غزل
وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات بھی کی اور تیرا نام بھی نہ لیا
خوشا وہ لوگ کہ محرومِ التفات رہے
ترے کرم کو بہ اندازِ سادگی نہ لیا
تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے
ہزار شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا
تمام مستی و تشنہ لبی کے ہنگامے
کسی نے سنگ اٹھایا کسی نے مینا لیا
فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات بھی تھی اندھیری چراغ بھی نہ لیا
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)
No Response to "وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔