غزل
سُن بھی اے نغمہ سنجِ کنجِ چمن اب سماعت کا اعتبار کسے
کون سا پیرہن سلامت ہے دیجیے دعوتِ بہار کسے
جل بجھیں دردِ ہجر کی شمعیں گھل چکے نیم سوختہ پیکر
سر میں سودائے خام ہو بھی تو کیا طاقت و تابِ انتظار کسے
نقدِ جاں بھی تو نذر کر آئے اور ہم مفلسوں کے پاس تھا کیا
کون ہے اہلِ دل میں اتنا غنی اس قدر پاس طبعِ یار کسے
کاہشِ ذوق جستجو معلوم داغ ہے دل چراغ ہیں آنکھیں
ماتمِ شہرِ آرزو کیجیے فرصتِ نغمہءقرار کسے
کون دارائے ملکِ عشق ہُوا کس کو جاگیر چشم و زلف ملی
خونِ فرہاد، برسرِ فرہاد“ قصرِ شیریں پہ اختیار کسے”
حاصلِ مشرب مسیحائی سنگِ تحقیر و مرگِ رسوائی
قامت یار ہو کہ رفعتِ دار ان صلیبوں کا اعتبار کسے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)
2 Response to "سُن بھی اے نغمہ سنجِ کنجِ چمن اب سماعت کا اعتبار کسے"
خونِ فرہاد، برسرِ فرہاد“ قصرِ شیریں پہ اختیار کسے”
زبردست
علی بہت بہت شکریہ، میری صرف یہی کوشش ہے کہ یہاں پر ایک ایک کر کے تمام شعراء کا کلام مکمل دیا جائے۔ احمد فراز کے کلام سے اس کام کی شروعات کی ہیں۔
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔