غزل
دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اُڑا لے جائے
کون لایا تری محفل میں ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تری محفل سے اُٹھا لے جائے
اور سے اور ہوئے جاتے ہیں معیارِ وفا
اب متاعِ دل و جاں بھی کوئی کیا لے جائے
جانے کب ابھرے تری یاد کا ڈوبا ہُوا چاند
جانے کب دھیان کوئی ہم کو اُڑا لے جائے
یہی آوارگیِ دل ہے تو منزل معلوم
جو بھی آئے تری باتوں میں لگا لے جائے
دشتِ غربت میں تمہیں کون پکارے گا فراز
چل پڑو خود ہی جدھر دل کی صدا لے جائے
(احمد فراز)
(دردِ آشوب)
No Response to "دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے"
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔