے شفا ہو جانا
اسکو ایماں کہو یا عشقِ حقیقی جاوید
مرحلہ کوئی ہو راضی برضا ہو جانا
ڈاکٹر جاوید جمیل
بند آنکھو! وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا
اور یوں پھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا
جب بھی تم چاہو جدا ہونا، جدا ہو جانا
تیرے آنے کی بشارت کے سوا کچھ بھی نہیں
باغ میں سوکھے درختوں کا ہرا ہو جانا
اک نشانی ہے کسی شہر کی بربادی کی
ناروا بات کا یک لخت روا ہو جانا
تنگ آ جاؤں محبت سے تو گاہے گاہے
اچھا لگتا ہے مجھے تیرا خفا ہو جانا
سی دیے جائیں مِرے ہونٹ تو اے جانِ غزل
ایسا کرنا مِری آنکھوں سے ادا ہو جانا
بے نیازی بھی وہی اور تعلق بھی وہی
تمہیں آتا ہے محبت میں خدا ہو جانا
اچھے اچھوں پہ برے دن ہیں لہٰذا فارسؔ
اچھے ہونے سے تو اچھا ہے برا ہو جانا
رحمان فارس
حکمِ حاکم ہی تھا عادل کی رضا ہو جانا
طے تھا پہلے سے سجنوا کو سزا ہو جانا
کل جو قاتل تھے سیاست میں ہوئے مِیت ابکے
’باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا،
سارے ماں باپ تھے بچّوں سے بچھڑنے والے
تھا اُدھر پھول کا خوشبو سے جدا ہو جانا
ہو چلا کام جو برسوں کا دنوں میں تو لگا
قید سے قبل ہی قیدی کا رِہا ہو جانا
’ہاں، کا اک لفظ دُلہنیا سے جو کہلایا گیا
تھا دُلہنیا پہ غلامی کا روا ہو جانا
عمر کی شامِ تلک بُھولے نہ بُھولا اب تک
اُس بُتِ شوخ کے پیکر کی قبا ہو جانا
ہے مہا پاپ تو ماجد ہے سرِ ارض یہی
دیکھتے دیکھتے نیّت کا بُرا ہو جانا
ماجد صدیقی
جوشِ الفت میں وہ قطرے کا فنا ہو جانا
اُس پہ دریا کا وہ لب تشنہ سوا ہوجان
کوئی انداز ہے! رہ رہ کے ، خفا ہوجانا
اپنے بندوں سے، یہ کھچنا کہ خدا ہوجانا
ضبطِ غم سے مری آہوں کے شرارے کجلائے
بے ہوا، کام ہے شعلے کا فنا ہوجانا
اپنے نیرنگیء انداز کا اعجاز تو دیکھ
ابھی شوخی تھی، ابھی اس کا حیا ہوجانا
اس زمانے میں نہیں کوئی کسی کا ہمدرد
دل کے دو حرف ہیں، اُن کو بھی جدا ہوجانا
ضعف سے اُٹھ نہیں سکتا تیرا بیمار فراق!
اے اجل! تو ہی کرم کر کے ذرا ہو جانا
شاعرِ زا ر نہیں کوئی بھی معیار مرا
پھر بھی مشہور ہے کھوٹے کا کھرا ہو جانا
آغا شاعر قزلباش دہلوی
میں نہ چاہوں کسی فانی میں فنا ہوجانا
تم اگر ملنا مجھے، میرے خدا ہوجانا
بول بن جاؤں کوئی، گیت کوئی بن جاؤں
چاہتا ہوں ترے ہونٹوں سے ادا ہوجانا
ایک احساس رفاقت کو سُبک رکھتا ہے
کبھی خوشبو تو کبھی تیرا ہَوا ہوجانا
رنگِ تنہائی لپکتا ہے تمہیں چَھونے کو
ہو اگر بس میں تمہارے تو جُدا ہوجانا
اب خموشی کی سزا ملتی رہے گی شاید
ہے مکّرر تو کٹھن کُن کی صدا ہوجانا
دلِ وحشی کا چلن ورنہ بغاوت ہے ظفر
عشق سکھلاتا ہے راضی بہ رضا ہوجانا
صابر ظفر
میری جانب تیرا مائل وہ ذرا ہو جانا
جس طرح دہر کی دولت کا عطا ہو جانا
نام آتے ہی ترا لَب پہ دُعا ہو جانا
ہو یہ ممکن مرے نالوں کا رَسا ہو جانا
میری قسمت میں نہ تھا وعدہ وفا ہو جانا
تھا یہ لازم مرے شکوے کا بجا ہو جانا
دلِ بسمل کے تڑپنے کا سبب اتنا ہے
اے مسیحا ترا مجھ سے خفا ہو جانا
دل لگانے کی بھلا اور سزا کیا ہو گی
روتے روتے غمِ فُرقت میں فنا ہو جانا
تیری بیگانہ روی مار نہ ڈالے مجھ کو
یہ ترا روٹھ کے جانا یوں خفا ہو جانا
یہ کرامات کسی اور کو حاصل ہیں کہاں
اک نظر سے ہی مریضوں کو شفا ہو جانا
کس طرح لوٹ کے آتا تومری دُ نیا میں
تھا مقدر میں یوں ہی تجھ سے جُدا ہو جانا
اب نہ مجنوں کے نہ فرہاد کےِ قصّے چھیڑو
تم کو آتا نہیں اُلفت میں فِد ا ہو جانا
زرقا مفتی
دل کی دھڑکن کا ہم آہنگِ دعا ہو جانا
بابِ تاثیر کا آغوش کشا ہوجانا
میرا ایماں ہے حضوری میں ڈھلے گی دوری
" درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا "
مجھ کو آتا ہے عذابِ شبِ ہجراں کا علاج
یاد کرنا انہیں اور نعت سرا ہو جانا
وہ بلائیں تو سہی اذنِ سفر تو آئے
تَو سنِ شوق کو آتا ہے ہَوا ہو جانا
میں بھی سرکار کے کُوچے کا گدا ہوں یارب
میرے سجدوں کو بھی آجائے ادا ہو جانا
آپ کی سیرتِ اطہر نے سکھایا ہے ہمیں
سر بہ سر بندہِ تسلیم و رضا ہو جانا
تجھ پہ کھل جائیں گے الفاظ کے اسرار ایاز
ان کے در پر ہمہ تن حرفِ دعا ہو جانا
ایاز صدیقی
بلال بھائ،
میرے خیال میں اسی زمیں میں کم از کم دس مزید غزلیں ہیں مختلف شعرا کی، پھر کسی وقت پوسٹ کروں گا، اور ایک بات آپ نے یہاں فیس بک سے لاگ ان ہو کر کمنٹس کاآپشن کیوں نہیں رکھا،
شکریہ آپ کا فین
راجہ خان
@Raja Khanراجہ خان بہت اعلیٰ۔۔آپ کے ادبی ذوق کی داد دینے کو جی چاہتا ہے
کون پکڑے غالب کے تخیل کو....واہ
ویل ڈن برادری
اگر ممکن ھو تو اس زمین ہر لکھا گیا کلام مجھے ای میل کر دیں
qureshi3634@gmail.com
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔