ایک زمین۔۔۔دو شاعر (احمد فراز، نصیر ترابی)۔۔۔ دو غزلیں
احمد فراز کی غزل:
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیںبہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ
تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
نصیر ترابی کی غزل:
دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں
جیسے
نقشِ پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے
تھی کبھی راہ جو ہمراہ گزرنے والی
اب حذر ہوتا ہے اس رات سے آتے جاتے
شہرِ بے مہر کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
ایک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے
پارۂ ابر گریزاں تھے کہ موسم اپنے
دُور بھی رہتے مگر پاس بھی آتے جاتے
ہر گھڑی اک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
اُ س کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے
راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے
9 Response to "ایک زمین۔۔۔دو شاعر (احمد فراز، نصیر ترابی)۔۔۔ دو غزلیں "
بہت عمدہ ہے بلال بھائی۔۔۔خوبصورت، اگر تینوں شعرا کے ساتھ ان کا عرصہ بھی تحریر ہوتا تو لطف دوبالا ہو جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔خیر یہ بھی بہت ہے۔۔۔۔
بہت عمدہ۔۔۔
@Asad Qureshi
شکریہ اسد صاحب۔
آپ شعراء کے عرصۂ حیات کی بات کر رہے ہیں یا غزلیں تحریر کا عرصہ۔
ویسے اگر غزلوں کا عرصہ ہے تو پھر یہ بہت مشکل ہے۔ باقی دونوں کا تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ البتہ فراز کا کچھ قیاس کیا جا سکتا ہے۔
@عمران اقبال
شکریہ عمران صاحب
غور فرمائیے، شان الحق حقی کی غزل اس زمین میں نہیں ہے، اس کا قافیہ الگ ہے ۔
@محمد وارث
نشاندہی کا بہت شکریہ وارث بھائی۔
اپڈیٹ کر دی ہے پوسٹ۔
بہت عمدہ غزلیات شیئر کی ہیں بھائی۔
بہت شکریہ
عمدہ کولیکشن
غالبا" رات کی جگہ بھی راہ ہونا چاہئیے (دوسری غزل میں)۔ ۔ ۔ ۔ تھی کبھی راہ جو ہمراہ گزرنے والی
اب حذر ہوتا ہے اس راہ سے آتے جاتے
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔