کل احمد فراز کی آخری کتاب اے عشق جنوں پیشہ میں ایک نظم "قرۃ العین طاہرہ" پڑھنے کو ملی۔
نذرِ قرۃ العین طاہرہتجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برودل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دو بدوہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواںدجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُوقوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکنغنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بو بہ بودامِ خیالِ یار کے ایسے اسیر ہم ہوئےطبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہر خو بہ خوہم نے لباس درد کا قالبِ جاں پہ سی لیارشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پونقش کتابِ دل پہ تھا ثبت اُسی کا طاہرہؔصفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ توشیشۂ ریختہ میں دیکھ لعبتِ فارسی فرازؔخال بہ خال خد بہ خد نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو(احمد فراز)
(اے عشق جنوں پیشہ، ص106)
اس نظم کے متعلق جناب محترم سید زبیر صاحب نے نے کچھ معلومات مہیا کی ہیں جو واقعی پڑھنے کے قابل ہیں۔
اُن کی جازت سے یہاں شئیر کر رہا ہوں۔
قراۃ العین طاہرہ فارسی کی مشہور شاعرہ رہ چکی ہیں ، بہائی مذہب سے ان کا تعلق تھا اسی وجہ سے نہائت بے دردی سے انہیں قتل کیا گیا تھا ۔ خاوند ایران کے ایک مجتہد تھے ان سے طلاق لے لی تھی ۔صاحب دیوان تھیں ۔جاویدنامہ میں ایک غزل نوائی طاہرہ کے عنوان سے موجود ہے۔ احمد فراز کی اس غزل کو کسی حد تک اس کا ترجمہ کہا جاسکتا ہے ، علامہ اقبالؒ کی غزل بمعہ سلیس نثری ترجمہ حسب ذیل ہے:
نوای طاہرہ
گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ ، روبرو
شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ ، موبمو
اگر تجھ پہ میری نظر کچھ اس طرح پڑےکہ تو میرے بالکل سامنے ہو اور تیرا چہرہ میرے چہرے کے سامنے ہوتو پھر میں تیرے غم عشق کی تفصیل ایک ایک گہری بات اور رمز سے بیان کروں
از پی دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام
خانہ بخانہ در بدر ، کوچہ بکوچہ کوبکو
تیرا چہرہ دیکھنے کے لیےمیں صبح کی نرم ولطیف ہوا کی مانند چلی پھری ہوں اور میں گھر گھر ،در در ،کوچہ کوچہ اور گلی گلی پھری ہوں
میرود از فراق تو خون دل از دو دیدہ ام
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم ، چشمہ بہ چشمہ جوبجو
تیرے فراق میں میرا خون دل میری آنکھوں سے رواں ہے اور وہ دریادریا،سمندر سمندر،چشمہ چشمہ اور ندی ندی بہہ رہا ہے
مہر ترا دل حزین بافتہ بر قماش جان
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ ، تار بہ تار پو بہ پو
میرے غمزدہ دل نے تیری محبت کو جان کے قماش پر بن لیا ہے،دھاگہ دھاگہ ،باریک باریک، تار تار اور تانا بانا خوب ملا کر بن لیا
در دل خویش طاہرہ ، گشت و ندید جز ترا
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بتو
طاہرہ نے اپنے دل کے اندر نظر ڈالی مگر اسے دل کے صفحہ صفحہ،گوشہ گوشہ پردہ پردہ اور تہہ در تہہ تیرے سوا کوئی نظر نہ آیا
سوز و ساز عاشقان دردمند
شورہای تازہ در جانم فکند
اہل درد عاشقوں کے پر سوز ہنگاموں نے میری جاں میں نئے ہنگامے برہا کردیے
مشکلات کہنہ سر بیرون زدند
باز بر اندیشہ ام شبخون زدند
پرانی مشکلات نے اپنا سر اٹھا لیا اور ایک مرتبہ پھر میری فکر پر شب خون مارا
قلزم فکرم سراپا اضطراب
ساحلش از زور طوفانی خراب
میری فکر کا سمندر پوری طرح طوفان خیز بن گیا اور طوفان کی شدت سے اس کا ساحل خراب ہو گیا
گفت رومی "وقت را از کف مدہ
اے کہ می خواہی کشود ہر گرہ
رومی نے کہا جو اپنی ہر مشک کا خواہاں ہے ، تو وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دے
چند در افکار خود باشی اسیر
"این قیامت را برون ریز از ضمیر
تو کب تک اپنے افکار میں اسیر رہے گا۔ضمیر کا یہ بوجھ باہر گرا دے
2 Response to "نذرِ قرۃ العین طاہرہ اور نوای طاہرہ "
قراۃ العین طاہرہ کی تلاق نہیں ہوئی تھی بلکہ انھوں نے اپنے شوہر پر فتواہ لگوا کر قتل کروا دیا تھا
Yes true! Susar ko bhi shayad
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔