غزل
نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا بدن
سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوﺅں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن
دلِ فریب زدہ! دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قد و گیسو ہیں کل کہ دار و رسن
غریبِ شہر کسی سایہءشجر میں نہ بیٹھ
کہ اپنی چھاﺅں میں خود جل رہے ہیں سرو و سمن
بہارِ قرب سے پہلے اجاڑ دیتی ہیں
جدائیں کی ہوائیں محبتوں کے چمن
وہ ایک رات گزر بھی گئی مگر اب تک
وصالِ یار کی لذت سے ٹوٹتا ہے بدن
پھر آج شب ترے قدموں کی چاپ کے ہمراہ
سنائی دی ہے دلِ نامراد کی دھڑکن
یہ ظلم دیکھ کہ تُو جانِ شاعری ہے مگر
مری غزل میں ترا نام بھی ہے جرمِ سخن
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہءمذہب کبھی بنامِ وطن
ہوائے دہر سے دل کا چراغ کیا بجھتا
مگر فراز سلامت ہے یار کا دامن
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)
No Response to "نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔